کینیڈین اور ہمارا معاشرہ

37

کینیڈا کا شمار انتہائی ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں نہائت نمایاں ہے،اس مملکت کی ترقی،خوشحالی،مذہبی رواداری،سماجی انصاف، معاشرتی مساوات،امن اور جمہوریت کوئی خفیہ راز نہیں،بچہ بچہ جانتا ہے کہ آئین کی بالادستی،قانون کی حکمرانی،اچھی حکومت،مستحکم سیاسی نظام اور جمہوری روایات پر کاربند رہ کریہاں کے باشندوں نے یہ ارفع مقام حاصل کیا،حد درجہ دلچسپ حقیقت کہ کینیڈا میں شرح خواندگی سو فیصد ہے اور خواندگی کا معیار محض نصابی کتب کا رٹا نہیں بلکہ ذہنی بالیدگی،شعور کی پختگی اور اخلاق کی پاسداری ہے،جس کی بنا پر تعلیم یہاں کے شہریوں کو نکھارتی اور سنوارتی ہے،اصول و اقدار کو کینیڈین معاشرے میں اہمیت حاصل ہے،جس کی وجہ سے کینیڈین معاشرہ مختلف رنگ، نسل،مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ایک لڑی میں پرو دیتا ہے،روزگار کی فراوانی کے باعث معیار زندگی کی شرح بھی بہت بلند ہے،بیشتر شہریوں کی ماہانہ آمدن ہمارے لاکھوں روپے سے بھی زیادہ ہے،حکومت کی طرف سے شہریوں کو ایک سے بڑھ کر ایک سہولت فراہم کی جاتی ہے،خاص طور پر صحت و تعلیم کی سہولیات انتہائی اعلیٰ پائے کی ہیں اور ہر شہری کیلئے ہیں،دور جدید کی ترقی یافتہ اس ریاست میں جمہوریت کو حد درجہ اہمیت حاصل ہے،انسانی حقوق کا صرف احترام ہی نہیں بلکہ آخری حد تک جا کر فراہمی یقینی بنائی جاتی ہے،اہم ترین بات یہ کہ انصاف عام ہے اور فوری ملتا ہے اور بلا امتیاز،شہری بھی قانون کا احترام کرتے اور پابندی کا خاص خیال رکھتے ہیں،الغرض کینیڈا ایک مثالی ریاست ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر سے ترک وطن کرنے والوں کا خواب کینیڈا میں مستقل سکونت حاصل کرنا ہے۔
مملکت خداداد میں بھی جمہوریت کی واہ واہ ہو رہی ہے مگر ہمارے جمہوری رہنماؤں کی سوچ،طرز عمل بد ترین آمریت کی عملی تصویر ہے،طبقاتی نظام کی جڑیں اس قدر مضبوط ہیں کہ اکھاڑنے کیلئے بہت زیادہ توانائی،مالی وسائل اور منصفانہ مگر طویل جدو جہد کرنا ہو گی،ہم آج پون صدی بعد بھی 22کروڑ انسانوں کا جم غفیر ہیں ایک قوم نہیں بن سکے،کہیں یہ تقسیم زبان کی بنیاد پر ہے کہیں صوبے،کوئی مذہب و مسلک کے نام پر اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر بیٹھا ہے،پارٹی کی بنیاد پر تقسیم بھی بہت زیادہ ہے،ذات برادری بھی تقسیم کی روایت کو مضبوط کرتی ہیں،اس تقسیم در تقسیم کے باعث پاکستان کے طول و ارض میں مقیم افراد پاکستانی نہ بن سکے،سچ یہ ہے کہ اکثریت خالص مسلمان بھی نہ بن سکی اور فرقوں میں بٹ کر وحدت ملی کھو بیٹھے،کینیڈین معاشرے پر ایک نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے،اس سر زمین پر ہر رنگ،مذہب،خطے کے لوگ آباد ہیں مگر کبھی ان میں نظریات اور مسلک کی بنیاد پر جنگ و جدل اور مار کٹائی نہیں ہوئی،سب ایک دوجے کے مذہبی،سیاسی نظریات کا احترام کرتے ہیں،اسی لئے یہاںتقسیم نہیں ہے۔
ہمارے ہاں سیاست اور جمہوریت کو اقتدار کی سیڑھی بنا لیا گیا ہے،کسی سیاسی حکومت نے اقتدار ملنے کے بعد خود کو جمہوریت پسند بنایا نہ جمہوری روئیے اور اقدار اپنائیں،یہی وجہ ہے کہ جب حکومت سازی کا وقت آتا ہے تو ماضی کے دشمن دوست بن جاتے ہیں،یہ روایت اگر چہ دیرینہ ہے مگر1970کے الیکشن کے بعد یہ روایت انتہائی مستحکم ہو گئی،ولی خان کی جماعت سیکولر نظریات کی حامل اور روس نواز تھی،جبکہ مفتی محمود کی جمیعت العلماءاسلام اسلام پسند تھی دونوں نے خم ٹھونک کر ایک دوسرے کیخلاف الیکشن لڑا مگر جب صوبہ سرحد(آج کا کے پی) اور بلوچستان میں حکومت بنانے کا وقت آیا تو دونوں شیر و شکر ہو گئے،الیکشن سے قبل جے یو آئی کے سو سے زائد مفتی صاحبان نے بھٹو کے سوشلزم ہماری معیشت کے حق میں فتویٰ دیا،مگر بھٹو کے خلاف الیکشن بھی لڑا اور تحریک کا بھی حصہ رہی،حالیہ دور میں 30سال سے زائد عرصہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ ایک دوسرے کی مخالفت کی بنیاد پر سیاست چمکاتے اور باری باری اقتدار میں آتے رہے مگر عمران خان کے مقابلے میں دونوں یکجان ہو گئے،اس طرز عمل کی وجہ سے یہاں جمہوریت کی بنیاد مضبوط نہیں ہو پائی۔
قانون کی حکمرانی کے حوالے سے ہماری حالت پسماندہ افریقی ممالک سے بھی پتلی ہے،یہاں قانون اگر چہ ایک ہی ہے مگر جب آئین کی تشریح کا ٹائم آتا ہے تو امیر کیلئے الگ اور غریب کیلئے الگ تشریح اور عمل درآمد کیا جاتا ہے،جمہوریت بھی صاحب اثرو رسوخ کیلئے الگ اور عا م شہری کیلئے الگ اقدار رکھتی ہے،انسانی حقوق کے معاملہ میں بھی اقوام عالم میں ہم گراف کی نچلی ترین سطح پر ہیں،دوسری جانب کینیڈا میں جمہوریت کی بنیادیں اتنی مضبوط اور جمہوریت نوازوں کی سوچ اس قدر شفاف ہے کہ اقتدار کے لالچ میں جمہوری اقدار کی دھجیاں نہیں اڑائی جا سکتیں،جہاں کچھ گڑ بڑ ہوئی رضا کارانہ سیاستدان اقتدار چھوڑ کر عوام کی عدالت سے رجوع کر تے ہیں،کینیڈا میں اچھی حکومت کے قیام کیلئے حکومت اور اپوزیشن ایک پیج پر رہتے ہیں،معاملہ قومی نوعیت کا ہو تو دونوں ایک میز پر بیٹھنے سے قطعی نہیں ہچکچاتے،اپوزیشن تنقید کرتی ہے،مخالفت بھی کی جاتی ہے مگر قومی اور عوامی مفاد میں حکومت کے ساتھ مل بیٹھنے کو عار نہیں سمجھتی،مگر ہمارے سیاستدان سیاسی اختلاف کو خاندانی دشمنی بنا لیتے ہیں،اپوزیشن کو اہمیت نہیں دی جاتی،قومی مفاد کو بھی پس پشت ڈال کر سیاسی پوائینٹ سکورنگ کی جاتی ہے،نتیجے میں حکومت عوامی خدمت کا فرض بھول کر اقتدار بچانے کی تگ و دو میں لگ جاتی ہے۔
کینیڈا کی فطری خوبصورتی اور قدرتی حسن بھی اپنی جگہ تحفہ ہے،کہیں برفیلے پہاڑوں کا طویل سلسلہ تو کہیں قدرتی جھیلوں،آبشاروں چشموں جھرنوں کی جلترنگ،کہیں دھوپ کہیں بادلوں کا جھرمٹ،کسی جگہ بارش اور کہیں سبزہ و گل کا حسن چکا چوند،اس سے زیادہ حسن انسانی معاشرہ میں دکھائی دیتا ہے،جلسے جلوس بھی ہوتے ہیں،مگر قانونی حدود میں رہتے ہوئے،کوئی انا کا مسئلہ بناتا ہے نہ ضد پکڑتا ہے،ہر کوئی پہلے قانون کا جائزہ لیتا ہے پھر کوئی اقدام کرتا ہے،کہ جرم کوئی بھی کرے اسے سزا مل کر رہتی ہے اور سماجی امن کی واحد وجہ بھی قانون کی پاسداری ، کھرا اور کڑا انصاف ہے جو فوری ملتا ہے سالوں عدالت کے دھکے نہیں کھانا پڑتے،رواداری کینیڈین معاشرے کا جزو لاینفک ہے،اور یہ کسی ایک شعبہ زندگی میں نہیں جو جہا ں ہے جس پیشے سے تعلق ہے وہاں رواداری کا دامن مضبوطی سے تھامے بیٹھا ہے،مزہبی احترام میں ایک دوسرے کے مقدس تہواروں میں شرکت کر کے بھائی چارے کا ثبوت دیا جاتا ہے،دکاندار سیل لگا دیتے ہیں تاکہ ہر شہری اس موقع پر خریداری کر سکے،حکومت بھی سہولیات دیتی ہے،تعلیمی اداروں میں استاد،ہسپتالوں میں ڈاکٹراور عملہ،سرکاری دفاتر میں افسر اور اہلکار،عدالتوں میں جج،وکیل اور عملہ،تھانوں میں پولیس غرض ہر شہری اپنی ڈیوٹی عبادت سمجھ کر انجام دیتا ہے اسی دیانت داری کے باعث کینیڈا جنت ارضی کا نمونہ پیش کرتا ہے،ہمیں ان کے تجربات سے کچھ سیکھنا ہو گا،ورنہ یونہی اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں گے، اپنے ہاتھ کچھ آئے گانہ عوام کو کچھ دے سکیں گے۔

تبصرے بند ہیں.