کیا آزادی اسی کو کہتے ہیں

19

آزادی کی تگ ودَو کرنے والوں نے سوچا تو یہی ہو گا کہ آزاد فضاؤں میں حیاتِ مستعار مجسم سرود ہوگی۔ زیست کے سفینہئ رواں میں نغمہ ونور کے سرمدی گہوارے ہوں گے۔ ماہتاب کی ضوفشانی اور درخشاں درخشاں ستارے بھی آزادی کے گیت گُنگنا رہے ہوں گے۔ نکہت ونور سے لبریز وادیوں میں مرغانِ خوش الحان کے زمزمے ہوں گے۔ لہلہاتے کھیتوں کی سنہری بالیاں آزادی کو خوش آمدید کہہ رہی ہوں گی اور یہ سب کچھ اپنا ہوگا، بلا شرکتِ غیرے اپنا۔ اِسی لیے تو لُٹے پُٹے قافلے جونہی ارضِ وطن پر قدم رکھتے اللہ اکبر کی صدائیں بلند کرتے ہوئے دھرتی ماں کو والہانہ چومنے لگتے۔ اُنہیں مطلق کوئی غم نہیں تھا کہ وہ آگ وخون کے دریا عبور کرتے ہوئے کیا کچھ گنوا بیٹھے۔ دھرتی ماں پر قدم رکھتے ہی اُن کے اذہان وقلوب پکار اُٹھتے کہ وہ کوہِ الم کو مسخر کر چکے۔ شادمانیوں سے لبریز اُن کے کاسہئ دماغ میں جنوں خیزی کا یہ عالم کہ سودوزیاں کا احساس مِٹ گیا،مگر سات عشرے گزرنے کے باوجود سب خواب وخیال۔
خوابوں کے جال بُنتے عمر بیت چلی مگر جادہئ اُمید تاحال یاس کی ویرانیوں میں ٹھوکریں کھاتا ہوا۔ ظلمتِ بے لگام کا عناں گیر کوئی نہ جابر سلطان کے سامنے کلمہئ حق کہنے والا۔ بنی آدم کی ذلت اِس مقام تک پہنچ چکی کہ ہوس کی وادیوں میں ضیائے اُلفت کا کوئی روزن دکھائی دے نہ سجھائی۔ تیرہ وتار پستیوں سے اُٹھانے کے دعوے اور وعدے بہت مگر عمل مفقود۔ اب تو زیست کے شبستانوں پر مایوسیوں کی چھائی کہر کی تہیں بھی دبیز ہو چلیں۔ یہ بجا کہ اسیرانِ یاس والم کی سیاہ بختی نے اُن کے لبوں پر خاموشی کے قفل لگا دیئے مگر ڈرتا ہوں کہ کہیں یہ گمبھیر خاموشی طوفانوں کا غوغہئ عظیم نہ بن جائے، لہو کے سَیلِ رواں میں نہ ڈھل جائے کہ تاریخ کا سبق یہی۔
بتاتا چلوں کہ ہم نے اُس لم یزل کے نام پر زمین کا یہ ٹکڑا حاصل کیا جس نے ہماری ہدایت کے لیے حکمت کی عدیم النظیر کتاب نازل کی۔ ایسی کتاب جو ہماری معاشی، معاشرتی، سیاسی، سماجی اور مذہبی زندگی کے ہر پہلوپر محیط۔ ایسی کتاب جس کے بارے میں کسی عامی کا نہیں بلکہ سرورِ کائنات ﷺ نے فرمایا کہ اگر اِس کتاب کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے تو قیامت تک گمراہ نہیں ہوگے (مفہوم)۔ ایسی کتاب جو سرچشمہئ ہدایت ہے۔ ایسی کتاب جس میں رَبِ علیم وخبیر نے درج کر دیا ”تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہ رکھی“ (الکہف آیت 1)۔ سورۃ
الزمر آیات 27, 28 میں یوں ارشاد ہوا ”ہم نے قُرآن میں لوگوں کو طرح طرح کی مثالیں دیں تاکہ یہ ہوش میں آئیں۔ یہ ایسا قُرآن ہے جو عربی زبان میں ہے اور جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں“۔ اِسی طرح سورۃ اعراف، سورۃ انعام، سورۃ عنکبوت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی آیتیں اور نشانیاں کھول کھول کر بیان کرنے کا ذکر کیااور سورۃ یونس، الدھر،التکویر، المومن میں رَبِ عز وجَل کا یہ سوال دامن گیر ”پھر تم کہاں سے پھرائے جا رہے ہو“۔ یہی نہیں بلکہ پورے فرقانِ حمید میں جگہ جگہ اِنہی مضامین کا بار بار ذکر آتا ہے۔ اِسی لیے حضورِاکرم ﷺ نے گمراہی سے بچنے کے لیے اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا ہے۔ اہلِ فکرونظر سے یہ سوال تو بنتا ہے کہ جب فرقانِ حمید قیامت تک ہماری رَہنمائی کے لیے کافی ہے تو پھر تفرقہ بازی اور گروہ بندی کیوں؟۔ گزشتہ سات عشروں سے جن زورآوروں کے ہاتھوں میں ملک کی تقدیر ہے کیا اُن کے پیکرِ خاکی میں رحمٰن کے احکامات سے کبھی کوئی ہلچل مچی؟۔ کیا کبھی دھرتی ماں کے لیے کچھ کر گزرنے کی اُمنگ نے انگڑائی لی؟۔ کیا یہ عین حقیقت نہیں کہ رَہنمائی کا دعویٰ کرنے والوں کا مطمع نظر قوم کی فلاح نہیں، ہوسِ اقتدار، محض ہوسِ اقتدار؟۔ کیا اِن اہلِ ہوس نے دینِ مبیں کے حکم کے مطابق عدل وانصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا؟۔ حضورِ اکرم ﷺ کا فرمان ہے ”قومیں اُس وقت ذلیل ہوئیں جب اُن کا قانون صرف کمزور اور ناتواں لوگوں تک کے لیے تھا“۔ ہمارے ہاں تو یہ رواج کہ عدل وانصاف بھی زور آور کے گھر کی باندی، دَر کی لونڈی بن کے رہ گیا۔یہ کس الہامی کتاب کا درس ہے کہ صدرِ مملکت کو عدالتی استثنا حاصل ہوتا ہے؟۔ امیر المومنین حضرت علیؓ تو عدل وانصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے قاضی شریع کی عدالت میں پیش بھی ہوئے اور اُس کے فیصلے پر سرِتسلیم خم بھی کیا مگر ہمارے صدرِ مملکت کے سَر پر عدالتی استثنا کا چھاتہ۔ طُرفہ تماشہ یہ کہ دعویٰ پھر بھی دینِ مبین کی عملداری اور ریاستِ مدینہ کا۔
علامہ اقبالؒ نے فرمایا
رہ گئی رسمِ اذاں، روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا، تلقین غزالی نہ رہی
ہم نے 1973ء کے آئین میں اسلامی دفعات شامل تو کر دیں مگر اڑتالیس سال گزرنے کے باوجود عمل مفقود۔ آئین کے آرٹیکل 2 کے تحت قراردادِ مقاصد کو آئین کا اہم ترین حصہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ چونکہ اللہ تعالیٰ ہی کائنات کا بِلاشرکتِ غیرے حاکم ہے اِس لیے پاکستان کے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی عمل میں قُرآن وسنت کی تعلیمات کے مطابق ڈھالا جائے گا۔ آرٹیکل 31 میں مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی عمل میں اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق ایسی سہولیات دی جائیں گی جن کی مدد سے وہ قُرآن وسنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں اور اپنی زندگیوں کو اِس کے مطابق ڈھال سکیں۔ آرٹیکل 33 کے مطابق جتنی جلدی ممکن ہو سکے ربائی اقتصادی نظام کا خاتمہ کیا جائے گا۔ آرٹیکل 62 اور 63 میں رُکنِ اسمبلی منتخب ہونے کے لیے اسلامی شرائط پر مکمل عمل درآمد کا ذکر کیا گیا ہے جن میں ایک شرط ”صادق وامین“ ہونا بھی ہے (ہمارے ہاں جو عدالتی صادق وامین پائے جاتے ہیں اُن سے اللہ کی پناہ)۔ آرٹیکل 203 میں وفاقی شریعت کورٹ اور آرٹیکل 227 کے مطابق تمام قوانین کو قُرآن وسنت کے مطابق ڈھالنے کی گارنٹی دی گئی ہے۔ حصولِ مقصد کے لیے آرٹیکل 228 کے تحت اسلامی نظریاتی کونسل کے قیام کا ذکر کیا گیا ہے۔
شنید ہے کہ سات سال میں تمام قوانین کو اسلامی قالب میں ڈھالا جانا تھالیکن اڑتالیس سال گزرنے کے باوجود زورآور عمل درآمد سے گریزاں کہ ایسا کرنے سے اُن کی اندھی طاقت کو ضعف پہنچنے کا شدید خطرہ۔ جو اپنے مَن میں قیصروکِسریٰ جیسی شہنشاہیت کے خواب سجائے بیٹھے ہوں وہ بھلا امیر المومنین حضرت عمرؓ جیسی حاکمیت کے طلبگار کیوں ہوں گے جنہیں دو چادروں کا حساب بھی دینا پڑتا ہے۔ جن کے قدم دبیز قالینوں کے بغیر اُٹھنے سے گریزاں ہوں، سفر کے لیے ہیلی کاپٹر اور ہوائی جہاز ہمہ وقت تیار ہوں، وہ بھلا اناج کی بوری کندھے پر رکھ کر غریب بیوہ کے دَر پہ کیسے پہنچ سکتے ہیں؟۔ جن کے لیے تیس تیس گاڑیوں کے پروٹوکول اور حفاظتی دستے ہوں، وہ بھلا مسجدِ نبویؐ کی صفائی کے بعد وہیں چٹائی پر گہری نیند کیسے سو سکتے ہیں؟۔ اِس لیے ریاستِ مدینہ کے خواب تو رہنے ہی دیں۔
ہمیں اہلِ سیاست سے کوئی غرض نہ سیاسی بتوں کی پوجا شیوہ مگر اِس گہوارہئ الم کے باسی ہونے کے ناتے مجبوروں، مقہوروں کی بے بسی و بے کسی دیکھ کر دِل کی دنیا تو بہرحال بار بار اُجڑتی ہے۔ ہم نے کبھی کوئی آرزوئے خام نہیں پالی مگر جینے کا حق تو رکھتے ہیں۔ آج ملکی حالات بدترین، معیشت اپنی بربادیوں پہ نوحہ خواں، مہنگائی کا عفریت ہر کہ ومہ کو نگلنے کے لیے تیار، اقوامِ عالم کے ہاں ہماری توقیر دھجیوں میں اور سیلاب کی تباہ کاریاں الگ۔ اِس کے باوجود بھی کرسی کے طلبگار باہم دست وگریباں، جوتم پیزار۔ ایسے میں رَہبری کے دعویداروں کو رہزن تو کہا جا سکتا ہے رَہبر نہیں۔

تبصرے بند ہیں.