خواجہ فرید یونیورسٹی کا دوسرا کانووکیشن

9

ہم سے پہلے کی نسل کا تجربہ شاید کچھ مختلف ہو لیکن ہم نے تو جب سے ہوش سنبھالا ہے ملکی کی سیاست کو نازک موڑ سے ہی گزرتے ہوئے پایا ہے۔ یہ موڑ کتنا طویل ہے اور اس کا اختتام کب تک ممکن ہے اس کے بارے میں کسی بھی قسم کا اندازہ لگانا انتہائی مشکل ہے۔
سیاسی جماعتوں میں مخالفت لڑائی جھگڑا، گالی گلوچ اور الزام تراشی تو شائد کچھ عجیب بات نہ ہوگی لیکن آمریت کے ادوار میں ہم نے ڈکٹیٹروں کو تنقید کا نشانہ بنتے بھی دیکھا گیااور ڈھکے چھپے انداز میں گالیاں پڑتے بھی دیکھا۔ یہ سب کچھ ہوا لیکن اس کی ایک حد ضرور تھی اور ہونی بھی چاہیے۔ افسوس کی بات ہے کہ گزشتہ چند برس میں سیاسی اور نظریاتی اختلاف میں عدم برداشت کا جو لیول دیکھنے میں آیا ہے اس نے نئے ریکارڈ بنائے ہیں۔ شائدیہی وجہ ہے کہ حقیقی تجزیہ کار اسے ملکی سالمیت کے لیے خطرہ قرار دینے پر مجبور ہیں۔
حکومتوں کا تبدیل ہو جانا کوئی ایسی بڑی بات نہیں۔ خاص طور پر پارلیمانی جمہوریت میں تو یہ ایک روٹین کی بات ہے۔ ہمارے ہاں بھی ووٹ کے ذریعے بھی لوگ اقتدار میں آئے اور گئے، آمرانہ فیصلوں کے نتیجوں میں بھی حکومتیں بدلیں اور عدالتی فیصلے بھی حکومتیں بنانے اور گرانے میں کردار ادا کرتے رہے لیکن رواں برس ایک جمہوری انداز میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے جو حکومت بدلی گئی اور پھر اس کے رد عمل میں جو مزاحمت پیش کی گئی اور منفی اور نفرت انگیزرویوں کی آمیزش کر کے عوام کے جذبات سے کھیلا گیا اس کی مثال ماضی میں کہیں نہیں ملتی۔
پاکستان تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین اپنی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی یقینی کامیابی کو دیکھتے ہوئے اسے پہلے تو اسمبلی کے لیول پر ہی غیر جمہوری طریقوں سے ڈیل کرتے رہے (اس بات کی بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے تصدیق
کی)، پھر یہ بیانیہ لے آئے کہ تحریک عدم اعتماد تو کسی غیر ملکی سازش کا نتیجہ ہے۔ اس بیانیے کے بھی پٹ جانے کے بعد عمران خان صاحب نے الزام لگایا کہ ان کے قتل کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔
یہاں ایک بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک طرف تو، بقول عمران خان، صورتحال اس قدر گمبھیر تو دوسری طرف انہیں حالات میں کئی دنوں پر محیط ایک لمبے چوڑے احتجاج کی کا ل کیوں دے ڈالی گئی۔
اسی احتجاجی لانگ مارچ کے دوران وزیر آباد کے علاقہ میں عمران خان پر ایک حملہ ہو گیا جس کے نتیجہ میں ایک شخص جاں بحق ہو گیا اور درجن بھر لوگ زخمی ہوئے۔ اس واقعہ میں عمران خان صاحب بھی زخمی ہوئے اور ان کو مبینہ طور پر چار گولیاں لگیں۔ (گولیوں کی تعداد آج کے دن تک کنفرم نہیں، کوئی کہتا ہے چار گولیاں لگی ہیں، کوئی تین کہتا ہے تو کوئی تعددادو بتا تا ہے۔ عمران خان صاحب کے معالج فرماتے ہیں کہ گولیا ں لگی ہی نہیں، جو زخم ہیں وہ گولیوں کے ٹکڑوں کے ہیں۔ اب یہ گولیوں کے ٹکڑے کیا ہوتے ہیں یہ تو ڈاکٹر فیصل سلطان جانے یا اللہ جانے۔ ہم نے تو آج تک بم یا گرنیڈ وغیرہ کے ٹکڑے ہی سنے تھے۔ لیکن ٹیکنالوجی کا دور ہے جانے کس وقت کیا نئی چیز مارکیٹ میں آ جائے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا)۔
واضح رہے کہ تحریک عدم اعتماد کے کامیاب ہو جانے کے یقین کے بعد عمران خان صاحب نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اگر ان کو حکومت سے نکالا گیا تو وہ مزید خطرناک ہو جائیں گے۔ گویا کہ وہ پہلے سے ہی اپنے آپ کو خطرناک سمجھتے تھے۔
اپنی کہی ہوئی خطرناکی ثابت کرنے کے لیے عمران خان صاحب نے ایک طرف تو اپنے مخالفین پر الزام تراشی اور بہتان تراشی کی کوئی حد نہ چھوڑی تو دوسری طرف انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو بھی کھلا پیغام دے دیا کہ یا انہیں دوبارہ حکومت میں لا کر ماضی کی طر ح ہر قسم کی اندھا دھند سپورٹ فراہم کی جائے ورنہ وہ ان کو بھی الزامات کی زد میں لے لیں گے۔
عمران خان صاحب کی فکر مندی اور بے چینی اس لیے بھی بہت زیادہ تھی کیونکہ یہ بات ان کے اچھی طرح سے علم میں تھی کہ حکومت سے باہر رہنے کی صورت میں وہ ماہ نومبر میں ہونے والی اہم ترین تعیناتی میں اپنی من مرضی نہیں کر سکیں گے جو شائد ان کی مستقبل کی سیاست کے لیے اچھا خاصا نقصان دہ ہو (ویسے اس قسم کے خیال کا حقیقت سے دور دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں)۔
غرض عمران خان صاحب نے اپنی حکومت سے چھٹی اور اہم ترین فیصلوں سے فراغت کے معاملات پر پہلے تو اپنے سیاسی مخالفین پر چڑھائی کی اور پھر بڑھتے بڑھتے اسٹیبلشمنٹ کے اعلیٰ ترین افسروں تک آ گئے۔ حتیٰ کہ اپنے اوپر ہونے والے حملہ کے سلسلہ میں مقدمہ بھی حساس ادارے کے ایک اعلیٰ افسر کے خلاف درج کرانے پر بضد رہے۔
میں خود فوجی آمریت کے خلاف چلائی جانے والی دو تحریکوں کا حصہ رہا ہو ں اس لیے میں بالکل کلئیر ہوں کہ کسی مقصد کے حصول کے لیے تحریک چلانا اور ملکی سالمیت کو نقصان پہنچانے کے درپے ہوجا نا دو بالکل ہی مختلف باتیں ہیں۔ اس لیے میں یہ بات کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ عمران خان صاحب جس سے ڈھنگ سے عوام کو فوج کے خلاف بھڑکا نے کی کوشش کر رہے ہیں اس کے نتیجے کسی بھی صورت اچھے نہیں نکل سکتے۔
اوّل تو مجھے یقین ہے کہ خان صاحب کی اس قسم کی تحریک یکسر ناکامی کا شکار ہو گی لیکن اگر خاکم بدہن اگر ایک فیصد بھی کامیاب ہو گئی تو اسکے نتیجہ میں پیدا ہونے والی انارکی کسی کے بھی قابو سے باہر ہو گی۔
فوج ہمارا ایک محترم ادارہ ہے۔ اس میں اعلیٰ ترین سطح پر ہونے والی تعیناتی کو کسی بھی صورت متنازع نہیں بنایا جانا چاہیے۔ ماضی میں ہونے والی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اگر انہوں نے اپنے آپ کو سیاست سے علیحدہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو تمام سیاسی اور سماجی حلقوں پر لازم ہے کہ اس فیصلہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے ان کے ہاتھ مضبوط کیے جائیں۔

تبصرے بند ہیں.