کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے

45

ہمارے ایک دوست جیسے ہی ٹریفک کے اشارے پر رکے ایک بھکاری ان کی گاڑی کی طرف لپکا انہوں نے بھکاری سے پیچھا چھڑانے کے لیے دور سے ہی اُسے ہاتھ ہلایا کہ معاف کرو۔ مگر اتنے میں اس نے قریب آ کر دیکھا کہ صاحب کی گاڑی کے ریڈیو پر خبریں لگی ہوئی تھیں۔ بھکاری نے کہا کہ صاحب کچھ نہیں دینا تو نہ دیں مگر اتنا بتا دیں کہ صدر پاکستان نے نئے آرمی چیف کے لیے وزیراعظم کی بھیجی ہوئی سمری پر دستخط کیے ہیں یا نہیں۔ صاحب نے کہا کہ مجھے نہیں پتہ جس پر بھکاری نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صدر کو تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ آخر کوئی وجہ بھی تو ہو۔ اتنی دیر میں ٹریفک سگنل کی بتی سرخ سے سبز ہو چکی تھی صاحب نے گاڑی کو آگے بڑھایا مگر بھکاری کی باتیں اس کے کانوں میں گونج رہی تھیں۔
نئے آرمی چیف کی تقرری کا طریقہ کار سرکاری معمول کا ایک حصہ ہے مگر نہ جانے کیوں اس پر اس دفعہ عوامی ڈیبیٹ نے تاریخ کے سارے گزشتہ ریکارڈ توڑ دیے اور یوں لگتا تھا کہ اس وقت ملک میں سوائے اس کے اور کوئی مسئلہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ اس کی بڑی وجہ اپوزیشن کی پیدا کردہ وہ Hype تھی کہ اگر ان کی مرضی کا چیف نہ لگایا گیا تو جیسے ملک میں خدانخواستہ خون کی ندیاں بہہ جائیں گی۔ وزیراعظم عمران خان گزشتہ ہفتے اس معاملے سے دست بردار ہو گئے مگر جیسے ہی وزیراعظم نے سمری پر دستخط کیے عمران خان نے ایک دفعہ پھر یوٹرن لیتے ہوئے بیان داغ دیا کہ صدر پاکستان ہماری پارٹی کے ہیں (حالانکہ صدر بننے کے بعد یہ عہدہ مکمل غیر سیاسی ہوتا ہے) لہٰذا انہیں مجھ سے مشاورت کرنی چاہیے۔ یہ بہت ہی خطرناک اور نازک صورتحال تھی کہ کہیں صدر سمری پر دستخط میں تاخیر کی غلطی نہ کریں یا واقعی عمران خان کی باتوں میں آ کر مشاورت کی طرف نہ چل پڑیں لیکن صدر پاکستان نے فراست کا ثبوت دیا اور ملک کو اس ہیجان سے نجات دلاتے ہوئے آئین کے مطابق اپنا فریضہ ادا کر کے ثابت کیا کہ ان کی پہلی ترجیح پاکستان ہے۔
یہ اچھی بات ہے کہ نئے چیف کی تعیناتی کے فیصلے کے اردگرد پائی جانے والی سیاسی دھند چھٹ چکی ہے اور تمام قیاس آرائیاں دم توڑ چکی ہیں اگلے کچھ دنوں میں جنرل عاصم منیر اپنے عہدے کا چارج سنبھال لیں گے۔ یہ ایک روایتی ملٹری تقریب ہو گی جس میں batton of command یا عصائے سپہ سالار جو اس وقت جنرل قمر جاوید باجوہ کے پاس ہے وہ نئے جانشین کے حوالے کر دیا جائے گا۔ یہ ایک قیمتی پہاڑی لکڑی ملاکا کا بنا ہوا بید یا stick ہے جو اختیار اور اتھارٹی کی علامت ہے جسے آرمی چیف قومی جھنڈے کو سلامی دینے یا دیگر سرکاری تقریبات میں پکڑتے ہیں البتہ یہ روایت ہے کہ جب وہ صدر یا وزیراعظم سے ملنے جاتے ہیں تو یہ stick ان کے پاس نہیں ہوتی۔ عموماً اس طرح کی stick یا cane دیگر کور کمانڈرز کے پاس بھی ہوتی ہے مگر batton of command وہی ہے جو آرمی چیف کے پاس ہوتا ہے۔
نئے آرمی چیف کے بارے میں ان کے حالات زندگی اور ان کی پیشہ ورانہ تجربے پر بہت کچھ کہا اور لکھا جا رہا ہے جس میں قابل ذکر یہ ہے کہ وہ پہلے آرمی چیف ہیں جو ملک کے خفیہ ادارے ISI کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں جنہیں ملٹری کی زبان میں spy cheif بھی کہا جاتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں وزیراعظم شہباز شریف کا نام اس لحاظ سے جلی حروف میں آ گیا ہے کہ تاریخ میں پہلی بار انہوں نے سینئر موسٹ جرنیل کو چیف بنایا اور دوسرے سینئر موسٹ جرنیل کو چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی کا سربراہ لگایا۔ اس سے پہلے ہر وزیراعظم نے یہ اختیار صوابدید کے مطابق استعمال کیا۔ یہ ایک اچھی روایت قائم ہونے جا رہی ہے اور اگر آئندہ بھی اس پر عمل کیا گیا تو قوم ہر تین سال کے بعد ایک ہیجان سے بچ جایا کرے گی۔ اس سلسلے میں حالیہ تاریخ کا ایک اور ورق یہ ہے کہ آصف زرداری اور عمران خان نے اپنے اپنے دور میں اس وقت کے آرمی چیف کو ایک سال یا دو سال کی توسیع نہیں بلکہ پورے 3,3 سال کا دوسرا tenure دیا جبکہ نواز شریف نے جنرل راحیل شریف کو توسیع نہ دے کر ایک اچھی روایت ڈالی۔
رخصت ہونے والے چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی الوداعی تقریر کافی اہم تھی جس میں انہوں نے اعتراف کیا کہ فوج سیاست میں involve رہی ہے جو کہ نہیں ہونا چاہیے تھا یہ ایک غیر معمولی اعتراف ہے جو ایک ادارے کا اپنے چارٹر سے ہٹ کر کارروائی یا طرز عمل کا ثبوت ہے۔ ان کے اس بیان کے بعد نئے آرمی چیف کی پیشہ ورانہ ذمہ داری پہلے سے کہیں زیادہ ہو جاتی ہے کہ وہ فوج کے امیج میں بہتری لانے اور اسے ایک ماڈل بنانے پر توجہ دیں۔ جس طرح 75 سال میں پاکستان میں اہل سیاست کی ساکھ مجروح ہوتے ہوتے آخری پستی تک پہنچ چکی ہے اس لحاظ سے دیکھا جائے تو وقت کے ساتھ فوج کا عوامی امیج بھی روبہ زوال ہے جسے مزید گرنے سے روکنا اور اس کی سمت درست کرنا ملکی بقا کے لیے ناگزیر ہے۔ اور یہ کام نئی عسکری قیادت کا ہے۔
ہر ادارے میں secerecy کا ایک نظام موجود ہوتا ہے کہ بند دروازوں کے پیچھے جو فیصلے کیے جاتے ہیں اور جو لائحہ عمل مرتب ہوتا ہے اس کی تفصیلات باہر نہ جائیں لیکن پھر بھی بہرحال جب عوام ان فیصلوں سے متاثر ہوتے ہوں تو پھر شخصیات خود نہیں ان کے فیصلے بولتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں نئے چیف کے لیے سب سے بہتر حکمت عملی یہ ہو گی کہ سب سے پہلے میڈیا کی limelights میں فوج کی سرگرمیاں کم دکھائی جائیں چیف صاحب خود بھی میڈیا میں over exposure سے پرہیز کریں اور ISPR کو بھی اس پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے تا کہ ماضی کی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جا سکے۔ اس سے فوج کی بطور ادارہ توقیر اور عزت میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہو گا۔ جنرل ندیم انجم نے جب spy چیف کا عہدہ سنبھالا تھا تو انہوں نے میڈیا کو ڈائریکشن جاری کی تھی کہ کسی اخبار یا چینل پر ان کی تصویر نہ نشر یا شائع کی جائے یہ بہت اچھی بات تھی لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا کہ spy چیف کو براہ راست میڈیا پر آنا پڑا بلکہ وہ کرنا پڑا جو پہلے آج تک نہیں ہوا تھا لیکن ایک نئے آغاز کے موقع پر ہمیں جنرل ندیم انجم کی پرانی پالیسی کی طرف واپس جانا ہو گا۔
امریکی جنرل بروس ڈی کلرک (1901-88) نے پہلی اور دوسری جنگ عظیم دونوں میں حصہ لیا ان کے ملٹری لائف کے اقوال زریں بڑے مشہور ہیں ان کے ایک قول کا حوالہ بہت ضروری ہے وہ کہتے ہیں کہ
"When things go wrong in your command, strat wading for the reason in increasingly larger concentric circles around your ow desk”
جب آپ کی قیادت میں غلطیاں بڑھنے لگیں تو ان کی وجوہات کا پتہ لگانے کے لیے اپنے میز کے اردگرد بڑھتے ہوئے حلقہ کار کا جائزہ لیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے مقربین پر خصوصی نظر رکھیں کیونکہ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو آپ سے غلط فیصلے کراتے ہیں اور آپ کی شہرت میں نقصان کا باعث بنتے ہیں۔
اقتدار کی دلکشی کا ایک اپنا ہی لطف ہوتا ہے اس کی حیثیت ایک شجر ممنوعہ کی سی ہے جو ممانعت کی بنا پر بھی ایک نفسیاتی اشتیاق پیدا کرتی ہے مگر اس سوچ کی مزاحمت بہت ضروری ہے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک ہونہار نوجوان مقابلے کا امتحان دے کر ایک ضلع میں ASP تعینات ہوا۔ وہ لڑکا خاصا ایماندار تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ جب ضلع کا ہر سیاستدان ہر تاجر اور بڑا آدمی میرے دفتر آ کر میرے ساتھ چائے پینے پر فخر کرتا ہے اور مجھے خدمت کا موقع دینے کی درخواست کرتا ہے تو مجھے بتائیں کہ جب میرے محکمے نے میری اخلاقی تربیت اس لحاظ سے نہیں کی کہ میں انہیں انکار کر سکوں تو میں اپنے فرائض دیانتداری سے کیسے ادا کر سکتا ہوں۔ یہ ایک ضلع کی مثال ہے۔ پاکستان میں 100 سے زیادہ اضلاع ہیں جب ہمارے چوٹی کے سیاستدان بقلم خود فوج اور عدلیہ کو سیاسی معاملات میں مداخلت کی دعوت دیتے ہیں تو پہلی غلطی کس کی ہے۔ اس وقت بھی حکومت اور اپوزیشن کے آپس کے حالات یہ ہیں اور عدم برداشت کا لیول اتنا گر چکا ہے کہ یہ دونوں فریق آپس میں بات کرنے کے روادار نہیں ہیں پھر کہا جاتا ہے کہ فوج سیاست میں مداخلت کرتی ہے۔ بہرحال جب تک تمام ادارے خود کو اپنے اپنے domain تک محدود نہیں رکھیں گے، اچھی حکمرانی یا گڈ گورننس کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا ممکن نہیں۔
 £¥ ³ŽŸ¤ ˆ¤š œ¥ ‚Ž¥ Ÿ¤¡   œ¥ ‰ž„  ‹¤ ¢Ž   œ¤ ƒ¤“¦ ¢Ž ¦ „‡Ž‚¥ ƒŽ ‚¦„ œˆ§ œ¦ ¢Ž žœ§ ‡ Ž¦ ¦¥ ‡’ Ÿ¤¡ ›‚ž œŽ ¤¦ ¦¥ œ¦ ¢¦ ƒ¦ž¥ ³ŽŸ¤ ˆ¤š ¦¤¡ ‡¢ Ÿžœ œ¥ Šš¤¦ ‹Ž¥ ISI œ¥ ’Ž‚Ž¦ ‚§¤ Ž¦ ˆœ¥ ¦¤¡ ‡ ¦¤¡ Ÿž…Ž¤ œ¤ ‚  Ÿ¤¡ spy cheif ‚§¤ œ¦ ‡„ ¦¥ó ƒœ’„  œ¤ „Ž¤Š Ÿ¤¡ ¢¤Ž˜—Ÿ “¦‚ “Ž¤š œ  Ÿ ’ ž‰— ’¥ ‡ž¤ ‰Ž¢š Ÿ¤¡ ³ ¤ ¦¥ œ¦ „Ž¤Š Ÿ¤¡ ƒ¦ž¤ ‚Ž  ¦¢¡  ¥ ’¤ £Ž Ÿ¢’… ‡Ž ¤ž œ¢ ˆ¤š ‚ ¤ ¢Ž ‹¢’Ž¥ ’¤ £Ž Ÿ¢’… ‡Ž ¤ž œ¢ ˆ¤£ŽŸ¤  ‡¢£ … ˆ¤š ³š ’…š œŸ¤…¤ œ ’Ž‚Ž¦ ž¤ó ’ ’¥ ƒ¦ž¥ ¦Ž ¢¤Ž˜—Ÿ  ¥ ¤¦ Š„¤Ž ”¢‚‹¤‹ œ¥ Ÿ–‚› ’„˜Ÿž œ¤ó ¤¦ ¤œ ˆ§¤ Ž¢¤„ ›£Ÿ ¦¢ ¥ ‡ Ž¦¤ ¦¥ ¢Ž Ž ³£ ‹¦ ‚§¤ ’ ƒŽ ˜Ÿž œ¤ ¤ „¢ ›¢Ÿ ¦Ž „¤  ’ž œ¥ ‚˜‹ ¤œ ¦¤‡  ’¥ ‚ˆ ‡¤ œŽ¥ ¤ó ’ ’ž’ž¥ Ÿ¤¡ ‰ž¤¦ „Ž¤Š œ ¤œ ¢Ž ¢Ž› ¤¦ ¦¥ œ¦ ³”š Ž‹Ž¤ ¢Ž ˜ŸŽ  Š   ¥ ƒ ¥ ƒ ¥ ‹¢Ž Ÿ¤¡ ’ ¢›„ œ¥ ³ŽŸ¤ ˆ¤š œ¢ ¤œ ’ž ¤ ‹¢ ’ž œ¤ „¢’¤˜  ¦¤¡ ‚žœ¦ ƒ¢Ž¥ 3,3 ’ž œ ‹¢’Ž tenure ‹¤ ‡‚œ¦  ¢ “Ž¤š  ¥ ‡ Žž Ž‰¤ž “Ž¤š œ¢ „¢’¤˜  ¦ ‹¥ œŽ ¤œ ˆ§¤ Ž¢¤„ Œž¤ó
ŽŠ”„ ¦¢ ¥ ¢ž¥ ˆ¤š ‡ Žž ›ŸŽ ‡¢¤‹ ‚‡¢¦ œ¤ ž¢‹˜¤ „›Ž¤Ž œš¤ ¦Ÿ „§¤ ‡’ Ÿ¤¡  ¦¢¡  ¥ ˜„Žš œ¤ œ¦ š¢‡ ’¤’„ Ÿ¤¡ involve Ž¦¤ ¦¥ ‡¢ œ¦  ¦¤¡ ¦¢  ˆ¦¤¥ „§ ¤¦ ¤œ ™¤Ž Ÿ˜Ÿ¢ž¤ ˜„Žš ¦¥ ‡¢ ¤œ ‹Ž¥ œ ƒ ¥ ˆŽ…Ž ’¥ ¦… œŽ œŽŽ¢£¤ ¤ –Ž ˜Ÿž œ †‚¢„ ¦¥ó   œ¥ ’ ‚¤  œ¥ ‚˜‹  £¥ ³ŽŸ¤ ˆ¤š œ¤ ƒ¤“¦ ¢Ž ¦ Ÿ¦ ‹Ž¤ ƒ¦ž¥ ’¥ œ¦¤¡ ¤‹¦ ¦¢ ‡„¤ ¦¥ œ¦ ¢¦ š¢‡ œ¥ Ÿ¤‡ Ÿ¤¡ ‚¦„Ž¤ ž ¥ ¢Ž ’¥ ¤œ ŸŒž ‚  ¥ ƒŽ „¢‡¦ ‹¤¡ó ‡’ –Ž‰ 75 ’ž Ÿ¤¡ ƒœ’„  Ÿ¤¡ ¦ž ’¤’„ œ¤ ’œ§ Ÿ‡Ž¢‰ ¦¢„¥ ¦¢„¥ ³ŠŽ¤ ƒ’„¤ „œ ƒ¦ ˆ ˆœ¤ ¦¥ ’ ž‰— ’¥ ‹¤œ§ ‡£¥ „¢ ¢›„ œ¥ ’„§ š¢‡ œ ˜¢Ÿ¤ Ÿ¤‡ ‚§¤ Ž¢‚¦ ¢ž ¦¥ ‡’¥ Ÿ¤‹ Ž ¥ ’¥ Ž¢œ  ¢Ž ’ œ¤ ’Ÿ„ ‹Ž’„ œŽ  Ÿžœ¤ ‚› œ¥ ž¤¥  ¤Ž ¦¥ó ¢Ž ¤¦ œŸ  £¤ ˜’œŽ¤ ›¤‹„ œ ¦¥ó
¦Ž ‹Ž¥ Ÿ¤¡ secerecy œ ¤œ  —Ÿ Ÿ¢‡¢‹ ¦¢„ ¦¥ œ¦ ‚ ‹ ‹Ž¢¢¡ œ¥ ƒ¤ˆ§¥ ‡¢ š¤”ž¥ œ¤¥ ‡„¥ ¦¤¡ ¢Ž ‡¢ ž£‰¦ ˜Ÿž ŸŽ„‚ ¦¢„ ¦¥ ’ œ¤ „š”¤ž„ ‚¦Ž  ¦ ‡£¤¡ ž¤œ  ƒ§Ž ‚§¤ ‚¦Ž‰ž ‡‚ ˜¢Ÿ   š¤”ž¢¡ ’¥ Ÿ„†Ž ¦¢„¥ ¦¢¡ „¢ ƒ§Ž “Š”¤„ Š¢‹  ¦¤¡   œ¥ š¤”ž¥ ‚¢ž„¥ ¦¤¡ó Ÿ¢‡¢‹¦ ”¢Ž„‰ž Ÿ¤¡  £¥ ˆ¤š œ¥ ž¤¥ ’‚ ’¥ ‚¦„Ž ‰œŸ„ ˜Ÿž¤ ¤¦ ¦¢ ¤ œ¦ ’‚ ’¥ ƒ¦ž¥ Ÿ¤Œ¤ œ¤ limelights Ÿ¤¡ š¢‡ œ¤ ’ŽŽŸ¤¡ œŸ ‹œ§£¤ ‡£¤¡ ˆ¤š ”‰‚ Š¢‹ ‚§¤ Ÿ¤Œ¤ Ÿ¤¡ over exposure ’¥ ƒŽ¦¤ œŽ¤¡ ¢Ž ISPR œ¢ ‚§¤ ’ ƒŽ  —Ž† ¤ œŽ ¥ œ¤ •Ž¢Ž„ ¦¥ „ œ¦ Ÿ•¤ œ¤ ™ž– š¦Ÿ¤¢¡ œ ž¦ œ¤ ‡ ’œ¥ó ’ ’¥ š¢‡ œ¤ ‚–¢Ž ‹Ž¦ „¢›¤Ž ¢Ž ˜„ Ÿ¤¡ œŸ¤  ¦¤¡ ‚žœ¦ •š¦ ¦¢ ó ‡ Žž  ‹¤Ÿ  ‡Ÿ  ¥ ‡‚ spy ˆ¤š œ ˜¦‹¦ ’ ‚§ž „§ „¢  ¦¢¡  ¥ Ÿ¤Œ¤ œ¢ Œ£Ž¤œ“  ‡Ž¤ œ¤ „§¤ œ¦ œ’¤ Š‚Ž ¤ ˆ¤ ž ƒŽ   œ¤ „”¢¤Ž  ¦  “Ž ¤ “£˜ œ¤ ‡£¥ ¤¦ ‚¦„ ˆ§¤ ‚„ „§¤ ž¤œ  ¤œ ¢›„ ¤’ ‚§¤ ³¤ œ¦ spy ˆ¤š œ¢ ‚Ž¦ Ž’„ Ÿ¤Œ¤ ƒŽ ³  ƒ ‚žœ¦ ¢¦ œŽ  ƒ ‡¢ ƒ¦ž¥ ³‡ „œ  ¦¤¡ ¦¢ „§ ž¤œ  ¤œ  £¥ ³™ œ¥ Ÿ¢›˜ ƒŽ ¦Ÿ¤¡ ‡ Žž  ‹¤Ÿ  ‡Ÿ œ¤ ƒŽ ¤ ƒž¤’¤ œ¤ –Žš ¢ƒ’ ‡  ¦¢ ó
ŸŽ¤œ¤ ‡ Žž ‚Ž¢’ Œ¤ œžŽœ â1901-88á  ¥ ƒ¦ž¤ ¢Ž ‹¢’Ž¤ ‡  ˜—¤Ÿ ‹¢ ¢¡ Ÿ¤¡ ‰”¦ ž¤   œ¥ Ÿž…Ž¤ ž£š œ¥ ›¢ž Ž¤¡ ‚¥ Ÿ“¦¢Ž ¦¤¡   œ¥ ¤œ ›¢ž œ ‰¢ž¦ ‚¦„ •Ž¢Ž¤ ¦¥ ¢¦ œ¦„¥ ¦¤¡ œ¦
"When things go wrong in your command, strat wading for the reason in increasingly larger concentric circles around your ow desk”
‡‚ ³ƒ œ¤ ›¤‹„ Ÿ¤¡ ™ž–¤¡ ‚§ ¥ ž¤¡ „¢   œ¤ ¢‡¢¦„ œ ƒ„¦ ž ¥ œ¥ ž¤¥ ƒ ¥ Ÿ¤ œ¥ Ž‹Ž‹ ‚§„¥ ¦¢£¥ ‰ž›¦ œŽ œ ‡£¦ ž¤¡ó ’ œ Ÿ–ž‚ ¤¦ ¦¥ œ¦ ƒ ¥ Ÿ›Ž‚¤  ƒŽ Š”¢”¤  —Ž Žœ§¤¡ œ¤¢ œ¦ ¤¦¤ ¢¦ ž¢ ¦¢„¥ ¦¤¡ ‡¢ ³ƒ ’¥ ™ž– š¤”ž¥ œŽ„¥ ¦¤¡ ¢Ž ³ƒ œ¤ “¦Ž„ Ÿ¤¡  ›”  œ ‚˜† ‚ „¥ ¦¤¡ó
›„‹Ž œ¤ ‹žœ“¤ œ ¤œ ƒ  ¦¤ ž–š ¦¢„ ¦¥ ’ œ¤ ‰¤†¤„ ¤œ “‡Ž ŸŸ ¢˜¦ œ¤ ’¤ ¦¥ ‡¢ ŸŸ ˜„ œ¤ ‚  ƒŽ ‚§¤ ¤œ  š’¤„¤ “„¤› ƒ¤‹ œŽ„¤ ¦¥ ŸŽ ’ ’¢ˆ œ¤ Ÿ‰Ÿ„ ‚¦„ •Ž¢Ž¤ ¦¥ó ¤œ ‹š˜¦ œ œŽ ¦¥ œ¦ ¤œ ¦¢ ¦Ž  ¢‡¢  Ÿ›‚ž¥ œ Ÿ„‰  ‹¥ œŽ ¤œ •ž˜ Ÿ¤¡ ASP „˜¤ „ ¦¢ó ¢¦ žœ Š” ¤Ÿ ‹Ž „§ó ’  ¥ Ÿ‡§¥ ‚„¤ œ¦ ‡‚ •ž˜ œ ¦Ž ’¤’„‹  ¦Ž „‡Ž ¢Ž ‚ ³‹Ÿ¤ Ÿ¤Ž¥ ‹š„Ž ³ œŽ Ÿ¤Ž¥ ’„§ ˆ£¥ ƒ¤ ¥ ƒŽ šŠŽ œŽ„ ¦¥ ¢Ž Ÿ‡§¥ Š‹Ÿ„ œ Ÿ¢›˜ ‹¤ ¥ œ¤ ‹ŽŠ¢’„ œŽ„ ¦¥ „¢ Ÿ‡§¥ ‚„£¤¡ œ¦ ‡‚ Ÿ¤Ž¥ Ÿ‰œŸ¥  ¥ Ÿ¤Ž¤ Šž›¤ „Ž‚¤„ ’ ž‰— ’¥  ¦¤¡ œ¤ œ¦ Ÿ¤¡  ¦¤¡  œŽ œŽ ’œ¢¡ „¢ Ÿ¤¡ ƒ ¥ šŽ£• ‹¤ „‹Ž¤ ’¥ œ¤’¥ ‹ œŽ ’œ„ ¦¢¡ó ¤¦ ¤œ •ž˜ œ¤ Ÿ†ž ¦¥ó ƒœ’„  Ÿ¤¡ 100 ’¥ ¤‹¦ •ž˜ ¦¤¡ ‡‚ ¦ŸŽ¥ ˆ¢…¤ œ¥ ’¤’„‹  ‚›žŸ Š¢‹ š¢‡ ¢Ž ˜‹ž¤¦ œ¢ ’¤’¤ Ÿ˜Ÿž„ Ÿ¤¡ Ÿ‹Šž„ œ¤ ‹˜¢„ ‹¤„¥ ¦¤¡ „¢ ƒ¦ž¤ ™ž–¤ œ’ œ¤ ¦¥ó ’ ¢›„ ‚§¤ ‰œ¢Ÿ„ ¢Ž ƒ¢¤“  œ¥ ³ƒ’ œ¥ ‰ž„ ¤¦ ¦¤¡ ¢Ž ˜‹Ÿ ‚Ž‹“„ œ ž¤¢ž „  Ž ˆœ ¦¥ œ¦ ¤¦ ‹¢ ¢¡ šŽ¤› ³ƒ’ Ÿ¤¡ ‚„ œŽ ¥ œ¥ Ž¢‹Ž  ¦¤¡ ¦¤¡ ƒ§Ž œ¦ ‡„ ¦¥ œ¦ š¢‡ ’¤’„ Ÿ¤¡ Ÿ‹Šž„ œŽ„¤ ¦¥ó ‚¦Ž‰ž ‡‚ „œ „ŸŸ ‹Ž¥ Š¢‹ œ¢ ƒ ¥ ƒ ¥ domain „œ Ÿ‰‹¢‹  ¦¤¡ Žœ§¤¡ ¥í ˆ§¤ ‰œŸŽ ¤ ¤ Œ ¢Ž  ’ œ Š¢‚ “ŽŸ ‹¦ „˜‚¤Ž ¦¢  ŸŸœ   ¦¤¡ó

تبصرے بند ہیں.