حکومت نے شرعی عدالت کا سود بارے فیصلہ تسلیم کر لیا

12

حکومت نے سود کے خلاف اپیل واپس لینے کا فیصلہ کر لیا ہے اس طرح شرعی عدالت کا سود کے خلاف فیصلہ تسلیم کر کے نظام مصطفی اور اسلامی بینکنگ سسٹم تیزی سے نافذ کرنے کی کاوشیں کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے میڈیا بریفنگ کے دوران بتایا کہ اس معاملے میں سٹیٹ بینک کے گورنر کے ساتھ بھی مشاورت کی گئی ہے۔ حتمی منظوری وزیراعظم شہباز شریف دیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ فیصلہ کرنے کا معیار صرف قرآن و سنت ہے اسلامی نظام کے نفاذ کے راستے میں کئی چیلنج ہیں 75 سال سے جاری نظام کو یکدم تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ساری باتیں درست کہی ہیں کہ نظام کو یکدم بدلنا ممکن نہیں ہے اس راہ میں کئی چیلنجز بھی ہیں۔ یہ بھی درست ہے ہم نے 1956، 1962 اور پھر 1973 میں دساتیر کے ذریعے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ یہ ملک قرآن و سنت کے مطابق چلایا جائے گا۔ ہم نے یہی بات قیام پاکستان سے پہلے بھی کہی تھی۔ قراردادِ پاکستان ہو یا قراردادِ مقاصد، پاکستان کے تینوں دساتیر ہوں یا قوم کی اجتماعی دانش، ہر جگہ قرآن و سنت کے مطابق نظم ریاست و سیاست چلانے کے عزم کا اظہار ہوتا رہا ہے لیکن ہمارے حکمران و مقتدر طبقات اپنے چھوٹے چھوٹے اور حقیر مفادات کی خاطر اس سے رو گردانی کرتے رہے ہیں۔ہمارا مغرب زدہ طبقہ جو تعداد میں قلیل لیکن اختیارات میں قوی ہے۔ قوم کے حقیقی آدرشوں کی بارآوری کی راہ میں ہمیشہ مزاحم رہا ہے کیونکہ اسلامی نظام ان کے وارے میں نہیں ہے ان کے بیرون ملک آقاؤں کو پسند نہیں اس لئے وہ اسے یہاں پاکستان میں نافذ نہیں ہونے دیتے ہیں۔ یہ تماشا 70/75 سالوں سے جاری ہے۔ آئین پاکستان میں درج ہونے کے باوجود اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا ہے۔ ویسے بھی ہم جس مغربی عالمی نظام زر کا حصہ ہیں ہماری معیشت جس عالمی نظام تجارت سے جڑی ہوئی ہے اس میں سود رگوں میں دوڑتے ہوئے خون اور جسم میں روح کی ماند ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام معیشت میں سود بنیادی ڈھانچے اور روح کی حیثیت رکھتا ہے سود اس نظام کا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی۔ اس کی ساری قوت اسی سود کے باعث ہے ہم کیونکہ اس نظام سے جڑے ہوئے ہیں ہمارا معاشی و معاشرتی نظام، مالی و زری نظام، اسی عالمی نظام سے پیوست ہے۔ ہماری صنعت و حرفت ہمارا عالمی لین دین اسی عالمی نظام میں پیوست ہے اس لئے اسحاق ڈار کا یہ کہنا کہ ”تبدیلی کی راہ میں رکاوٹیں ہیں“ بالکل درست اور
قابل فہم نظر آتا ہے لیکن آئین میں درج کئی ایسی باتیں بھی ہیں جن پر عمل درآمد کی راہ میں کوئی عالمی یا کوئی اور نظام مزاحم نہیں ہے ان پر بھی عمل درآمد نہیں کیا گیا جیسا کہ ”اردو کو قومی زبان کا درجہ دینا“ اس حوالے سے سپریم کورٹ احکامات بھی جاری کر چکی ہے لیکن معاملات جوں کے توں ہیں۔ اردو کو سرکاری اور دفتری زبان کے طور پر رائج کرنے میں تو ہمیں کسی عالمی نظام کی مزاحمت کا سامنا تو نہیں ہے۔ پھر اسے کیوں نہیں لاگو کیا جا رہا ہے؟ آئینی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کے حکم پر عمل درآمد کرنے کا مسئلہ بھی ہے اسے پھر بھی حل نہیں کیا جا رہا ہے یہ سوائے بدنیتی کے اور کچھ نہیں ہے یہ آئین سے روگردانی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ہم 70/75 سال گزرنے کے باوجود اپنی ضروریات، قومی تقاضوں اور آئینی پابندیوں کے مطابق، عوامی آدرشوں کے مطابق نظام تعلیم بھی قائم نہیں کر سکے ہیں ہم نے جس طرح کا نظام ترتیب دے رکھا ہے اس کے نتیجے میں ہائبرڈاور برائلر قسم کی نسل تشکیل پا رہی ہے جو کارکردگی کے اعتبار سے مغربی نہیں ہے اور فکر کے اعتبار سے اسلامی بھی نہیں ہے اس کی کوئی اپنی شناخت نہیں ہے تعلیمی ادارے ڈگریوں کی شکل میں کاغذ کے ٹکڑے تقسیم کر رہے ہیں جو حامل کی معلومات کی سند ہوتی ہے جس کی بنیاد پر کچھ لوگوں کو ملازمت مل جاتی ہے جہاں تک قابلیت کا تعلق ہے تو اس بارے میں کچھ نہ ہی کہا جائے تو بہتر ہے۔ ہم آبادی کے اعتبار سے دنیا کی پانچویں بڑی مملکت ہیں جہاں نوجوانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے لیکن عالمی معیشت میں ہمارا حصہ 0.04 یا اس سے بھی کم ہے ہم آئینی اور قانونی طور پر اسلامی ریاست ہیں لیکن دنیا کی بدنام ترین اقوام میں شمار کئے جاتے ہیں سبز پاسپورٹ ہرگز ہرگز قابل فخر نہیں ہے دنیا میں ہم قانون شکن اور جرائم سے متعلق جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ مغربی ممالک کا تو کیا کہنا ہے ہم سعودی عرب، دبئی، قطر، کویت اور ایسے ہی مسلم ممالک میں بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھے جاتے ہیں۔ حال ہی میں ہمارے وزیراعظم کے دوست عرب ملک کے سربراہ کی طرف سے تحفے میں دی جانے والی گھڑی کی مارکیٹ میں فروخت کے چرچے سے ہماری جو سبکی ہوئی ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری اشرافیہ کس قدر پست فکروعمل کی حامل ہے اقوام عالم میں ہم اچھی نظروں سے دیکھے نہیں جاتے ہیں ہمیں دھوکے باز سمجھا جاتا ہے حد تو یہ ہے کہ ہمارے سرکاری اداروں کی طرف سے مہیا کردہ اعدادوشمار کو بھی من و عن تسلیم نہیں کیا جاتا ہے آئی ایم ایف نے تو سیکرٹریٹ بلاک میں ایک فلور پر اپنا دفتر قائم کر رکھا ہے جہاں بیٹھ کر وہ اپنے انداز میں، اپنے طریقے سے اعدادوشمار اکٹھے کرتے ہیں پھر انہی کی بنیاد پر جمع تفریق کر کے ہماری مالی حیثیت کا تعین کر کے ہمارے ساتھ معاملات طے کرتے ہیں۔ ہماری طویل عرصے سے جاری نااہلیاں آج ہمیں اس مقام پر لے آئی ہیں کہ ہم ”ناکام ریاست“ کی طرف بڑھتے بلکہ لڑھکتے نظر آ رہے ہیں ہماری معیشت مکمل طور پر عالمی ساہوکاروں کے شکنجے میں جکڑی جا چکی ہے ہم عوامی فلاح و بہبود کے چھوٹے سے چھوٹے فیصلے کرنے کے لئے بھی آئی ایم ایف کی اجازت کے محتاج ہو چکے ہیں۔ اشیاء ضروریہ کی قیمتیں حقیقتاً عوام کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں قدرِ زر میں شدید پستی دیکھی جا سکتی ہے سب سے اہم بات، عوام کی اکثریت اس ملک کے حال اور مستقبل سے قطعاً مایوس ہو چکی ہے ہمارا قابل فخر دفاع، ہمارا ایٹمی پروگرام بھی ہمیں فکری و عملی تحفظ دینے میں ناکام ہو چلا ہے۔ اس ماحول میں اسلامی نظام زر کے قیام کی باتیں لایعنی ہیں سود کے بارے میں شرعی عدالت کا فیصلہ مان لینے سے زمینی حقائق میں کسی قسم کی تبدیلی ممکن نہیں ہو گی۔

تبصرے بند ہیں.