ایک لمحہ کے لئے سوچیں کہ والدین اپنے لخت جگر کو حسب معمول پڑھنے کی غرض سے کالج بھیجیں اور پھر ایک صبح یہ اطلاع موصول ہو کہ وہ اپنے ہی دوست کے ہاتھوں قتل ہوگیا تو حال کیا ہوگا،چھ بہنوں پر اکلوتے بھائی کی ناگہانی موت کی خبر پر کیا بیتے گی، بدقسمت خاندان کس کرب سے گذرے گا جو اس سانحہ کا شکار ہوا ہے،مرنے والے کالج کے دو طالب علم تھے،انتہائی متوسط خاندان اور ایک ہی دیہات سے تعلق رکھنے والے یہ نوخیز بچے معمولی جھگڑے کی نذر ہوگئے۔
ان کے گھر انے واجبی سے ہیں، بودو باش بتاتی ہے،کہ ان کا شمار سماج کے اس طبقہ میں ہوتا جہاں معمولی جھگڑا بھی”افورڈ“ نہیں کیا جا سکتا، وہاں قتل کے کیس پلے پڑ جائیں، اپنے مرحومین بیٹوں کے لئے اس نظام سے انصاف لینا ہو جس کا ہر در دولت کی تجوری سے کھلتا ہو، سوچیں یہ روٹی کمائیں گے یا عدلیہ کے در پر حاضر ہوتے رہیں گے۔
ان پر کیا بیتے گی،ایک طرف زمانے کی باتیں، وسری طرف اپنی اولاد کی المناک موت کا غم انھیں جیتے جی ہی مار دے گا، اس کرب ناک واقعہ کا افسوک ناک پہلو یہ بھی ہے کہ قاتل بھی کوئی پیشہ ور نہیں تھے اکٹھے شب روز گذارنے والے گہرے دوست، ہم عمر تھے، ان میں ایک بہترین تعلیمی ریکارڈ بھی رکھتا اور سیکنڈ ائر کا طالب علم تھا، بعض ذرائع بتاتے ہیں جس روز جہانیاں میں یہ واقعہ ہوا یہ دوست ایک ساتھ موٹر سائیکل پر آئے،معمولی تکرار پر ان کے سر پر شیطان ایسا سوار ہوا کہ سوچنے کی مہلت ہی نہ ملی، اورقاتل اور مقتولین اپنے لواحقین کو زندہ درگور کرتے ہوئے ملک عدم روانہ ہوئے،یہ سوال چھوڑ گئے کہ انکے مجرمانہ رویہ کا ذمہ دار کون ہے؟چند روز پہلے آنے والا واقعہ بڑا ہی درد ناک ہے۔
یہ سانحہ ہر اس نوجوان کے لئے سبق آموز ہے جوا پنی جھوٹی انا اور عزت ہر وقت ناک پر رکھتے ہیں اور مابعد اثرات اور نتائج سے غافل رہ کر انتہائی سنگین قدم اٹھاتے ہیں۔مگر گذرا وقت پھر ہاتھ نہیں آتا۔
حلقہ احباب کا بتایا سچا واقعہ قارئین کی توجہ چاہتا ہے، بقول ان کے دو نو عمر کلاس فیلو اکٹھے محلہ میں
رہتے تھے،، ایک ساتھ مسجد میں قرآن بھی پڑھتے، ان میں ایک طالب علم دوکان سے کھانے کی چیز لینے آیا دوکان دار کچھ مصروف تھا،طالب علم کے سوال پر از خود چیز لے کر پیسے غلہ میں رکھنے کی ہدایت کی،جس بچے نے چیز لی اس نے پیسے رکھنے کی بجائے دوکان کے غلہ سے مزید نکال لئے، اس کی یہ حرکت دوکاندار سے تو اوجھل رہی مگرکلاس فیلو یہ سب دیکھ رہا تھا،اس نے دوکان دار کو تو نہ بتایا مگر اس چوری پر اپنے کلاس فیلو کو چور چور کہنا شروع کر دیا، دونوں بچے تھے، کبھی کبھی اس بات پر جھگڑ پڑتے پھر صلح کر لیتے، ایک روز طالب علم نے اس حرکت کی شکایت دوکان دار سے کر دی، جس نے اس بچے کو بلا کر برا بھلا کہا والدین کو بتانے کی دھمکی دی تو پیسے چرانے والے کہا کہ آئندہ ایسا نہیں کرے گا، باوجود اس کے محلہ کے لڑکے نے چور چور کہنے کی بات نہ چھوڑی، ایک روز یہ بچہ اپنے گھر کے سامنے کھڑا تھا وہی دوست وہاں سے گذرا تو اونچی آواز میں کہا کہ یہ چور کا گھرہے، اس کاوالد جو اُس وقت کسی مہمان کے ساتھ موجود تھا،اس کا نوٹس لیا اور اپنے بچے سے پوچھا کہ اس کا دوست اسے چور کیوں کہہ رہا تھا،ماجر ا کیا ہے، مگر بچے نے بات ٹال دی،تاہم اس نے بات دل میں رکھ لی، دونوں بچے مسجد کے قاری کے بڑے چہیتے تھے،تما م سرگرمیوں کے لئے ان کی خدمات لی جاتی تھیں، قرآن کلاس کے یہ طالب علم تھے،جب کبھی کلاس فیلو یا محلہ دار کھڑے ہوتے تو شرارت کے طور پر وہی طالب علم چور چور کی آوازلگا کر بھاگ جاتا، جس پر اس کا ساتھی شدید دباؤ کا شکار ہو جاتا جس نے دوکان سے پیسے چرائے تھے۔ یہ دونوں مڈل کلاس میں زیر تعلیم اورناسمجھ تھے،انھیں حالات کی سنگینی کا اندازہ نہ تھا۔
ایک روز پیسے چرانے والے بچے نے دوست کو آواز دی کہ قاری صاحب نے کہا ہے کہ آج نماز ظہر سے پہلے مسجد کی صفائی کرنی ہے لہٰذا دونوں چلیں، اس دن سکول سے چھٹی تھی، اکٹھے ساتھ چل دیئے،طالب علم جس نے پیسے چرائے تھے، وہ بہانے سے دوسرے کو مسجدکے ہجرہ میں لے گیا، اس کی چابی اس کے پاس تھی، داخل ہونے پر اس نے کنڈی لگا لی، اور اپنی قمیض سے پستول نکال لیا، اور کہا کہ اب میں تمھیں چور چور کہنے کا مزہ چکھاتا ہوں، یہ دیکھ کر دوسرا خوف زدہ ہوا، اس نے شور تو کیا مگر اس کے منہ میں کپڑا ٹھونس دیا، اس نے منت سماجت کی کہ آیندہ وہ ایسا نہیں کہے گا، جسکے ہاتھ پستول تھا یہ طاقت میں کافی زیادہ تھا، اس نے لڑکے کو لٹا کر کمر میں فائر کردیا، کچھ دیر تڑپنے کے بعد اس نے آخری سانس لی،قاتل نے نتائج سے بے خبر ہو کر کھڑکی سے اس طرح چھلانگ لگائی کہ وہ اندر سے بند ہوگئی، اطمینان سے گھر داخل ہو گیا، نماز ظہر کا وقت ہوا تو یہ بھی مسجد میں گیا، قاری جی نے ہجرہ کھولنے کی کاوش کی، مگر ناکام رہے، اسی بچے کو بھیج کر جب کھلوایا تو منظر بڑا خوف ناک تھا، اس صورت حال سے اہل محلہ اور پولیس کو مطلع کیا گیا،تفتیش کے نتیجہ میں سارا معاملہ کھل گیا، بچے نے اپنے گھر سے پسٹل لاکر یہ واردات کر ڈالی، اس کا یہ فعل تنگ آمد بجنگ آمد کا نتیجہ تھا۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.