یقین کیجئے، خانصاحب روایتی میڈیا اور سوشل میڈیا کی زینت ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں لمبی عمر دے کہ اگر وہ سیاست میں متحرک نہ رہے تو ان دونوں کی رونق ہی ختم ہو کے رہ جائے گی، جی ہاں، خانصاحب سے بڑھ کے کون ہے جو دلچسپی بنائے رکھتا ہے، برین سٹارمنگ کے موقعے دیتا ہے اور جب وہ غلط بات کرتے ہیں توحقیقت میں ہمیں تحقیق کے بعد درست بات تک پہنچنے کی جستجو دیتے ہیں۔ مجھے تو خود علم نہیں تھا کہ جعلی زخموںکا میک اپ اتنی بڑی اور جدید انڈسٹری بن چکا ہے، یہ ساری انفارمیشن اس وقت ملی جب خانصاحب نے اپنے زخموں کی ویڈیو سوشل میڈیا پر پیش کی۔ پہلا تاثر تو یہی تھا کہ وہ سب جو کہتے تھے کہ خانصاحب کے زخم جعلی ہیں ان کے منہ بند ہوجائیں گے مگر ایک اور حقیقت کھلی کہ خانصاحب کی تباہیاں مچاتی اور کشتوں کے پشتے لگاتی سوشل میڈیا ٹیم کی صلاحیتوں کو بھی زنگ لگنے لگا ہے۔ وہ زخموں کے معاملے میں جارحیت سے دفاع پر اترتے ہوئے نظر آر ہے ہیں ، مجھے وہ اسی جگہ کھڑے نظر آ رہے ہیں جہاں کچھ عرصہ پہلے انہوں نے بیگم کلثوم نواز کی بیماری پر نواز لیگ کے سوشل میڈیا کو کھڑا کیا ہوا تھا،یہی معاملہ فنانشل ٹائمز کو انٹرویو کے بعد امریکی سازش اور ہم کوئی غلام ہیں کے بیانئیے کے ساتھ ہوا ہے کہ اس یوٹرن کا کوئی دفاع نہیں ، اگر کوئی ہے بھی تو بہت بودا، بہت فارغ۔
میںنے ویڈیو دیکھنے کے بعد بہت ہی معصومانہ سوال پوچھے جیسے زخموں کی گہرائی دیکھ کے میں سکتے میں آ گیا ، پوچھا،یہ کئی انچ گہرے زخم ہیں، جب خانصاحب کنٹینر سے اترے تو ان زخموں سے خون کیوں نہیں بہہ رہا تھا، سخت لفظوں کی معافی کہ انہیں تو خون سے لت پت ہونا چاہئے تھا مگر مجھے اس وقت کی ویڈیوز میںان کی شلوار وغیرہ پر ایسا کچھ نظر نہیں آیا۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ خون بہت بہہ رہا تھا اور ہمیں نظر نہیں آیا تو یہ کہاں کی عقل مندی تھی کہ انہیں وزیر آباد سے کم و بیش دوگھنٹوں کی ڈرائیوکر کے لاہور لایا گیا، یہ تو ان کی جان کو خطرے میں ڈالنے والی بات تھی ۔ اسی کاضمنی سوال اورنقصان یہ ہوا کہ قانونی ضرورت میڈیکو لیگل سے محروم ہو گئے، یہ ایک فوجداری مقدمے کا بڑا نقصان کیا گیا مگر کیوں کیا گیا اس کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل سکا۔ چوتھا سوال یہ ہے کہ اگر یہ گولیاں ہی لگی تھیں تو پہلے روز پریس کانفرنس میں فیصل سلطان نے گولیوں کی موجودگی سے انکار کیوں کیا اور انہیں محض کچھ ٹکڑے یا حصے لگنا کیوں کہا۔ پانچواں سوال ہے کہ یہ زخم ریسکیو والوں کو نظر کیوں نہیں آئے اور کیا یہ درست ہے کہ سچ بولنے والے ریسکیو اہلکار کو معطل کر کے انتقامی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔چھٹا سوال ہے کہ دو ہفتوں سے زائد گزرنے کے باوجود زخموں کا منہ اتنا کھلا ہوا کیوں ہے، ٹانکے کیوں نہیں لگے،کیا ٹریٹمنٹ بالکل نہیں ہوئی یا یہ ویڈیو ہی پرانی ہے۔ساتواں سوا ل یہ ہے کہ خود خانصاحب نے جو ایکسرے دکھایا تھا وہ پنڈلی اور پاوں کا تھا مگر ا س کے بعد یہ زخم اوپر کیسے پہنچ گئے۔ آٹھواں سوال ہے کہ کیا یہ درست بارود ہمیشہ سوزش پیدا کرتا ہے، وہ متاثرہ سکن کو کالا کرتا ہے، جلا دیتا ہے مگر یہاں ایسا کچھ بھی نہیں۔ نوواں سوال ہے کہ یہ اگر یہ گولیاں لگیں تو پھر کیا یہ جسم میں ہی رہ گئیں کیونکہ ہمیں دوسری طرف کا زخم نہیں نظرآتا سوکیا ان کو باہر نکالا اور پولیس کو دیا گیا تاکہ ان کو مال مقدمہ بنایا جا سکے۔ دسواں سوال ہے کہ ان تمام زخموں کے بارے میں ہر ڈاکٹر کا مشاہدہ ، رائے یا بیان مختلف کیوں ہے۔ گیارہواں سوال ہے کہ خون ہو یا دوائی وہ ہمیشہ زخم کے اوپر زیادہ ہوتی ہے اورپٹی پر کم، یہ حیرت انگیز تھا کہ پٹی پر ( دوائی یا خون) نظر آ رہا تھا مگر زخم پر نہیں تھا۔ بارہواں سوال ہے کہ پٹی اتارتے ہوئے کیمرہ کٹ کیوں کیا گیا۔ پروفیشنلز جانتے ہیں کہ ویڈیو کی کنٹی نیوٹی ہی اس کی اورجینلیٹی کو ممکن بناتی ہے اور جب کٹ لگ جائے تواس کے اندر بہت کچھ تبدیل ہوسکتا ہے۔
دیکھئے میں اس سوال کا اخلاقی پابند ہوں کہ ہم کسی سیاستدان کی بیماری کو سچ ماننے کے لئے اس کے مرنے کاانتظار کیوں کرتے ہیں، حوالہ بیگم کلثوم نواز کی بیماری اوروفات کا دیا جاتا ہے۔یہ درست ہے کہ خانصاحب پر حملہ ہوا اور میں نے پوری نیک نیتی سے ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی اور ایک دوکے تسلی بخش جواب بھی ملے۔ جیسے یہ کہ ان زخموں کو ٹانکے لگائے بغیر کھلا کیوں چھوڑ اگیا تو جواب تھا کہ گہرے زخم پر فوری طور پر ٹانکے نہیں لگائے جا سکتے کہ اگر ٹانکے لگ جائیں تو زخم کی صفائی ممکن نہیں ہوگی لہذا ٹانکے نہ لگانے کا اعتراض غلط ہے۔ زخم کے کالے نہ ہونے کا جواب یہ ہے کہ اگر زخم کی مناسب دیکھ بھال کی جا رہی ہو تو وہ صاف ہی نظر آئے گا اور ظاہر ہے کہ خانصاحب کے زخموں کی بہترین سے بھی بہتر دیکھ بھال ہو رہی ہے۔ جہاں تک یہ اعتراض ہے کہ سوال ہی نہ کیا جائے تو یہ مناسب نہیں ہے۔ ہم صحافیوں کاکام ہی سوال کرنا ہے اوراگر وہ سوال نہیں کریں گے تو کون کرے گا اور وہ خود کیا کریں گے۔ خانصاحب اس سے ناراض ہوتے ہیں تو ہوتے رہیں، مجھ سے سوال کرنے پر ہی آج سے بارہ چودہ برس پہلے نواز شریف ناراض ہوئے تھے اور آج تک ہیں، مجھے کیا فرق پڑا، ہاں، پی ٹی آئی کے دوستوں سے گزارش ہے کہ اگر باقی سوالوں کے جواب موجود ہیں تو ضرور دئیے جائیں اس سے ہم جیسے لوگوں کو اطمینان ہو گا جو حمایت یا مخالفت میں نہیں، حقائق کی بنیاد پر رائے بنانا چاہتے ہیں جیسے بیگم کلثوم نواز کے بارے نواز لیگ اور شریف فیملی کی طرف سے مصدقہ رپورٹس شئیر کی گئیں مگر خانصاحب کے کیس میں ہر کسی کی سنائی ہوئی اپنی کہانی ہے۔
سوال کرنا اور جواب مانگنا صحافتی اور پیشہ وارانہ نکتہ نظر سے اپنی جگہ اہم ہیں اور میرے لئے یہ بھی اہم ہے کہ میں خانصاحب کی جلد صحت یابی کے لئے دعا کروں۔ زخم تھوڑے ہیں یا زیادہ ہیں مگر کیا ہم اس سے انکار کر سکتے ہیں کہ فائرنگ ہوئی ہے، اس میں متعدد لوگ زخمی اور ایک شخص کی موت بھی ہوئی ہے۔ اب یہ کام تحقیقاتی اداروں کا ہے کہ وہ حقائق تک پہنچیں۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ موقعے سے پکڑے جانے والا ملزم نوید اگر کسی بھی سیاسی جماعت یا رہنما کا ایجنٹ ہے تواس کے ایک ہفتے سے ایک ماہ تک کے ہی فون کال ڈیٹا سے رابطوں کے ثبوت نکالے جا سکتے ہیں اور اب جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ایسے سراغ ڈھونڈنا اورپس پردہ ملزموں تک پہنچنا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ میں خانصاحب کی جلد ریکوری کے ساتھ ساتھ معاملے کے حقائق تک پہنچنے کا خواہش مند بھی ہوں اور دعا گو بھی۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.