برطانیہ میں بڑی دھوم دھام سے ہندو وزیراعظم آن بیٹھا۔ رشی سوناک، شاہِ برطانیہ سے بھی زیادہ امیر کبیر، جوان مرد ہے جس نے گیتا پر حلف لیا۔ یعنی ڈٹ کر باعمل ہندو ہے۔ قوم پرست ہندو ہونے کا ثبوت اس نے فوری مسلمانوں پر بیانات کی بوچھاڑ سے دیا مثلاً: ’برطانیہ کو مسلم انتہاپسندی سے خطرہ ہے۔‘ بلکہ وزارتِ عظمیٰ کی امیدواری کے دوران ہی اس نے وعدہ فرمایا تھا کہ وہ اسلامی انتہاپسندی کے خلاف ملک میں دھاوا بولے گا۔ ان تنظیموں کو اکھاڑ پھینکے گا جو برطانیہ میں انتہاپسندی پھیلاتی ہیں۔ وہ اس طریق کار پر دوبارہ عمل کرے گا جو اس سے نمٹنے کے لیے پہلے استعمال کیا گیا! ہندوتوا کا بلڈوزر لے کر چڑھ دوڑنے والا وزیراعظم بنا بھی دیا گیا۔ اس نفرت انگیز کلام (Hate Speech) سے عالمی رواداری، بین المذاہب ہم آہنگی، برداشت کے پرچارکوں کے ماتھے پر بل نہ آیا۔ مغرب میں کوئی بھی مسلمان ایسی تہس نہس کر دینے والی زبان کے ساتھ دفتر میں چپڑاسی بھی نہیں لگایا جاتا۔ بھلے وہ بھارت کے ہندو مذہبی جنون، اسرائیل کی مسلم کش سفاکانہ کارروائیوں کے لیے نرم تر الفاظ میں اظہار خیال کیوں نہ کرے۔ صادق خان کو لندن کا میئر بنتے ہوئے ماڈریٹ ہونے کا اظہار اور لندن کی سڑکوں پر اور پاکستان میں بڑھتے ہوئے نقابوں پر اظہارِ تشویش کرنا پڑا تھا! سوناک نے اسلام کو ڈٹ کر زہرناک نظریہ قرار دیا تو کسی نے اُف نہ کیا۔ یہ تو ایک ایکسرے ہے، مغرب کی دوغلی پالیسی اور اپنی مسلم آبادی سے امتیازی سلوک کا! وہ مسلم آبادی جس نے اپنی 3 نسلیں برطانیہ کی اخلاق باختہ فضاؤں میں جھونک کر ان کے لیے تعمیر وترقی میں خون پسینہ ایک کیا۔
دوسری طرف ہندوؤں کے دنیا پر چھا جانے کا راز بھی توجہ طلب ہے۔ جو ان کی بڑی آبادی میں مضمر ہے۔ متحدہ عرب امارات میں ہندوؤں کی بہت بڑی آبادی، بے پناہ اثر ورسوخ، مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک کا انہیں پلکوں پر بٹھانا، مراعات دینا، مسلم سرزمینوں پر مندر بناکر ان کی خوشنودی حاصل کرنا۔ ہندوستان کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور مساجد، اذان، نماز پر پابندی کا سرے سے نوٹس نہ لینا دیکھیے۔ امریکا میں سیاسی زندگی میں ہندوؤں کی بے پناہ آبادی دنیا پر چھا جانے میں اہم ترین معاشی، سیاسی اثاثہ ہے! ہم کل 22 کروڑ کو لعن طعن کرتے، اسے گھٹانے کے طریقے سوچتے نہیں تھکتے۔ عورت کو دفاتر، شاپنگ مالز میں جھنڈے گاڑنے پر لگا رکھا ہے۔ گھر گھرہستی، پیدائش وپرورشِ اولاد، تربیتِ اولاد سے یکسر بیگانہ کرنے پر، ترقی کے شوق میں تن من دھن لگے ہوئے ہیں۔ احساس کمتری، معذرت خواہی کے مارے، یقین، عزم وایمان سے محروم رہ کر کون سی ترقی ممکن ہے؟ جو ترقی ہے وہ صرف سوشل میڈیا، ٹک ٹاکی، سیاسی جلسوں میں گلے پھاڑنے، بازو لہرانے، کرکٹ میچوں کی رونق بڑھانے (چیئر گرلز…… تذلیلِ نسواں: مجمع لبھانے والا کردار!) تک محدود ہوکر رہ گئی۔
بھارت نے مذہبی جنون میں جو کچھ اپنی تاریخ میں اچھوتوں / دلتوں کے ساتھ روا رکھا وہ آج بھی جاری ہے۔ ایسا سلوک یہودیوں کے ساتھ ہوا تو وہ ایک طوفان بن کھڑے ہوئے اور دنیا کے اعصاب چٹخ گئے، ان کی چیخ وپکار پر اور تاوان بھرتے۔ آج عین یہی سب مسلمانوں کا مقدر ہے۔ بھارت اور کشمیر میں، فلسطین اور شام میں، برما اور شمالی افریقہ میں۔ دنیا منہ موڑے بیٹھی ہے۔ بالخصوص گیارہ برس سے بشار الاسد کی خون آشامی، امریکا، روس، ایران کی علی الترتیب ہمنوائی میں لہلاتے شام کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ اتنے وسیع وعریض سرسبز وشاداب ملک پر جو قیامت توڑی گئی اس میں
عورتیں بچے بوڑھے رلتے کسی کو نظر نہ آئے۔ شہر در شہر، قصبہ در قصبہ آبادیاں کھنڈرات اور قبرستانوں میں بدل دیں جسے ہلاکو بھی دیکھے تو رو دے۔ اجڑے شہر، بھوتوں کا مسکن۔ دنیا بھر میں بکھیر دیے گئے مہاجرت پر مجبور شامی۔ اِدلب میں بچے کھچے کل 40 لاکھ کے لگ بھگ اب سکڑسمیٹ کر جن میں سے 20 لاکھ جیسے تیسے خیمہ بستیوں میں ننھے بچے پال رہے ہیں جنہوں نے جنگوں، بمباریوں، دربدری اور خون کے سوا کچھ نہ دیکھا۔ اس پر بھی مغربی میڈیا اگر کسی داڑھی والے کو بچوں کو پڑھاتے دیکھ لے تو ’دہشت گردی کی تعلیم‘ کا عنوان جڑکر خبر شائع کرتا ہے۔ ہسپتالوں، عورتوں، بچوں کی ٹینٹ زدہ زندگی کی تمام سہولتوں سے محروم آبادی پر اسدی فوجوں، روس کی بمباری تو دہشت گردی نہیں ہے۔ 6 نومبر کو ادلب پر ایسے ہی ایک حملے میں 100 ٹینٹوں کو نشانہ بنایا گیا۔ پھول جیسے معصوم بچوں کی گڈے گڑیوں جیسی لاشیں جگر پاش ہیں مگر امتِ مسلمہ راکھ کا ڈھیر ہوئی پڑی ہے ضمیر اور ایمان کی سطح پر۔ شام پر دجال کے مقابل آن کھڑی ہونے والی حق کی عظیم قوتوں، سیدنا مہدی اور پھر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا خوف کفر کو کھائے جاتا ہے۔ مسلمان جہل کی تاریکیوں میں ڈوبے نہ اپنی تاریخ جغرافیے سے واقف ہے۔ (نہیں جانتے شام کی فتوحات کو …… جنگِ موتہ، غزوہئ تبوک، لشکر اسامہ بن زیدؓ، سیدنا عمرؓ کی عمل داری میں ابوعبیدہ بن جراحؓ اور خالد بن ولیدؓ اور پھر صلاح الدین ایوبیؒ، نورالدین زنگیؒ والے شام کو!) اسلام اور ایمان کے سودے چکائے صمٌ بکمٌ عمیٌ فھم لایرجعون، کے مصداق ہیں۔ ناچنے گانے بجانے والے، (Bat)بیٹ اور (Beat)موسیقی پر،جہلاء کے کم فہم عاشق۔ اعلیٰ ترین مقاصد، نظریے سے عاری، مقصد وجود، اپنی شناخت، امت سے رشتہ، اخوت اسلامی اور ہماری ذمہ داریاں سب سے کلیتاً نابلد ریوڑ کے ریوڑ ہیں۔
ہمارے حال کی ابتری تو یہ ہے کہ ایک لامنتہا اقساط کا طویل دورانیے کا ڈراما چل رہا ہے۔ سنسنی خیز مناظر بھی دلچسپی پیدا کرنے کو چلائے جاتے ہیں۔ ابھی بال بال فائرنگ سے عمران خان بچ گئے، الحمدللہ! اگرچہ زخموں کی نوعیت، حقیقت قومی معما اور پارٹی کا راز ہے! شکر ہے کہ ’زخمی‘ ہونے کے بعد بھی آرام سے چل کر گئے! ارادہئ قتل بہت ہی کمزور تھا بفضلہٖ تعالیٰ۔ ورنہ ارشد شریف قتل کیس میں صرف شبے پر روکنے کے لیے گولیاں ماریں تو نہ گاڑی کے ٹائروں کو نشانہ بنایا، نہ دیگر دو کار سواروں کو۔ نہ گولیاں قدم بوسی کرکے گزر گئیں بلکہ ارشد شریف کے سر اور سینے پر گولیاں برسیں۔ کھوپڑی کا ایک حصہ کچلتے ہوئے۔ سو کئی مزید بکروں کا صدقہ درکار ہے اتنی مہربان گولیوں پر جومضروب فوراً قدموں پر چل پائے اور واپس سٹیج سنبھالنے اور مارچ کرنے کو تیار کھڑا ہو سکے۔
ہماری سیاست کا یہ المیہ بھی دیکھیے کہ ایسے ڈھلمل ارادہئ قتل پر درخواست لندن میں اپنے مائی باپوں کے ہاں پولیس میں درج کرا دی گئی ہے۔ نوازشریف، مریم نواز اور رانا ثناء اللہ (فیصل آباد والے) کے خلاف! (برطانیہ کے سابق داماد ہونے کے اعتبار سے حق تو بنتا ہے۔) ایک درخواست امریکی بیٹی ٹیریان کے ذریعے لگے ہاتھوں لاس اینجلس امریکا میں بھی دی جاسکتی ہے، جہاں امریکی کورٹ نے عمران خان کو ٹیریان وائٹ کا باپ قرار دیا تھا۔ (سیتاوائٹ نے بیٹی کی پدریت کے ثبوت کے لیے مرنے سے پہلے کیس فائل کرکے جیتا تھا۔)
سو ملک پر حکمرانی کے ڈانڈے جا ملتے ہیں برطانیہ، امریکا سے! یہ حال ہے ہماری آزادی، خودمختاری اور قومی غیرت کا! ادھر برطانیہ کا حال ہم سے کچھ کم پتلا نہیں، جہاں ہزاروں مظاہرین احتجاجی پوسٹر لیے چلا رہے ہیں۔ ’برطانیہ ٹوٹ رہا ہے‘۔ ’برطانیہ (بدحالی سے) لڑکھڑا رہا ہے‘۔ وزیراعظم (نئے نویلے!) کی رہائش گاہ کے باہر پوسٹر لگے ہیں۔ ’ٹوریو (حکمران ٹوری پارٹی والو) نکل جاؤ‘۔ ’ٹوری جھوٹے‘ ’ٹوری قاتل‘، ’ٹوری چور‘! فوری انتخابات کا مطالبہ ہے مار ڈالنے والی مہنگائی کے ہاتھوں! سو برطانیہ خود عمران خان کی طرح کشتہئ جمہوریت ہے، اس کی مدد کیا کرے گا سوائے اس کے کہ …… آ مل کے کریں آہ وزاریاں، تو ہائے نوازشریف پکار، میں چلّاؤں ہائے ٹوری!
امریکا والے بڑے میاں (بائیڈن) بھی لگاتار درفنطنیاں چھوڑتے اب افغانستان کو چھیڑ بیٹھے اور کرارے جواب مل گئے۔ افغانستان کو ایسا ’آفت زدہ، درماندہ کہہ بیٹھے جسے خدا نے بھی چھوڑ دیا‘۔ حالانکہ ان کا معاملہ دماغی طور پر یہ تھا کہ: دل تو میرا اداس ہے ناصرؔ، ’دنیا‘ کیوں سائیں سائیں کرتی ہے۔ (یعنی God Forsaken…، خدا کے چھوڑے ہوئے تو تم اور تمہارا ملک ہے، اس کیفیت کو افغانستان کے سر کیوں منڈھتے ہو!) سو اللہ کی طرف سے تھپیڑے سہتا (معاشی) اور جنگِ افغانستان کے بعد یوکرین میں، کمہار پر غصہ نکالنے کی کوشش کی ہے، گدھے سے گر کر! ذبیح اللہ مجاہد (ترجمان افغان حکومت) نے اسے بائیڈن کا جلن کڑھن پر مبنی حسد قرار دیا کیونکہ افغانستان میں امریکا کے جانے کے بعد امن واستحکام لوٹ آیا۔ افغان نارمل زندگی گزار رہے ہیں، جبکہ امریکا نے معاشی پابندیاں عائد کرکے، اربوں ڈالر دبائے ہوئے ہیں اور افغانستان پھر بھی پر سکون ہے!
ترا یہ فخر کہ تو غیر کا غلام ہوا
مجھے یہ ناز کہ اپنا بھی میں غلام نہیں!
سو فخر تو نظریے اور حریت فکر سے پیدا ہوتا ہے!
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.