صاحبِ اقتدار لوگ دراصل یہ بھول جاتے ہیں کہ عوام کے جذبات اور ان کی آواز کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنا کبھی ممکن نہیں رہا۔ ہمارے ہاں ایسے صحافیوں کی کمی نہیں جو عمر بھر تند اور تیکھے لہجے میں لکھتے رہے جس کے لئے انہوں نے تکلیفیں بھی برداشت کیں اور مشکلات کا سامان بھی کیا اور کبھی کبھار تو ٹکٹکی پر بندھ کر کوڑے بھی کھائے لیکن وہ اپنے مشن میں مگن رہے۔ کبھی وہ زیرِ زمین رہے تو کبھی وہ زیرِ آسمان نعرے لگاتے رہے۔ اس سفر میں کچھ رزقِ خاک بھی ہوئے، کچھ نے قید و بند کی صعوبتیں بھی جھیلیں، کچھ کے گھروں میں فاقے ہوئے اور کچھ اپنے قریبی لوگوں کی نگاہوں میں معتوب ٹھہرے۔
پاکستان میں گزشتہ کچھ برس میں میڈیا کو جس طرح نکیل ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے وہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ حکومت کی کوشش کے باوجود اہلِ صحافت نے آزادیئ صحافت کی سربلندی کا عَلم ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ میڈیا سے توقع کی جاتی ہے کہ کسی حکومتی غلطی کوتاہی کی نشاندہی نہ کرے ا گر کسی نے ایسا کر دیا تو پھر وہ حب الوطنی کے دائرے سے خارج ہو جائے گا۔ جو حلقے ذرائع ابلاغ کی عوام تک آزادانہ رائے کے راستے میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں، انہیں اندازہ نہیں ہے کہ پوری دنیا بہت تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہی ہے اور اطلاعاتی ٹیکنالوجی میں ہونے والی تیز رفتار تبدیلیاں حکومتوں کی جانب سے ڈالی جانے والی رکاوٹوں کے باوجود عوام کو ایک دوسرے کو جاننے اور سمجھنے کے نئے مواقع فراہم کر رہی ہیں۔ دنیا میں اب وہی تہذیب اور کلچر باقی رہ سکے گا جس میں جدید دنیا کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کی سکت ہو گی۔
جب سے میڈیا آزاد ہوا ہے اس وقت سے معاشرے میں موجود پریشر گروپس مختلف طریقوں سے میڈیا پر دباؤ بڑھانے میں مصروف ہیں۔ قومی سیاسی پارٹیاں، علاقائی تنظیمیں، مذہبی تنظیمیں اور بعض نجی فلاحی ادارے تک سب اس دباؤ پروگرام میں شامل ہیں لیکن ان کے قول و فعل کے تضاد کا عالم یہ ہے کہ جب حکومت کو ہدفِ تنقید بنایا جاتا ہے تو اپوزیشن حلقے میڈیا کی تعریف کرتے ہیں اور اس تنقید کی تائید و حمایت کرتے ہوئے اسے جائز قرار دیتے ہیں اور جب اسی اپوزیشن کو ایوانِ اقتدار میں بیٹھنے کا موقع ملتا ہے تو وہ اس تنقید کو برداشت نہیں کر پاتے اور میڈیا ان کا ہدفِ تنقید بن جاتا ہے۔ اپوزیشن میں سیاسی جماعتیں آزادیاظہار کی چمپئن
دکھائی دیتی ہیں لیکن جب وہی جماعتیں حکومت میں ہوں تو تنقید برداشت کرنے کی روادار نہیں ہوتیں۔ وہ قومی سلامتی اور اداروں کے تقدس، جمہوریت کے خلاف سازش اور مبینہ مادر پدر آزادی کی آڑ میں تنقیدی رائے اور آزادیئ اظہار کو سلب کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ انہیں یہ بھی احساس ہوتا ہے ہ میڈیا کے ذریعے ڈالا گیا دباؤ حقیقی ہے۔ بطور ایک قوم ہمارا مسئلہ یہ نہیں کہ ہم تاریخی طور پر اپنے اداروں کے بہت بڑے ناقد ہیں، اس کے برعکس مسئلہ یہ ہے کہ ہم ریاست کا بیانیہ کسی تنقیدی جائزے کے بغیر من و عن تسلیم کر لیتے ہیں۔ ریاستوں سے غلطیاں ہوتی رہتی ہیں، چنانچہ ہماری ریاست کو بھی استثنا حاصل نہیں۔ ہماری تاریخی غلطیاں گواہ ہیں۔ چنانچہ یہ تصور غلط ہے کہ چونکہ ریاستی اداروں کی دانائی
ہر قسم کی غلطی سے پاک ہے چنانچہ اس پر کسی قسم کی تنقید کی گنجائش نہیں۔ سرکاری افسران بھی ہماری طرح انسان ہیں، ان کی عزتِ نفس کا تحفظ بھی ضروری ہے، لیکن پھر ان کے لیے وہی توہین کے قوانین دستیاب ہونے چاہئیں جو عام شہریوں کو میسر ہیں، اگر نہیں تو ان کی فعالیت درست کرنی چاہئے۔ افسران کے وقار کے تحفظ کے لیے اداروں کے وقار کے نام پر شمشیر برہنہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ ایک بات جو ہمارے یاد رکھنے کی ہے کہ ہمارے ادارے اتنے کمزور ہرگز نہیں کہ وہ محض تنقید کی بھی تاب نہ لا سکیں۔ یہ تصور شہریوں کے اختیار کی نفی ہے۔ آزادی کی دلیل انتہائی کمزور ہے۔
پاکستان کے آئین کی شق 19A کہتی ہے کہ ہر شہری کو عوامی اہمیت کے حامل تمام معاملات تک رسائی کا حق حاصل ہے۔ مگر اس آئینی تحفظ کے باوجود عام آدمی کی ریاستی منصوبہ بندی، حکومتی اقدامات اور فیصلہ سازی تک رسائی ممکن نہیں۔ آزادیئ اظہار گویا ہنوذ ایک تصورِ موہوم ہے۔ آزادیئ اظہار کے حصول کے لیے صحافیوں اور صحافتی تنظیموں نے قیامِ پاکستان کے وقت ہی سے طویل جد و جہد کی ہے۔ انہوں نے اس مقصد کے حصول کے لیے طویل قید و بند، جسمانی تشدد اور ایذا رسانی جیسی سزائیں بھگتیں۔ عوام تک صحیح اطلاعات پہنچانے کی پاداش میں سیکڑوں صحافیوں کو
زندگی سے ہاتھ دھونا پڑے، مگر وہ کٹھن سفر جو 1947ء میں شروع ہوا تھا، آج بھی جاری ہے بلکہ آج صحافیوں کو تاریخ کے بہت مشکل وقت کا سامنا ہے۔ جس طرح کی شکایت میڈیا کو آج کل ہے شائد اس سے قبل کبھی نہیں تھی اور جس طرح کی بے رحمانہ طریقے استعمال کیے جا رہے ہیں ان کی شائد ماضی میں بھی کوئی نظیر نہ ہے اور نہ صرف ریاستی اداروں کی تلوار بلکہ غیر ریاستی اداروں کی چھریاں بھی تیز ہوئی ہیں۔
برِصغیر میں صحافت آج سے نہیں بلکہ تقسیم سے قبل برطانوی سامراج کے خلاف عوامی جد و جہد کی حمایت کرنے کی پاداش میں قدغنوں کا شکار رہی ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد بھی ان رویوں میں تبدیلی نہیں آئی حق گوئی کی بنا پر آزاد پاکستان میں بھی آواز کو دبانے کے لیے پابندِ سلاسل کے حربوں کا عام استعمال ہو رہا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری سوچ پچھلے 75 سال میں بھی تبدیل نہیں ہو پائی۔ آج بھی دھونس جما کر لوگوں کو اندھی تقلید پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ یہ کوشش پچھلے 75 سال میں کامیاب نہیں ہوئی تو اب کیسے کامیاب ہو گی۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اہلِ اقتدار کچھ تنقید سننے کا حوصلہ بھی پیدا کریں۔ آزادیئ اظہار کا حصول اس طویل سفر سے مشروط ہے جس میں نہ کوئی شجرِ سایہ دار ہے، نہ سائباں، بلکہ اس سفر میں ان گنت رکاوٹیں ہیں۔ کبھی حالات کی ستم ظریفی کے بگولے راہ کھوٹی کرتے ہیں تو کہیں ریاستی اداروں کے اژدھے رکاوٹ بنتے ہیں۔ پھر کہیں غیر ریاستی مگر مچھوں کا خوف سمت تبدیل کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ مگر سفر بہر حال جاری ہے اورا سے اصل منزل کے حصول تک جاری رہنا ہے۔
پاکستان میں اس قحط الرجال کے اس دور میں بھی کچھ اہلِ صحافت کے نزدیک یہ تجارت نہیں عظیم پیشہ ہے جن کے لیے جیل کاٹنا اور ایذائیں برداشت کرنا روز مرہ کی بات ہے اور وقت نے ان کا کچھ نہیں بگاڑا اور آج بھی وہ ماضی کی طرح جیلیں کاٹ رہے ہیں، جانیں دے رہے ہیں اور کتنی ہی ترغیبات کے دام سے بچ کر نکل رہے ہیں۔ ایسے لوگ ہی کسی بھی معاشرے کا سرمایہ ہوتے ہیں لیکن ہمارے یہاں سچے اور کھرے لوگوں کے سچ سے لوگوں کو ڈر لگتا ہے اسی لیے انہیں حاشیوں پر دھکیلے جانے کا عمل جاری رہتا ہے۔ اس وقت صحافت کے پیشے کو ایسی ہی جرأت کی ضرورت ہے کہ وہ سچ بول سکے۔ اپنی پسند کے لحاظ سے جس قسم کی آزادی وہ پسند کرتے ہیں اگر اہلِ صحافت اس کے سامنے مزاحمت نہیں کر سکتے یا وہ اظہارِ رائے آزادی کے لیے جد و جہد نہیں کر سکتے تو پھر خود ہی پاکستان میں اظہارِ رائے کی آزادی کی موت واقع ہو جائے گی۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.