شیخ سعدی نے گلستان میں ایک واقعہ نقل کیا ہے میں اس واقعے کی طرف نہیں جانا چاہتا، اس واقعے کے آخر میں شیخ سعدی نے پرسیپشن کا تصور دیا ہے، ہم اپنی زندگی میں مختلف چیزوں اور افراد کے بارے میں مختلف پرسیپشنز بنا لیتے ہیں اور پھر ہر چیز کو اسی پرسیپشن کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ یہ پرسیپشن بنانے میں میڈیا، دوست، ماحول اور معاشرہ بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ افراد، اقوام اور ملکوں کے بارے میں بھی ایک خاص پرسیپشن بن جاتی ہے اور ہم چاہ کر بھی اس سے جان نہیں چھڑا سکتے۔ پاکستان کے بارے میں عالمی سطح پر جو پرسیپشن بن چکی ہے اس میں اور حقیقت میں زمین آسمان کا فرق ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم خود اس پرسیپشن کو بدلنا نہیں چاہتے۔ دنیا ہمارے بارے میں کیا سوچتی ہے اس کو ایک لمحے کے لیے سائیڈ پے رکھ دیں اور سوچیں کہ کیا ہم خود اس ملک کو ٹھیک کرنا چاتے ہیں اور کیا ہم خود اس ملک کے بارے میں پرسیپشن کو بدلنا چاہتے ہیں؟ تبدیلی اور اصلاح ہمیشہ اندر سے جنم لیتی ہے، دنیا میں جب بھی تبدیلی کا سفر شروع ہوا اس کا آغاز ہمیشہ اندر سے ہوا۔ آپ دیکھ لیں دنیا میں جتنے بھی انبیا آئے سب نے پہلے اپنے خاندان اور فیملی والوں کی اصلاح کی کوشش کی، محسن انسانیت کو بھی سب سے پہلے اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرانے کا حکم دیا گیا تھا۔ اسی لیے جب تک ہم خود اس ملک کے بارے میں اپنی پرسیپشن کو نہیں بدلیںگے، اس کو ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کریں گے ہم کسی اور کو قائل نہیں کر سکیں گے۔ اس کے ساتھ ہمیں اس حقیقت کو بھی سمجھنا چاہئے کہ ہر عروج سے پہلے زوال اور ہر زوال کے بعد عروج ہوتا ہے، یہ کائنات کا ایک مسلمہ اصول ہے، آپ دیکھ لیں جدید دور کا آغاز سولہویں صدی سے ہوتا ہے، برطانیہ یورپ کا پہلا ملک تھا جس نے ترقی کی طرف قدم بڑھائے تھے لیکن اس سے پہلے کا برطانیہ آج کا پاکستان تھا۔ شاید آپ کے لیے یہ مماثلت حیران کن ہو لیکن مجھے آج کے پاکستان اور پندرھویں صدی کے برطانیہ میں تمام چیزیں مشترک دکھائی دیتی ہیں۔ پندرھویں صدی کا برطانیہ جہالت اور تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ امیر اور غریب کا فرق واضح تھا، معاشرے میں فقیروں، گداگروں اور دھوکے بازوں کی لمبی قطاریں ہوا کرتی تھیں، غریب افراد کو معاشرے میں کوئی قانونی حق حاصل نہیں تھا۔ دیہاتی جب غربت اور بھوک کے ہاتھوں تنگ ہوتے تو بھیک مانگنے شہروں کی طرف نکل پڑتے تھے۔ شہر گندے ہوتے تھے، جگہ جگہ غلاظت کے
ڈھیر تھے، گلیاں تنگ اور دکانیں گندی ہوتی تھیں، قصائی دکان کے سامنے ہی جانور ذبح کر کے انہیں لٹکا دیتے تھے۔ لوگ اون کا لباس پہنتے تھے جس کی وجہ سے جلد کی بیماریاں پیدا ہو جاتیں، کپڑے دھونے کا رواج بہت کم تھا، نہانے کو عیب سمجھا جاتا تھا۔ عوام تنگ نظر اور کم ظرف تھے، اکھڑ مزاج اور درشت، ماحول میں تشدد کا عنصر غالب تھا، کوئی کسی کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھا، لوگ ایک دوسرے کو آنکھیں نکالتے اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، معمولی باتوں پر لڑ پڑنا اور گتھم گتھا ہو جانا معمول تھا، تفریح کے لیے انسانوں اور جانوروں کی لڑائیاں اور مقابلے ہوا کرتے تھے، لوگوں کی عمریں زیادہ نہیں ہوا کرتی تھیں، بیماریں عام تھیں لیکن معالج اور ڈاکٹر ڈھونڈھنے سے بھی نہیں ملتے تھے۔ بیماریوں اور فسادات میں لوگ بڑی تعداد میں مر جاتے تھے، اکثر عورتیں زچگی کے دوران مر جاتی تھیں۔ عوام میں توہمات کی بھرمار تھی، روحوں، جنات اور شیاطین پر اعتقاد تھا، لوگ ڈاکٹروں سے زیادہ جادو ٹونے پر یقین رکھتے تھے۔ بیماریوں کے ساتھ لوگوں کو قحط، خشک سالی اور وباو¿ں کا سامنا تھا۔
اب آپ پاکستان کو دیکھیں، پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کی سو سالہ جد و جہد کا نتیجہ تھا، ایک ایسا پاکستان جس کے پاس وسائل تھے نہ افراد، مشینری تھی نہ ساز و سامان، ڈاکٹر تھے، انجینئر تھے نہ سائنسدان، فیکٹریاں ملیں اور نہ کارخانے، سڑکیں تھیں نہ ریلوے، دفاتر تھے نہ سرکاری ملازمین، جہاز تھے، ایئر پورٹ اور نہ بندرگاہیں اور حد تو یہ تھی کہ اس کے پاس اپنا کوئی آئین اور دستور بھی نہیں تھا۔ اس کے باوجود اللہ کا کرم تھا کہ پچاس سال بعد وہی پاکستان ایٹمی طاقتوں کی صف میں کھڑا تھا۔ آج وہی پاکستان جنوبی ایشیا کا اہم ترین ملک ہے جس کی مرضی کے بغیر عالمی طاقتیں کوئی پالیسی ترتیب دے سکتی ہیں اور نہ اس پر عمل پیرا ہو سکتی ہیں۔ آج اس کا شمار دنیا کے اہم ترین ممالک میں ہوتا ہے اور آج اس پاکستان کو ساتھ لے کے چلنا عالمی طاقتوں کی مجبوری بن چکا ہے۔ آج وہ پاکستان دنیا کا بہترین اسلحہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے، آج اس پاکستان کے پاس دو سو سے زائد ایٹم بم بنانے کی صلاحیت موجود ہے، آج امریکہ، روس اور چین جیسی سپر پاورز اسے اپنے بلاک میں شامل کرنے کے لیے بے چین ہیں اور زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ پچھتر سال کی عمر میں اتنی بڑی کامیابیاں حاصل کر لینا واقعی ایک کمال ہے اور یہ کمال صرف پاکستان جیسا ملک ہی کر سکتا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ناروے، ڈنمارک، سوئرزلینڈ، آئر لینڈ، بیلجئم، سنگا پور، بحرین، مسقط، عمان، کویت، عرب امارات، اردن اور برونائی سب ایسے ممالک ہیں جنہوں نے بہت کم عرصے میں ترقی کی ہے اور آج یہ ممالک ترقی یافتہ ممالک میں سر فہرست ہیں۔ لیکن سر ان ممالک کی ترقی کی حقیقت جا ننے سے پہلے آپ ان ممالک کا جغرافیہ، ان کی آبادی، ان کے ہمسائے اور ان کی معیشت کا جائزہ لیں۔ ناروے کی آبادی صرف 51 لاکھ ہے، فن لینڈ 55 لاکھ ، سنگا پور 55 لاکھ ، آئر لینڈ 46 لاکھ ، سویڈن 98 لاکھ ، ڈنمارک 57 لاکھ اور اسی طرح عرب ریاستوں کی آبادی بھی لاکھوں کے ہندسے سے تجاوز نہیں کر تی، اب یہ چھوٹے چھوٹے ممالک ہیں، ان کی آبادی ساتویں ہندسے سے آگے نہیں بڑھتی، ان کی ہمسایہ ممالک کے ساتھ کوئی جنگ نہیں، انہیں ایٹم بم، فوج اور اسلحے کی پروا نہیں، ان کی جغرافیائی حیثیت نے انہیں ہر طرح کے خطرات سے محفوظ رکھا ہوا ہے اور شرح خواندگی ان ممالک میں سو فیصد ہے لہٰذا ان ممالک کی ترقی ایک لازمی امر ہے۔ جبکہ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت، ہمسایہ ممالک، آبادی، شرح خواندگی اور انرجی کے مسائل یکسر مختلف ہیں۔ پاکستان کی آبادی تقریباً بائیس کروڑ کی حدوں کو چھو رہی ہے، صرف کراچی شہر کی آبادی ڈیڑھ کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے، لاہور شہر بھی ڈیڑھ کروڑ افراد کو اپنے دامن میںپناہ دیے بیٹھا ہے لہٰذا 50 لاکھ آبادی والے ملک اور ڈیڑھ کروڑ آبادی والے شہر کا موازنہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے جس شہر کی آبادی ڈیڑھ کروڑ ہو گی اس کے مسائل بھی اسی لحاظ سے ہوں گے، جس ملک پر بائیس کروڑ عوام کا بوجھ ہو گا اس کے مسائل بھی اسی لحاظ سے ہوں گے، اس ملک میں ٹرانسپورٹ، سڑکیں، بازار، ریلوے، ایئر پورٹس، شاپنگ مالز، گھر، فلیٹ سیوریج سسٹم، صاف پانی، غذائی اجناس اور ضروریات زندگی کے مسائل بھی اسی حساب سے ہوں گے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک ایسا ملک جس کی آبادی بائیس کروڑ، جس کی فوج دس لاکھ، جس کے ہمسائے انتہائی فسادی، جس کی شرح خواندگی ساٹھ فیصد اور جس کو اپنا دفاعی سسٹم اپ گریڈ رکھنا ہو اس ملک کے مسائل اور ایک ایسا ملک جس کی آبادی صرف پچاس لاکھ ، فوج صرف دس ہزار، ہمسائے بے ضرر اور اس کی شرح خواندگی سو فیصد ہو ان دونوں کے مسائل ایک جیسے ہوں؟ اس لیے سب سے پہلے ہمیں خود پاکستان کے بارے میں پرسیپشن کی بدلنے کی ضرورت ہے جس دن ہم نے اپنی پرسیپشن بدل لی ہم دنیا کو بھی پاکستان کے بارے پرسیپشن بدلوانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.