رہے نہ روح میں پاکیزگی۔۔۔۔۔

78

آج کی دنیا ایک بہت بڑے پاگل خانے میں تبدیل ہوچکی ہے۔ پاگل پن کی علامات کیا ہوتی ہیں؟ پاگل رشتے نہیں پہچانتا۔ خون کے رشتے، تقدس کے رشتے۔ اس کی آنکھوں میں اجنبیت کی وحشت ٹپکتی ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ترین ممالک میں اکثر والدین اور اولاد باہم پہچان سے عاری ہیں۔ باپ کو اولاد کا اور اولاد کو باپ کا نام تک معلوم نہیں ہوتا۔ والدین کی اصطلاح بھی اب ڈھکوسلہ ہے، کیونکہ نکاح نہیں ہوتے۔ جانوروں کی سطح پر ’ریلیشن شپ‘ (تعلق استوار) ہوتا ہے اور کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ جاتا ہے۔ بچے حادثے کے طور پر دنیا میں آ جاتے ہیں۔ (اصطلاحوں کا ایک جنگل اُگا ہے۔) وہ ’کرائے کی ماں‘ (Surrogate Mother) بھی ہوسکتی ہے، جو ڈالروں کے عوض بچہ جن کر کسی کی گود میں ڈال دیتی ہے۔ یہ گودیں بھی تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ اصل ماں باپ کی جگہ (Foster Care)۔ پہلے رحم کرائے کا، پھر گود ترس کھاکر عارضی تحویل کی، دیکھ بھال کی….! رُل رلا کر ان جھاڑ جھنکار کرداروں کو سگے سوتیلے ماں باپ (اگر خوش نصیب ہوں تو) میسر آجائیں یا ماں کا مہربان بوائے فرینڈ یا باپ کی مہربان گرل فرینڈ کبھی پال لیتے ہیں۔ تعلیمی اداروں، چھوٹی موٹی نوکریوں، ریاست کی مہربانیوں سے پل ہی جاتے ہیں۔ ان حالات میں والدین کی پہچان، ان کی خدمت دیکھ بھال اور بڑھاپے بیماری میں خبر گیری….؟ ایں خیال است و محال است و جنون!
سو یہی جنون دیوانگی بڑھاپے خوار کرتی ہے۔ ریاست اولڈ ہوم چلاتی ہے۔ اولاد، پوتوں، نواسوں کا کیا تذکرہ۔ ویران متوحش ضعیفی! نرم گرم جوان اولاد کے مہربان لمس سے محروم، نرمی محبت سے جھکے شانے۔ ایک خواب ایک سراب۔ سو خالہ ماموں، چچا پھوپھی کا تذکرہ ہی کیا! رشتوں ناتوں کی دنیا پر آسیب کا سایہ ہے۔ پاگل کپڑے پھاڑتا ہے۔ کپڑے پہننے پر راضی نہیں ہوتا۔ آج یہی اس دنیا کا حال حشر ہے۔ عورت بالخصوص لباس سے محروم! قمیض ہے تو اٹنگی، ادھ موئی، کہیں آستین غائب، کبھی شروع ہی اتنی دیر سے اور اتنی دور سے ہوتی ہے کہ ساری مفلسی گریبان کے درپے ہوتی ہے۔ (مہذب انسان پاگل کو دیکھ کر حیا شرم سے ادھ موا ہوجاتا ہے۔)ٹانگیں بھی لباس سے محرومی کا شکار۔ یا مرد عورت پھنسی جین پہن کر جہاں سے جی میں آئے پھاڑ لیں گے۔ گرمی کا موسم خدا کسی مہذب انسان کو مغرب میں نہ دکھائے۔ بجلی کے جھٹکے سے کم موذی ثقافتی جھٹکے (Cultural Shock) نہیں ہوتے۔ ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیے….! پھول سے معصوم خوبصورت بچوں کو اجاڑنے، ہوس کا نشانہ بنانے کا عالمی سطح پراربوں ڈالر کا کاروبار ہے۔ اس سے بڑھ کر دیوانگی، مخبوط الحواس ہونے کا پیمانہ اور کیا ہوگا۔ عقائد، نظریات کی بنیاد پر آبادیاں، بستیاں جلا دی جائیں، ماؤں کی گود سے بچے چھین کر بھڑکتی آگ میں پھینک دیے جائیں۔ جرم صرف یہ ہو کہ یہ ایک خدا پر ایمان لانے کے مجرم ہیں۔ (میانمار کے روہنگیا مسلمان!) مگرمچھوں جیسے دیوہیکل مشینی جبڑوں والے بلڈوزر اچانک گھر گرا دیں، چھت سے محروم کردیں، نماز پڑھنے، اذان دینے، گائے کا گوشت کھانے، حجاب پر اصرار کرنے کے جرم میں۔  یہ امریکی لے پالک اسرائیل کے ہاتھوں دنیا کی سب سے بڑی 30 لاکھ فلسطینی آبادی والی جیل کے باسیوں کا مقدر بھی ہوسکتا ہے اور آج مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے سورما ،مسلمانوں کے گھر دکانیں، کاروباری مراکز تباہ کرنے والے بھی ہوسکتے ہیں۔ کیا یہ جنونی جتھے صحیح الدماغ سمجھے جائیں گے؟ جن کی زد میں صرف اموال اسباب وسائل ہی نہیں مرد (بوڑھے/ جوان) عورتیں بچے سبھی ہیں اور پھر اگر آپ دیکھیں کہ برطانیہ (چمکتی دمکتی ترقی یافتہ، اعلیٰ تعلیمی اداروں کی گہوارہ جمہوریت!) کا وزیراعظم بورس جانسن دورہ ہندوستان میں بلڈوزر پر چڑھا فخریہ تصویر کھنچوا رہا ہے، ہلہ شیری، شاباش، پیٹھ ٹھونکنے کی علامت!
صرف ایک نظریے پر ایمان وعمل کی بنیاد رکھنے پر 20 کروڑ پر یہ سزا لاگو کرنا پاگل پن ہے یا عدل وانصاف، دانائی، علم ودانش؟ اس درندگی کو داد دینے والا عاقل ہے یا پاگل؟ اور اگر وہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے مودی، بورس یانیتن یاہو ہوں تو عوام بھی دیوانگی میں حصہ دار ہیں؟ اگر ایک مکمل مرد اپنے آپ کو عورت کہنے لگ جائے۔ عورتوں جیسے کپڑے پہننے لگ جائے۔ پھر وہ ایک شادی شدہ مرد جس کی مکمل عورت، بیوی گھر میں موجود ہو، اور یہ دونوں مرد آپس میں ’محبت‘ میں مبتلا ہو جائیں۔ جو قانوناً بیوی ہے بیٹھی منہ تکتی رہ جائے۔ یہ خللِ دماغ عشق 21 ویں صدی میں اتنا معتبر ٹھہرے کہ مسلم نظریاتی ملک میں اسے نمونہ عمل بناکر فلمایا جائے۔ (یہ سب دیوانگی ہے جو LGBTQ کے عنوان سے مغرب میں گھر، خاندان اجاڑنے کے بعد جانوروں سے بدتر طرز زندگی، قانونی قرار پا چکا ہے۔) اور اس پر طرہ یہ کہ ’جوائے لینڈ‘ نامی یہ فلم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہر لاہور کی کہانی بناکر ساتوں کردار پاکستانی مسلمان ناموں کے حامل اسے پیش کر رہے ہیں۔
یعنی ’سدومی عشق‘ زندہ وموجود بیوی چھوڑ کر؟ (مارچنیاں کہاں ہیں ’ظالم مرد‘ بیانیے والی؟) فلم تحریر کرنے والا، ڈائریکٹر بھی صائم صادق (مسلمان) فلمی کردار سبھی (بظاہر) پاکستانی مسلمان۔ کیا یہ سبھی نفسیاتی مریض ہیں؟ دو مردوں مابین حرام کاری جن میں سے ایک نے صرف عورت کے کپڑے پہن کر (عورت کا) بہروپ بھرا ہے! گڑ جیسی سڑانڈ والے تصورات پر مبنی مخبوط الحواس کہانی پر فلم پروان چڑھانا؟ مسلم شناخت کو بے آبرو کرنا یہ جانتے ہوئے کہ صحیفہ¿ مقدس ترین، لاریب قرآن میں قوم لوطؑ (عین انہی کرداروں کی حامل) پر بدترین عذاب کا کوڑا برسایا گیا تھا۔ کوثر وتسنیم سے دھلی تہذیب کے ورثاءمیں سے پاگلوں کا یہ 0.0001 فیصد طبقہ کیا اکثریت پر یہ دیوانی دریدہ دہن فلم ببانگ دہل یوں مسلط کرے گا؟ یہ مغرب کی دیوانگی جو قطر فٹ بال ورلڈ کپ میں کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ یہ بے ہودہ گانِ عالم مسلمانوں کے ہاں جگہ ہرگز نہیں پا سکتے۔ (یاد رہے کہ قطر میں ہم جنسی کی سزا جرمانے سے لے کر سزائے موت تک ہے۔)
ہمارے ہاں ٹرانس جینڈر کے نام سے، خواجہ سراؤں کی آڑ میں خلطِ مبحث کرتے ہوئے قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکتے یہ ناپاک فلم پیش ہوگئی نمائش کے لیے۔ جبکہ اسے یہ بدبودار فخر حاصل ہے کہ علی الاعلان یہ کینز فلم فیسٹول میں پیش ہوکر LGBTQ انعام یافتہ قرار پانے والی فلم ہے ہمارے لیے یہ کلنک کا ٹیکہ ہے، خنزیریت سے کم کچھ بھی نہیں۔ قومِ رسول ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اتنا بھیانک مذاق؟ ملالہ یوسف زئی جیسی اس کی ایگزیکٹیو پروڈیوسر ہے اور اس کے حق میں نعرہ زن ہے۔ یہ انعام، حرام کاری پیش کرنے کی جرات کو کفر کی سلامی ہے۔ اتنے ’بہادر‘ قلم کار، فلمساز، اداکار، اداکارائیں! سو ان کا سارا کمال تو پاکستان اور اسلام کی اقدار بلاخوف وخطر روند کر رکھ دینے کا ہے۔ وزیراعظم نے عنایتِ خصوصی فرماکر اپنے دستخط سے پروانہ جواز جاری فرمایا ہے۔ جمعة المبارک کے روز وفاقی حکومت کے تحت (سی این این کی رپورٹ کے مطابق) یہ ریلیز کر دی گئی ہے بندش ہٹاکر۔ صرف پنجاب حکومت نے اجازت نہیں دی۔ یہ انتہائی ضروری اس لیے جانا گیا کہ اسے بہترین عالمی فیچر فلم کے لیے آسکر ایوارڈ 2023ءکے لیے چنا گیا ہے۔ مگر اس کے لیے 30 نومبر سے قبل 7 دن تک سینما گھروں میں دکھانا لازم تھا۔ سو پاکستان کو ترقی کی ’عظیم معراج‘ آسکر ایوارڈ تک پہنچانے کے لیے یہ ملعون فلم جاری کردی گئی۔ جو ان کے ہاں LGBTQ انعام یافتگی اور آسکر ایوارڈ ہے وہ ہمارے ہاں پتھراؤ والی ہوا اور بحر مردار کا عذاب ہے۔ یہ کردار لائق سنگساری ہے۔شرمناک ہے منہ دکھانے کے لائق نہیں! مقصد عالمی گٹروں کی غلاظت ’سدومیت‘ کو مسلم ایٹمی پاکستان میں کم ازکم کم قبولیت (مقبولیت نہ سہی) کا درجہ دلانا تھا تاکہ کچے ذہن، کھوکھلے نوجوان اخلاقی باختگی کا یہ ذوق پیدا کرسکیں۔ ان کا کام ہوگیا۔
رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید
ضمیر پاک وخیالِ بلند وذوقِ لطیف!
یہی دجالیت ہے۔ روحوں میں ایمانی نور کی جگہ شیطانیت، شہوانیت بھر دینا۔ کہ بے نور است وبے سوز است ایں عصر…. پہلے ٹرانس جینڈر ایکٹ سیاسی جماعتوں کی ملی بھگت سے آیا اب حیا سوز، حدشکن، اخلاق باختہ فلم کا گنڈاسہ چلا دیا۔ یہ ہیں قوم کے سردار، معمار! مصور پاکستان اقبال کے حسین خواب میں غلاظت بھرنے والے، علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال کا ’ سینما ‘ (بالِ جبریل)پڑھ دیکھیں۔ وہ یہ تو نہ جانتے تھے کہ ’ہونہار‘ پاکستانی، گراوٹ کی ان آخری حدوں کو چھو لیں گے۔ کہتے ہیں : وہی بت فروشی وہی بت گری ہے/ سینما ہے یا صنعت آزری ہے/ وہ صنعت نہ تھی، شیوہ کافری تھا/ یہ صنعت نہیں شیوہ¿ ساحری ہے/ وہ مذہب تھا اقوام عہد کہن کا/ یہ تہذیب حاضر کی سوداگری ہے/ وہ دنیا کی مٹی، یہ دوزخ کی مٹی/ وہ بت خانہ خاکی، یہ خاکستری ہے۔
سو دجالی فتنہ، اخلاقی تباہی کا یہ یقینی سامان ،خاکستری دوزخی مٹی سے اس سرزمین کو آلودہ کرنے کو برپا کیا ہے۔ اس زمینکی ساخت میں بنیادی عنصر، کلمے کے لیے ہجرت کرکے آنے والے شہداءکا خون ہے۔ مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا! قوم کو بند باندھنے ہوں گے ورنہ نسلوں کا مستقبل مخدوش ہے۔ یہاں عمران خان پٹیاں اوڑھے الطاف حسین اسٹائل نتنئے بیانیے چھوڑتے رہے! آرمی چیف کی تعیناتی کی ساتھ ہی کینسر ہسپتال کے ماہرین نے پلستر اتار دیا اور وہ اٹھ بیٹھے۔فرماتے ہیں ’ قوم کی خاطر زخمی حالت میں نکل رہا ہوں ‘۔ بدلتے حالات نے ان کے زخموں پر نمک چھڑکا۔ اللہ کرے کہ وہ صحت یاب ہو کرقرار اور وقارسے بیٹھ پائیں۔ معیشت کو مارچ سے اٹھنے والے اخراجات، انتشار اور عدم استحکام نے ملک کو شدید زخمی کیا ہے۔ اسے بھی مرہم پٹی درکار ہے۔اللہ پاکستان کے حال پر رحم فرمائے ۔(آمین)

تبصرے بند ہیں.