مفرور گھڑی کا قصہ

14

بچپن سے سنتے آئے کہ پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے لیکن آج یہ واقعی نازک دور ہے ۔ بالا دست طبقات کی اقتداری رسہ کشی نے قوم کو ایسے ” کھوبے “ میں پھنسا دیا ہے کہ جہاں سے نکلنا محال نہیں تو مشکل ضرور دکھائی دے رہا ہے ۔ مایوسی اوربے یقینی کے بادل ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان کے جغرافیے میں گہرے ہوتے جا رہے ہیں ۔ الیکشن کا مطالبہ جائز ہوسکتا ہے لیکن الیکشن تو دہائیوں سے ہو رہے ہیں ۔سوال تو پاکستانی عوام کے مسائل کا ہے جنہوں نے کوئی قومی خزانہ اپنی ضرورتوںپر بھی استعمال نہیں کیا ¾ جن کے کوئی فلیٹ لندن کیا پاکستان میں بھی نہیں ¾ جن کے سوئس بنک میں کوئی اکاﺅنٹ نہیں ¾جنہوں نے کوئی ڈیزل کے پرمٹ نہیں لئے ۔جنہوں نے کسی توشہ خانہ کو لاولد کا خزانہ سمجھ کر نہیں لوٹا ۔ آج غربت اورمہنگائی نے پاکستان کے ہرتنخواہ دار گھرکو شدید متاثر کر رکھا ہے لیکن قربان جاﺅں اُن غریب اور مڈل کلاسیوں پر ¾ جن کو ایک بے تعبیر خواب کے پیچھے لگا دیا گیا ہے جو ٹرک کی بتی سے بھی زیادہ ہولناک ہے۔ کل تک جو لوگ سفید پوش کہلاتے تھے اب سیاہ پوش ہوچکے ہیں ۔اِن سیاہ پوشوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ بھکاری نہیں خوددار ہوتے ہیں اور مانگنے کے بجائے ¾بچوں سمیت خود کشی کرلیتے ہیں ۔ پاکستان میں شعوری طور پرپیدا کی گئی پرت در پرت تقسیم ¾زندگی کے ہر شعبے میں نظر آ رہی ہے لیکن مشکلات کا قابل ِ قبول حل کسی کے پاس نہیں اورجن کے پاس حل ہے انہیں اللہ نے حوصلہ عطا نہیں کیا کہ وہ چیختے ہوئے اپنے بچوں سمیت گھروں سے نکلیں اور ان حرام خوروں کے گھروں کے سامنے کھڑے ہو کر اِن سے پوچھیں کہ ”کیا تم ہمارے بچوں کی موت کا انتظار کررہے ہو؟“۔ ہمیں چیخ چیخ کر دنیا کو بتانا چاہیے کہ ہم مصیبت میں ہیں اوراِس مصیبت کی بڑی وجہ دنیا بھر کی وہ ریاستیں ہیںجنہو ں نے ہمارے حکمرانوں کے ساتھ سازباز کرکے پاکستان کو اپنے مفادات کا اکھاڑہ بنایا اور اپنے پسندیدہ حکمران ہمیں دیئے جنہوں نے پاکستان کو موجودہ بدترین حالات تک پہنچایا ۔ہم کسی پاگل سیاستدان کے نا قابل ِعمل پروگرام پراپنے بچے قربان نہیں کر سکتے۔ پاکستان کے عوام اس کھیل کا کبھی حصہ نہیں رہے جس میں انہیں شکست دی گئی ہے ۔ اپنے حکمرانوں پر اعتماد انہیں مہنگا پڑ گیا اور آج اپنے دیس میں اڑتی ہوئی مردہ خورگدھیں دیکھ کر محسوس ہو رہا ہے کہ ہم کسی بڑے المیے کی طرف رواں دواں ہیں ۔ حکمران اشرافیہ کو اقتدار اورہمارے بچوں کوضروریات زندگی چاہئیں لیکن عوام تو اقتدار دینے کیلئے تیار ہیں لیکن حکمران اگرریاست مدینہ بھی بنانے آئے تو ورثے میں سکینڈل ہی چھوڑ کر جاتا ہے ۔
کمال کا کھیل کھیلا جا رہا ہے میڈیا کہتا ہے کہ سعودی ولی عہد کی تحفے میں ملنے والی گھڑی دبئی میں بکی اور جس کے پاس گھڑی ہے وہ میڈیا پرآ کر بتا رہا ہے کہ میں نے گھڑی عمران خان کی فرنٹ وویمن سے خریدی ۔ تحریک انصاف کے قائدین کا کہنا ہے کہ خریدار ایک کریمنل ہے ¾عمران نیازی کا کہنا ہے کہ گھڑی اسلام آباد میں بیچی گئی ۔ خریدار کہتا ہے اُس نے گھڑی بیس لاکھ ڈالر میں ¾دبئی میں گوگی نامی کسی خاتون سے خریدی ۔ گوگی صاحبہ سابق خاتون اول محترمہ بشریٰ بی بی المشہور پنکی پیرنی کی راز داں ہیں جبکہ سابق وزیراعظم عمران خان نیازی ہمیشہ گوگی پر لگنے والے ہر الزام کی وکالت کرتے نظر آئے ہیں ۔اب تک میسر معلومات کے مطابق شہزاد اکبر نے
خریدار عمرفاروق سے رابطہ کرکے خریدار اور فروخت کندہ کا رابطہ کرایا ¾ ممکن ہے یہ سب جھوٹ ہو لیکن سعودی ولی عہد کا دیا ہوگا گھڑی کا تحفہ اورعمران خان کا اُسے اسلام آباد میں بیچنا سچ ہے کیونکہ اس کا اقرار عمران خان کی جانب سے نہ صرف ہو چکا ہے بلکہ کسی ”کھوکے “کی رسیدیں بھی فراہم کردی گئی ہیں ۔ اب معمہ یہ ہے کہ وہ کون سے موکلات ہیں جو گھڑی توشہ خانہ سے اسلام آباد کے بجائے دبئی لےکر گئے کیونکہ گھڑی تو خریدارکے پاس ہے ۔یعنی شناخت شدہ برآمدگی تو موجود ہے لیکن مال مقدمہ کو دبئی پہنچانے والا ملزم نہیں مل رہا ۔ گوگی صاحبہ کے شوہر احسن جمیل گجر کا کہنا ہے کہ گوگی زندگی میں کبھی گھڑی خریدنے والے عمرفاروق سے نہیں ملیں ۔ اب گھڑی اگر اسلام آباد میں بکی ہے تواتنی حفاظت سے دبئی کیسے پہنچی؟ اسلام آباد میں خریدو فروخت کرنےوالوں نے جو لکھت پڑھت کی ہے وہ انتہائی ناقص اور ناقابلِ یقین ہے ۔دکاندار جس کے بارے میں کہا جا
رہا ہے کہ اُس نے اسلام آباد میں گھڑی خریدی ہے وہ اسلام آباد سے دکان بیچ کر روپوش ہو چکا ہے ¾ اسلام آباد میں بکنے والی گھڑی کی وصو ل شدہ رقم کہاں اورکس بنک میں وصول کی گئی؟ کیونکہ دبئی کے خریدار کا کہنا ہے کہ اُس نے گوگی صاحبہ کو نقد (کیش)رقم ادا کی تھی تو کیا اسبلام آباد میں بھی لین دین نقد(کیش ) ہواتھا؟اتنے امیر آدمی نے اتنی قیمتی گھڑی کسی صحرا میں جا کر تو نہیں خریدی ہو گی ¾اس خریدو فروخت کی کوئی نہ کوئی فوٹیج ضرور بنی ہونی چاہیے جو تاحال یا تو میڈیا کی رسائی سے باہر ہے یا پھر ایسی کوئی فوٹیج بھی موجود نہیں لیکن عمر فاروق اپنی بات پر اڑا ہوا ہے کہ گھڑی اُس نے گوگی صاحبہ سے ہی خریدی اوراگر کوئی بھی عدالت طلب کرے گی تو وہ تمام ثبوتوں کے ساتھ عدالت میں پیش ہوجائیں گے ۔ دوسری طرف مسٹر صادق اینڈ امین نے بھی عدالت میں جانے کا فیصلہ کر لیا ہے میری دعا ہے کہ عمران خان عدالت میں نہ جائے کیونکہ اس سے روزانہ گھڑی چوری پر نیا شور مچے گا اور میں نہیں سمجھتا کہ اتنا بڑا کاروبار کرنے والا شخص ان پیچیدگیوں سے واقف نہ ہو۔ اُسے گھڑی خریدتے وقت اِس ”مفرور گھڑی“ سے وابستہ کہانیوں اور راز و نیاز کا مکمل علم ہو گا ۔جو عدالت میں جانے سے منظرِ عام پر آ جائیں گے اور سوائے جگ ہنسائی کے اور کچھ نہیںہو گا ۔ تاریخ بہت کم لوگوں کو ہیرو یا زیرو بننے کا موقع دیتی ہے ۔ آپ یقینا سوچ رہے ہوں گے کہ ہیروتو ٹھیک ہے یہ زیرو کہاں سے آ گیا تو بات سید ھی سی ہے جب وقت کسی کی بطور ہیرو پرورش کرے لیکن وقت آنے پر وہ ہیرو بننے کے بجائے ولن بن جائے تو اسے زیرو ہی کہا جائے گا ۔
مفرور گھڑی کے علاوہ دوسری گھڑیاں بھی منظر عام پر آنا شروع ہوچکی ہیں ۔ میں جانتا ہوں کہ توشہ خان کے قانون کے مطابق عمران خان کی خریداری درست ہے لیکن عمران خان کا موقف ہمیشہ یہ رہا کہ حکمران کو ملنے والا تحفہ ریاست کا ہوتا ہے ۔ایسا وہ ہمیشہ اقتدار میں آنے سے پہلے کہتے رہے لیکن اقتدار میں آ کر انہوں نے صرف اُس کی خریداری کی قیمت بیس فیصد سے پچاس فیصد کردی ۔جو میرے نزدیک عمران خان جیسے بڑے آدمی کو زیب نہیں دیتا تھا ۔ اُسے اپنے موقف پر قائم رہنا چاہیے تھا بقول عمران خان کے ” اللہ نے اُسے سب کچھ دے رکھا ہے ۔“ تو پھر ایک گھڑی کی کیا اوقات تھی جو ایشو بن گئی ۔ پھر پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کسی لیڈر نے اپنے صادق و امین ہونے کا ڈھول بھی نہیں پیٹا گو کہ میں ذاتی طور پر صداقت و امانت کو رسول کے وہ معجزے تسلیم کرتا ہوں جو انہیں اعلان نبوت سے پہلے عطا ہوئے اور جن کے معترف صرف مسلمان ہی نہیں غیر مسلم بھی ہیں ۔ اب خدا کی پناہ ! کہ عمران خان کو جو لوگ ڈیفینڈ کرنے آ رہے ہیں اُن کے اپنے کرداراتنے داغدار ہیں کہ اُن کی کوئی بھی بات تسلیم کرنے پر دل و دماغ راضی ہی نہیں ہوتے ۔پاکستان ¾ پاکستانیوں کی پہلی اور آخری محبت ہے ۔اس کا نظام معیشت تبدیل کیے بغیر تبدیلی کا کوئی بھی خواب ”دیوانے کے خواب“ سے زیادہ نہیں۔ملکی وسائل کی مساویانہ یا منصفانہ تقسیم ہی تبدیلی کا واحد ذریعے ہے۔ جب تک ہم پاکستان کی عوام کا خزانہ پاکستانیوں پر خرچ نہیں کریں گے اتنی دیر تک ہر نعرہ صرف ”سلطان راہی مرحوم کی بڑھکوں کے سوا کچھ نہیں ۔ طبقاتی نظام کے ہوتے ہوئے ”دو نہیں ایک پاکستان “ کی بات کرنا صرف ایک سیاسی نعرہ ہے ۔ پاکستان فرد واحد کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے اور پاکستان کے تمام ادارے کسی بڑے المیے کے منتظر ہیں مگر ہمیں یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہیے کہ لازمی نہیں کہ ہر المیہ ایک محدود دائرے کے اندر تباہی مچائے ۔ میں چشم تصور سے دیکھ رہا ہوں کہ اگر لوگ اپنی مرضی سے ¾ اپنی بھوک اورننگ کے ہاتھوں تنگ ہو کر باہر نکل آئے تو یادرکھیں ہمارے پاس بچانے کیلئے کچھ نہیں بچے گا ۔ آرمی چیف کی تبدیلی کوئی نئی بات نہیں ہو گی اس سے پہلے کتنے ہی آرمی چیف بدل چکے لیکن حالات بدتر سے بدترین ہی ہوتے گئے ۔ سو پاکستان کو” رب کا پاکستان ۔۔۔سب کا پاکستان “ بنانا ہوگا یہی فلاح کا آخری رستہ دکھائی دیتا ہے ۔ باقی کرپشن جسم میں شوگر کی مانند ہوتی ہے یہ نارمل توہوسکتی ہے لیکن ختم نہیں کی جا سکتی ۔اچھی ریاست میں کم سے کم اور بری ریاست میں زیادہ سے زیادہ کرپشن ہوتی ہے یہی ساری دنیا میں ازل سے ہورہا ہے لیکن ہمیں انسانوں کے مسائل انسانی بنیادوں پر حل کرنا ہو ں گے اورفوری کرنا ہوں گے۔

تبصرے بند ہیں.