تماشوں میں گھری قوم!

37

ملک کے سیاسی حالات دیکھ کر خیال آتا ہے کہ نجانے کب ہمیں بے سود کھیل تماشوں سے نجات ملے گی۔ ہم تو جیسے تماشوں میں گھری ایک قوم بن کر رہ گئے ہیں۔ پاکستان کے قیام کو پچھتر برس بیت چکے ہیں۔ لیکن آ ج تک ہماری سمت متعین نہیں ہو سکی۔ ہمارے اردگرد بسنے والے ممالک آہستہ آہستہ آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔ جبکہ ہم بے معنی جھگڑوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک ہم ا پنے بنیادی مسائل کا حل تلاش نہیں کر سکے۔ ہمیں کوئی نہ کوئی ایسا معاملہ درپیش رہتا ہے جس کا کسی دوسرے ملک میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ایک قصہ ختم ہونے میں نہیں آتا کہ دوسرا قضیہ سامنے آ جاتا ہے۔مثال کے طور پر گزشتہ کئی دن سے دو معاملات ہمارے سیاسی اور صحافتی منظر نامے پر چھائے ہوئے ہیں۔ ایک تو آرمی چیف کی تعیناتی کا معاملہ ہے اور دوسرا توشہ خانے کی گھڑیوں کی فروخت کا قصہ ہے۔
دنیا کے جمہوری ممالک میں فوج کے سربراہ کی تعیناتی معمول کی کاروائی ہوتی ہے۔ آرمی کا سربراہ رخصت ہوتا ہے تو طے شدہ طریقہ کار کے مطابق ایک نیا سربراہ فوج کی کمان سنبھال لیتا ہے۔ اب ذرا اپنے ملک کے سیاسی اور صحافتی منظر نامے پر نگاہ ڈالیں۔ گزشتہ کئی دن سے جنرل باجوہ کی رخصتی اور نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو مل رہی ہیں۔اگرچہ ہمارے ہاں آرمی چیف کی تعیناتی کا طے شدہ اور نہایت واضح آئینی طریقہ کار موجود ہے۔آئین پاکستان کے مطابق آرمی چیف کی تعیناتی کا اختیار وزیر اعظم کے پاس ہوتا ہے۔ اس کے باوجود اس تعیناتی کے حوالے سے رنگ برنگے تبصرے ، تجزئیے ، بیانات اور مشوروں کی گونج سنائی دیتی ہے۔
پاکستان کی سیاسی اور جمہوری تاریخ کو سامنے رکھیں تو یقینا یہ ایک نہایت اہم عہدہ ہے۔ہر وزیر اعظم نہایت سوچ بچار اور مشاورت کے بعد آرمی چیف کی تقرری کا فیصلہ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی آرمی چیف کے تقرر کا مرحلہ آتا ہے تو میڈیا میں یہ تعیناتی ایک اہم موضوع کی حیثیت سے زیر بحث آتی ہے۔ سیاسی سطح پر بھی سرگوشیاں سننے کو ملتی ہیں۔ لیکن اس مرتبہ تو اس تعیناتی کے حوالے سے اک ہیجان بپا رہا۔ محسوس ہوا جیسے اس معاملے کو گلی کوچے کا موضوع بنا دیا گیا ہے۔
کبھی خبر آتی ہے کہ حکومت اور اتحادی جماعتوں میں مشاورت ہو رہی ہے۔ کبھی صدر ، آرمی چیف اور وزیر خزانہ کی ملاقاتوں کی خبریں میڈیا کی زینت بنتی ہیں۔ سنتے ہیں کہ میاں نواز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان میں بھی کچھ رابطے ہوئے ہیں۔ یہ تو چلیں حکومت سے تعلق رکھنے والی جماعتیں ہیں، جو باہم مشاورت میں مصروف ہیں۔لیکن اپوزیشن کی طرف سے بھی نت نئے بیانات سننے کو ملتے ہیں۔ کبھی یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ آرمی چیف کی تقرری نئے الیکشن کے بعد کی جائے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ(طے شدہ آئینی طریقہ کار کے برعکس) اپوزیشن سے مشاورت کے بعد یہ تعیناتی ہونی چاہیے۔ تحریک انصاف کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف اس آئینی اختیار کو استعمال نہ کریں۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کا یہ بیان بھی نگاہوں سے گزرا کہ  آرمی چیف کی تعیناتی جیسا اہم معاملہ سیاست دانوں پر نہ چھوڑا جائے۔ یعنی امیر جماعت جو خود ایک سیاست دان ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ سیاست دان اس قابل نہیں کہ وہ یہ اہم فیصلہ کر سکیں۔وہ چاہتے ہیں اس تعیناتی کا اختیار سیاست دانوں کے ہاتھ سے نکل کر کسی اور کے پاس چلا جائے اور وزیر اعظم کو اس کے آئینی اختیار سے محروم کر دیا جائے۔
کل کے اخبارات نے یہ خبرنمایاں طور پر شائع کی کہ پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو نے تنبیہ کی ہے کہ "صدر نے آرمی چیف کی تعیناتی میں گڑ بڑ کی تو انہیں نتائج بھگتنا پڑیں گے”۔ جوابا تحریک انصاف کے ترجمان فرماتے ہیں کہ ” صدر علوی ، بلاول کی دھمکیوں سے ڈرنے والے نہیں ہیں”۔ دنیا کے کسی ملک میں آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے یہ ماردھاڑ نہیں ہوتی جو ہمارے ہاں اس مرتبہ ہو رہی ہے۔
توشہ خانہ کے تحائف کی خرید و فروخت کا قصہ بھی قومی میڈیا پر ایک بڑی خبر کے طور پر زیر بحث ہے۔ سربراہ حکومت کو دوسرے ممالک کے دوروں کے دوران تحفے تحائف ملنا ایک معمول کا معاملہ ہے۔ دوسرے ممالک کے سربراہان اور اراکین حکومت، جب پاکستان کا دورہ کرتے ہیں تو انہیں بھی تحائف دینے کی روایت موجود ہے۔ عمران خان سے پہلے بھی یہ تحائف پاکستانی سربراہان اور حکومتی اراکین کو ملتے رہے ہیں۔ یقینا اس سے پہلے بھی ایسے واقعات ہوتے ہوں گے کہ کوئی سربراہ حکومت یا حکومتی رکن دوسرے ملک سے ملنے والے تحفے کو قیمت کی ادائیگی کے بعد خرید لیا ہو۔ شاید یہ بھی ہو تا ہو کہ قیمت ادا کئے بغیر بھی کچھ تحائف کسی حکومتی رکن نے اپنے پاس رکھ لیئے ہوں۔ تاہم یہ قصہ پہلی مرتبہ سننے کو ملا ہے کہ دوست ملک سے ملنے والے تحائف کو بازار میں بیچ کر ان کی قیمت وصول کی جائے۔ کئی دن سے اس قصے پر بحث جاری ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تحائف کو انتہائی کم قیمت کے عوض بیچا اور خریدا گیا۔ کبھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ تحفوں کو پہلے فروخت کیا گیا اور ملنے والی رقم سے ادائیگی کی گئی۔ عمران خان کے حامی یہ نقطہ بھی بیان کرتے ہیں کہ تحفہ خریدنا عمران خان کا قانونی حق ہے۔کاش ہم اس سارے قصے کو قانون کے بجائے اخلاقیات کے ترازو میں رکھ کر دیکھیں۔ کیا کسی دوسرے ملک میں بھی دوست ملکوں سے ملنے والے تحائف سر بازار فروخت ہوتے ہوں گے؟ آج تک ہم نے پاکستا ن یا کسی دوسرے ملک کے بارے میں ایسا کوئی قصہ نہیں سنا۔ یہ ساری بحث سن کر خیال آتا ہے کہ قومی میڈیا پر زیر بحث یہ خبر اور اس سے جڑے واقعات جب دوسرے ممالک کے سفارت خانوں اور حکومتی ایوانوں میں گونجتے ہوں گے تو پاکستان کی کس قدر سبکی ہوتی ہو گی۔

تبصرے بند ہیں.