کرپشن کی دلدل سے نکلنا کیونکر ممکن ہے؟

110

افسوس صد افسوس!!! ہمارے معاشرے سے تیزی کے ساتھ بُرائی کی تمیز ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اپنی جائز و ناجائز اناؤں کی تسکین کی خاطر حرام خوری، رشوت ستانی اور کرپشن کی ایسی ایسی داستانیں رقم ہو رہی ہیں کہ فی امان اللہ!!! سر کاری ادارے ”بچڑ خانے“ بن چکے جہاں ہر کام کی فیس مقرر ہے۔ لوگوں کو اپنے جائز کاموں کے لئے بھی بھاری رشوت دینا پڑتی ہے۔ لوگوں کے ٹیکسوں پر پلنے والے یہ حرام خور ملازمین و افسران رشوت کے تیز دھار آلے لئے بیٹھے ہیں جہاں ہر آنے والے کی جیب پر چھری چلا دی جاتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اتنے بڑے گناہ جس کے بارے نبی کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں، کو ہم نے صرف کتابوں، پوسٹروں اور دفاتر کی عمارتوں کے مرکزی دوازے تک ہی محدود کر دیا ہے۔ صرف ایک ادارہ نہیں بلکہ ہر ادارے میں یہ ناسور بڑھتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف عام آدمی خوار ہو رہا ہے بلکہ اداروں کی تباہی و بر بادی بھی اس کی بنیادی وجہ ہے۔قارئین کرام! کرپشن کی اس دوڑ میں سیاست دان بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ مختلف کمپنیاں بنا کر اپنے رشتے داروں کو نوازنے کے لیے قوم کے کروڑوں روپے کرپشن کی نذر کر دئیے جاتے ہیں۔ ایسی ہی ایک کمپنی، لاہور پارکنگ کمپنی ہے جو دراصل سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کا ایک ذیلی ادادہ اور کمپنی آرڈیننس 1984کے
تحت ایس۔ای۔سی۔پی میں رجسٹرڈ ہے۔ سال 2012 میں اپنے آغاز سے ہی لاہور پارکنگ کمپنی کرپشن اور دوسرے الزامات کی زد میں آ گئی۔ کئی بار کمپنی میں ہونے والی کرپشن پر کچھ ایماندار لوگوں نے کمپنی کی ساکھ بحال کر نے کی خاطر جامع لائحہ عمل بھی تشکیل دیا اور اس کا باقاعدہ آغاز بھی کیا۔ ایک کامیاب اینٹی کرپشن مہم چلائی گئی اور ٹھوس شواہد کی بنا پر 200 اہلکاروں کو برخاست بھی کیا گیا۔ ان ملازمین میں ورکرز، سپروائزر، انسپکٹر، اسسٹنٹ منیجر عہدے کے اہلکار شامل تھے۔ لیکن کمپنی میں موجود ملازمین کی صورت کالی بھیڑیں ایسی تھیں جو پھر سے کرپشن میں ملوث ہو جاتیں اور یوں کرپشن کے خلاف ہونے والی ساری کی ساری کاوشیں رائیگاں ٹھہرتیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کمپنی کو 2012 سے لیکر اب تک کروڑوں روپے کا ٹیکہ لگایا گیا ہے اور یہ کمپنی کو نہیں بلکہ اس ملک کے ان غریبوں کو ٹیکہ لگایا جاتا ہے جو نہانے والے صابن پر بھی ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ ستمبر میں نئی انتظامیہ کے ذمہ داری سنبھالنے کے بعد برسوں سے کرپشن زدہ ادارے میں وہ انقلابی تبدیلیاں آئی ہیں جنہیں دیکھ کر اور سن کر دل خوش ہوا اور اس بات پر یقین مزید پختہ ہو گیا کہ ابھی ایسے لوگ موجود ہیں جو نیک نیتی اور ایمانداری کے ساتھ کام کر سکتے ہیں۔ کمپنی کی 241 سائٹس میں سے 221 آپریشنل ہیں لیکن یہاں روزانہ کتنا ریونیو جمع ہوتا تھا، کسی کو کچھ علم نہیں۔ موجودہ چیئرمین نے سب سے پہلے اس ریونیو کو ریکارڈ کا حصہ بنا نے کے لیے نظام وضع کیا کہ ہر ورکر صبح 11بجے سے پہلے گذشتہ دن کی ریکوری بنک جمع اور اس کی رسید ہیڈ آفس میں بھیجے گا۔ اس چھوٹے سے کام کی وجہ سے روزانہ کی آمدن چار لاکھ بیالیس ہزار سے دوگنا ہو کر آٹھ لاکھ بیالیس ہزار روپے تک جا پہنچی ہے۔ کرپشن زدہ اکاؤنٹس سسٹم کو ڈیجیٹلائزڈ کیا جا رہا ہے۔ کمپنی کی 75سائٹس سے قبضہ واگزار کرایا جا رہا ہے اور کرپشن کی کمائی سے کرائے کے مکان سے ڈیفنس کی کوٹھیوں میں رہنے والے ان تین انسپکٹرز کو فارغ جبکہ ان کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز بھی کیا جا رہا ہے۔ لاہور پارکنگ کمپنی بہت جلد لاہور کے چھ مختلف مقامات پر ماڈل سائٹس بنانے جا رہی ہے جہاں عملہ خوش اخلاق، صاف ستھری وردی میں لوگوں کی خدمت کے لیے موجود ہو گا۔ قانون کے مطابق لاہور کے تمام سر کاری ہسپتالوں، پلازوں، پی ایچ اے کی سائٹس بشمول تمام پارکوں، کارپوریشن کے پارکنگ سٹینڈز، لاہور پارکنگ کمپنی کی ملکیت ہیں۔ پچھلے کئی سال سے حرام خوری، کرپشن اور رشوت ستانی کی لعنت کی وجہ سے شہریوں کو پریشان کیا جا رہا تھا۔ بہرحال کہا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی ایماندار اور محنتی افسر کسی بھی ادارے کی ذمہ داریاں سنبھال لے تو اس کے حالات تیزی سے بہتری کی جانب گامزن ہو سکتے ہیں، لاہور پارکنگ کمپنی اس کی ایک مثال ہے۔

تبصرے بند ہیں.