فرلانگ مارچ،تعیناتی،مارشل لا

29

اسلام آباد کا موسم سرد لیکن سیاست کا موسم انتہائی گرم، گرما گرم خبریں، دہلا دینے والی افواہیں، جھوٹے ویلاگ، ہوائی تبصرے، پاکستان کی سیاست بھی کرکٹ ورلڈ کپ کی نشیب و فراز کے بعد سیمی فائنل اور فائنل راؤنڈ میں پہنچ گئی ہے۔ ٹاس لندن میں ہوا۔ فائنل نومبر کے تیسرے یا آخری ہفتہ میں کھیلے جانے کا امکان ہے۔ میچ ریفری نے اپنا فیصلہ دے دیا۔ تھرڈ امپائر کا انتظار ہے۔ نومبر میں بہت کچھ ہو رہا ہے۔ بہت کچھ ہونے والا ہے۔ غالب کی روح سے معذرت، ”ایک اعلان پہ موقوف ہے گھر کی رونق، نوحہ غم ہی سہی نغمہ شادی نہ سہی۔“ وہی اعلان نہیں ہو رہا۔ تعیناتی کے اس اعلان نے پورے ملک کو شش و پنج میں مبتلا کر رکھا ہے۔ جن لوگوں کو سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں وہ بھی ہیجان کا شکار ہیں۔ سیانے اسی کو عدم استحکام کہتے ہیں۔ کپتان، وفاقی، پنجاب حکومت اور مقتدر حلقوں میں کھچڑی پک رہی ہے۔ اصل مسئلہ تعیناتی کا ہے جو 29 نومبر سے پہلے ہونی ہے۔ اصولاً یہ روٹین کا معاملہ ہے لیکن اس تعیناتی کو رکوانے اور اپنی مرضی کی تعیناتی کرانے کے لیے ”خطرناک کپتان“ خطرناک حدیں بھی کراس کر رہے ہیں۔ وزیر آباد میں فائرنگ کے واقعہ کے بعد اوپر تلے کئی واقعات رونما ہو گئے کپتان اور وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کے مابین ایف آئی آر کے مسئلہ پر وسیع خلیج حائل ہو گئی کپتان کا اصرار کہ میری مرضی کی ایف آئی آر درج کرائی جائے جس میں وزیر اعظم وزیر داخلہ اور مقتدر حلقہ کے اعلیٰ افسر کو بطور ملزم نامزد کیا جائے۔ پرویز الٰہی یہ بات کیسے مان لیں چنانچہ صاف انکار، میرا صوبہ میری مرضی، پہلے دو کا مسئلہ نہیں تیسرے کے نام پر پر جلتے ہیں۔ دن میں 4 گھنٹے تک دو ملاقاتیں ایک دوسرے کو قائل نہ کرسکے۔ مبینہ طور پر کپتان نے کہا اسمبلی تحلیل کر دو، پرویز الٰہی نے کہا استعفیٰ دے دوں گا اسمبلی تحلیل نہیں کروںگا ملاقاتیں بے نتیجہ۔ چار دن بعد سپریم کورٹ کے حکم پر آئی جی نے ایک پولیس اہلکار کی مدعیت میں ایف آئی آر درج کرائی جس میں زیر حراست ملزم نوید بشیر کو نامزد کیا گیا۔ پرویز الٰہی برسوں کے تعلقات کیسے ختم کر دیں کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے کپتان اس قدر غضب ناک ہوئے کہ وزیر اعلیٰ کا فون سننے سے انکار کر دیا۔ دیکھنے سننے والوں نے کہنا شروع کیا کہ وزیر اعلیٰ کے دن گنے جا چکے وہی حکومت ہے جس کے لیے دن گنے جاتے تھے۔ اللہ اللہ کر کے عدالتی حکم کے بعد حکومت بنی تھی سیانے کہتے ہیں کہ کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہو گیا۔ ہفتہ دس دن میں آر یا پار ہو جائے گا کپتان کو ہزیمت اٹھانا پڑی۔ ٹانگ پر پلاسٹر چڑھا کر گھر بیٹھ گئے لانگ مارچ کال آف کر دیا گیا لیکن ایک کال کے بعد ہی لانگ مارچ چل پڑا اس موقع پر کپتان کا دھواں دھار خطاب، کہا مجھے چار گولیاں لگیں انگریزی میں دو، ڈاکٹر کے مطابق گولی کے ٹکڑوں نے ٹانگ زخمی کی۔ اہلکار کا کہنا تھا گولی اوپر سے چلی نیچے کی گولی ٹانگ میں کیسے لگی۔ اسی دوران سی این این کی نمائندہ خاتون انٹرویو کے لیے آ گئیں۔ امریکی سائفر کی ایسی تیسی اپنے بندے کی خبر گیری ضروری ہے۔ خاتون نے پوچھا جن تین افراد پر آپ نے الزام لگایا ان کے خلاف کوئی ثبوت، جواب آیا۔ شہباز شریف کرپٹ پس منظر بتاتا ہوں۔ خاتون نے کہا پس منظر معلوم ہے ثبوت دیجئے، جواب میں آئیں بائیں شائیں۔ سوال گندم جواب جو، 6 منٹ کے انٹرویو میں کوئی ثبوت پیش نہ کیا جا سکا۔ فدائین تو بغیر ثبوت کے سچ جھوٹ پر یقین کر لیتے ہیں۔ ”اس کی محفل میں وہی سچ ہے وہ جو کچھ بھی کہے لوگ گونگوں کی طرح ہاتھ اٹھا دیتے ہیں۔“ ثبوت ندارد مگر ملزمان تین سے چار ہو گئے اپنی ٹوئٹ میں کپتان نے مقتدر ادارے کے ایک افسر کو مانیٹرنگ روم میں پانچ گھنٹے بیٹھے رہنے اور پلان پر عملدرآمد کی مانیٹرنگ کرنے کا الزام عائد کر دیا گھر پر کال ملنے کے بعد لانگ مارچ بحال، کپتان کے بغیر
لانگ مارچ کو تجزیہ کاروں نے سر کٹا لانگ مارچ قرار دے دیا کسی نے کہا سانس لے لے کر چلنے والا فرلانگ مارچ ”منزل ہے کہاں تیری اے لالہ صحرائی“ منزل اس بار اسلام آباد نہیں پنڈی ہے۔ اسلام آباد والے بڑے کٹھور ہیں۔ ٹس سے مس نہیں ہو رہے پیغام نہ رابطہ کپتان کے اصل غم کا کسی کو احساس ہی نہیں انتخابات بھی ستمبر اکتوبر سے پہلے کرانے پر رضا مند نہیں، شرافت سے سمجھایا تھا مارچ میں کرا دو تاکہ ہم اپریل میں آرمی چیف تعینات کر سکیں۔ بیش بہا خدمات اور سہولت کاری کا کچھ صلہ تو ہونا چاہیے۔ ظالم حکمرانوں نے بات نہیں مانی۔ اس لیے اب پنڈی جا کر در دولت پر حاضری دیں گے۔ زنجیر عدل ہلائیں گے۔ فرلانگ مارچ منزل مقصود کی طرف رواں دواں ہے لیکن کپتان کے معاملات بظاہر حل ہوتے نظر نہیں آتے مرضی کی تعیناتی کی آرزو دم توڑنے لگی ہے۔ ”منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید، نا امیدی اس کی دیکھنا چاہیے“ بد قسمتی کپتان پارلیمنٹ کا رخ کرنے اور ووٹ کے ذریعہ اقتدار میں آنے کے بجائے غیر منتخب اداروں کے پاؤں پڑ رہے ہیں جو اے پولیٹیکل یا غیرجانبدار ہو چکے ہیں۔

کپتان ڈبل ٹریک پر چل رہے ہیں، رات دن ہرکاروں کے ذریعہ مذاکرات میں منت سماجت، ادھر سے کورا جواب اس پر بلیک میلنگ اور آنکھیں دکھانے کی پالیسی، جس اعلیٰ افسر پر فائرنگ کا الزام لگایا اس سے میجر (ر) خرم حمید روکھڑی کے بقول تین بار مذاکرات کی کوشش کی ایک دور میں سلمان احمد بھی شریک ہوئے۔ ریٹائرڈ میجر نے کہا ہم مذاکرات کرتے ادھر کپتان اسی افسر کے خلاف تقریر کر دیتے اور معاملات خراب کر دیتے۔ عجیب شخصیت ہیں ان کے جھوٹ کے بھی پاؤں ہیں اتنے یقین اور تواتر سے جھوٹ بولتے ہیں کہ نوجوان اس پر یقین کر لیتے ہیں۔ جان ایلیا نے کہا تھا۔ ”میں بھی بڑا عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس، خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں۔“ شعر کے مصرعہ ثانی میں ذرا سی ترمیم کر کے دیکھئے شخصیت واضح ہو جائے گی۔ ”خود کو“ کے بجائے ملک لگا دیں اور پڑھیں ملک تباہ کر دیا اور ملال بھی نہیں“ خوش قسمت تھے شہر پناہ میں داخل ہوتے ہی گود لے لیے گئے۔ کھلایا، پلایا لڑایا اور چاروں کھونٹ مایوس ہو کر چھوڑ دیا۔ کپتان کو یہی غم کھائے جاتا ہے مجھے کیوں چھوڑا وزارت عظمیٰ گئی۔ نا اہل قرار پائے۔ ”اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی“ غور کیجئے نواز شریف اس اصول پر کاربند رہے کہ اسٹیبلشمنٹ آئین کے مطابق اپنے فرائض انجام دے۔ سیاست سے دور غیر جانبدار رہے لیکن عمران خان روز اول سے اس بات پر مصر ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار کیسے ہو گئی۔ مجھے اپنا لے اور دوبارہ اقتدار دلا دے اللہ آپ کا بھلا کرے گا بندہ آپ اور آپ کی آل اولاد کو دعائیں دے گا۔ کون سا نیا کارڈ کھیلنے پنڈی آ رہے ہیں۔ خطرناک کارڈ ہے۔ اوپر تلے تین چار خبروں نے حوصلے پست کر دیے ہیں توشہ خانہ نا اہلی، عدالت نے بھی نظریں پھیر لیں ریلیف نہیں مل سکا توہین عدالت کیس پر پیشرفت، حوصلہ افزا نہیں گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ گرفتاری کا بھی خدشہ ہے۔ ہنگاموں کی کال بھی بے سود ثابت ہوئی۔ پچاس سے زیادہ لوگ سڑکوں پر نہیں آئے راستے بند کرنے پر شہریوں نے اتنی بد دعائیں دیں کہ راستے کھولنا پڑے بیرک نمبر 9 تیار کر لی گئی ہے۔ پانچ بڑے لیڈروں کے وارنٹ بھی حاصل کر لیے گئے اشارہ ملتے ہی پکڑے جائیں گے اوچھے ہتھکنڈے کام نہیں آ رہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعہ مارشل لا کی خبریں چلائی گئیں کسی نے کہا بوٹوں کی چاپ سنائی دے رہی ہے ٹینک سڑکوں پر آ گئے۔ پھر کہا گیا ایمرجنسی نافذ کی جا رہی ہے آئین معطل ہو جائے گا۔ پی سی او اور ایل ایف او کے تحت جج حلف اٹھائیں گے نہ اٹھانے والے فارغ ہوں گے۔ ایک پاگل نے حکومت میں شامل بڑی پارٹی کے سربراہ اور سابق صدر کے انتقال کی خبر چلا دی۔ دوسرے پاگل نے مارشل لا لگوا دیا لکھا کہ وزیر اعظم آفس بند اہم شخصیت گرفتار، تیسرے مخبوط الحواس نے اپنی مرضی کے آرمی چیف کی تعیناتی کرا دی۔ ایک اور بد حواس نے 6 ماہ کی توسیع کی خبر دی۔ بے بنیاد خبروں کا مقصد عوام کو گمراہ کرنا اور سرپرستوں کو خوش کرنے کے سوا کچھ نہ تھا۔ اصل صورتحال کیا ہے صحافیوں نے اسلام آباد میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں ان کے مطابق ایسا کچھ نہیں۔ اہم فیصلے بلاشبہ نومبر میں ہی ہونے ہیں کچھ ہو چکے کچھ ہونے جا رہے ہیں۔ میرٹ پر آرمی چیف کا تقرر کر دیا جائے گا جنرل قمر جاوید باجوہ مختلف شہروں کے گیریژنز کے دورے کر کے الوداعی ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے بارہا واضح کیا کہ وہ 29 نومبر کو ریٹائر ہو جائیں گے اس کے ساتھ ہی غالباً 25 نومبر تک نئے آرمی چیف کو جنرل کے عہدے پر فائز کر دیا جائے گا۔ میرٹ پر لیفٹیننٹ جنرل آصف منیر جنرل باجوہ کے بعد فہرست میں پہلے نمبر پر ہیں راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے لیفٹننٹ جنرل حافظ قرآن ہیں انہوں نے کرنل کے عہدے پر پروموشن کے بعد قرآن حفظ کیا ان کے والد تدریس کے پیشے سے منسلک ہیں جبکہ وہ خود اپنے پیشے سے مخلص محب وطن اور ہر محاذ پر سرخرو ہونے والے اعلیٰ فوجی عہدیدار ہیں۔ خبروں کے مطابق کپتان کرپشن کی نشاندہی پر ان کے مخالف ہو گئے تھے اور انہیں آرمی چیف سے کہہ کر ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے ہٹوا دیا تھا۔ کپتان کا پلان کیا ہے؟ سر کٹا فرلانگ مارچ آئندہ دس پندرہ روز میں پنڈی پہنچے گا۔ اس موقع پر ہنگامہ آرائی یا دھرنے سے سیاسی فضا اتنی گرم کر دی جائے گی جس سے مارشل لا یا ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان ہو جائے پورے پلان کا مقصد بد امنی اور انتشار پھیلانا ہے۔ امکانات کی نشاندہی بروقت کر دی گئی جس پر گزشتہ ہفتہ کور کمانڈرز کانفرنس میں تین اہم فیصلے کر لیے گئے 9 گھنٹے جاری رہنے والی کانفرنس کا اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا تاہم پیغامات پہنچا دیے گئے جس سے لانگ مارچ کرنے اور راستے بند کرنے والوں میں مایوسی پھیلی۔ فیصلوں میں کہا گیا کہ آرمی چیف توسیع نہیں لیں گے۔ مارشل لا کا کوئی امکان نہیں۔ غیر آئینی اقدامات کرنے والوں سے سختی کے ساتھ نمٹا جائے گا۔ کانفرنس سے افواہوں کا خاتمہ ہو گیا۔ وزیراعظم کے کہنے پر وزارت دفاع آئندہ آرمی چیف کے لیے سنیارٹی لسٹ کی سمری بھیجے گی۔ جس پر وزیر اعظم اپنی صوابدید کے مطابق کسی ایک جنرل کا فیصلہ کر دیں گے۔ اعلان آئندہ ایک ہفتہ یا پھر 24,25 نومبر کو کیا جائے گا۔ کپتان صرف اپنے دل کی بھڑاس نکالیں گے اور نئے آنے والے محب وطن جنرل کو متنازع بنانے کی کوشش کریں گے جو انتہائی افسوسناک روایت ہو گی۔ شنید ہے کہ شاید صدر مملکت کو فائل پر دستخط نہ کرنے کی ہدایت حکم یا مشورہ دیا جائے لیکن صدر ایسا نہیں کریں گے لوگ سوال کرتے ہیں کہ کپتان اداروں پر تنقید اور اعلیٰ افسران کے نام لے کر الزامات عائد کرنے کے باوجود آزاد کیوں گھوم رہے ہیں۔ تجزیہ کار بڑے وثوق سے کہتے ہیں کہ ابھی کچھ ہینڈلرز اور سہولت کار موجود ہیں جن کی حمایت انہیں حاصل ہے۔ تاہم پاکستان کے 23 کروڑ عوام کو یقین ہے کہ پاکستان کو ان شاءاللہ کچھ نہیں ہوا۔ 1971ءمیں ملک کے دو ٹکڑے کرنے کی سازش کرنے والوں کا انجام اچھا نہیں ہوا۔ تین ٹکڑے کرنے والے بھی عبرت ناک انجام سے دوچار ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی میوزیم میں 2014ءکے بعد رکھا جانے والا مومی مجسمہ اسٹیبلشمنٹ کی توجہ ہٹنے کے بعد تیزی سے پگھل رہا ہے۔ 70 سالہ ناتجربہ کار لاڈلہ بچہ کھیلنے کے لیے چاند نہیں پاکستان مانگ رہا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کپتان نے تقریروں میں بھی وقت ضائع کر دیا اس عرصہ میں فیصلے ہو چکے سب کچھ فائنل ہو چکا ہنگامہ آرائی کی صورت میں انہیں شہریوں کی بددعاو¿ں کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ بادی النظر میں سب کچھ پُر امن طریقہ سے ہونے جا رہا ہے۔ اس کے باوجود بعض حلقے انجانے خطرات کا اظہار کر رہے ہیں۔ مارشل لا، ایمرجنسی یا 2 اکتوبر 1999 کے واقعات کے ری پلے کے امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں اللہ اپنا کرم کرے۔

تبصرے بند ہیں.