موسمیاتی کانفرنس اور فیصلے

10

موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالہ سے عالمی سطح پر چند دہائیوں سے ہلچل ضرور ہے مگرجتنا زورتقاریر اور بیانات پر دیا جاتا ہے عملی طور میں کچھ خاص تحرک نظر نہیں آتا ہر اجلاس میں بلند و بانگ دعوے کیے جاتے ہیں اور پھر کچھ وعدے کرتے ہوئے فیصلے سنائے جاتے ہیں مگر وعدے ایفا ہی نہیں کیے جاتے دوم یہ کہ جو فیصلے کیے جاتے ہیں اُن پر عملدرآمد کی رفتارانتہائی سُست بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے اسی وجہ سے اذہان میں یہ خیال تقویت پکڑ رہا ہے کہ دنیا کو موسمیاتی تبدیلی کا ادراک محض کہنے کی حد تک ہے کیونکہ عملی طور پراخلاص کا اظہار نہیں ہورہا اگر ہوتا تو وعدوں کی پاسداری اور فیصلوں پر عملدرآمد کے حوالے سے موجودہ حالات نہ ہوتے بلکہ وعدوں کی پاسداری اور فیصلوں پر عملدرآمد کا بھی کوئی طریقہ کار طے کیاجاتا جس کی روشنی میں اقوامِ متحدہ کے ممبر ممالک کی حوصلہ افزائی یا اُن کے خلاف تادیبی کاروائی کی جاتی لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہابلکہ رویے سے بے نیازی جھلکتی ہے۔
FATF  جیسی تنظیم نے ممبر ممالک کی طرف سے عہدوپیمان کے مطابق عملدرآمد کا جائزہ لینے کا ایسا طریقہ کار بنا رکھا ہے جس کے تحت جو ممبر تنظیم کے قواعد و ضوابط کی پاسداری نہیں کرتے اُن کا جائزہ لیکر ابتدا میں نام گرے لسٹ میں شامل کیاجاتا ہے جس کا مطلب ہوتا ہے کہ اِس ملک پر نظر رکھی جائے گی عملدرآمد کے لیے چند نکات کی فہرست تھمائی جاتی ہے پھر بھی روش تبدیل نہ کرے تواِس پاداش میں بلیک لسٹ کر دیا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اِس ملک کے آمدن کے ذرائع میں شفافیت نہیں اِس بنا پر دیگر ملک تعاون یا شراکت داری سے احتیاط کرنے لگتے ہیں حالانکہ رقوم کی غیر قانونی منتقلی سے زیادہ دنیا کو خطرہ موسمیاتی تبدیلیوں سے ہے کیونکہ موسمیاتی تبایلیوں سے پوری دنیا متاثر ہورہی ہے مصر کے سیاحتی شہر شرم الشیخ میں سات اور آٹھ نومبر کو منعقد ہونے والی دوروزہ سربراہی کانفرنس (کانفرنس آف دی پارٹیز)کوپ اختتام پذیر ہو چکی جس میں پاکستان کو بطور شریک صدر شامل ہونے کا موقع ملا اِس دوران وزیرِ اعظم شہباز شریف نے سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کا مقدمہ پیش کیا مگر کیاموجودہ کانفرنس کے دوران ہونے والے
معاہدوں اور وعدوں کی پاسداری ہو گی اقوامِ عالم کی غیر سنجیدگی کے تناظر میں اِس حوالے سے صدفی صد یقین سے ہاں میں جواب نہیں دیاجا سکتا۔
اقوامِ متحدہ کی ستائیسویں موسمیاتی کانفرنس جسے کوپ 27کانام دیا گیا ہے میں کافی لچھے دار باتیں ہوئیں متاثرہ ممالک کی مدداور بحالی کے اعلانات بھی ہوئے یواین او کے سیکرٹری جنرل انتیونیوگوتریس نے بھی تمام ممالک کو تعاون بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا مگر اکثر امیر و ترقی یافتہ ممالک کے کردارسے غیر سنجیدگی عیاں ہے اسی لیے کرہ ارض کو موسمیاتی تبدیلیوں اور بڑھتی حدت سے محفوظ رکھنے کے فیصلوں پرعمل بھی ہو گا کسی کو ایسا ہونے کا یقین نہیں کانفرنس میں ہونے والی باتیں گفتار تک محدود رہنے کا امکان زیادہ ہے حالانکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کُن اثرات اور مہلک وبائیں حقیقت کا روپ دھانے لگی ہیں جن کے توڑ کے لیے تمام اقوام کو کسی ٹھوس اور نتیجہ خیز یک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہوجانا چاہیے جو گفتار کے مطابق کردارکو یقینی بنائے وائے افسوس کہ صورتحال انتہائی مایوس کن ہے۔
حدت کی غیر معمولی لہر کے بارے میں اقوامِ متحدہ نے 5مئی 2018کو اپنی انتباہی رپورٹ میں پاکستان اور بھارت کے متاثر ہونے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے امکان ظاہر کردیا تھا کہ  مذکورہ ممالک میں نہ صرف ہزاروں اموات ہو سکتی ہیں بلکہ فضائی معیار گر نے کے علاوہ بجلی و پانی کے ساتھ زرعی پیداوار میں بھی کمی آ ئے گی جس سے بھوک و افلاس بڑھ سکتی ہے انتباہ کی روشنی میں ضرورت اِس بات کی تھی کہ فوری طور پر احتیاطی تدابیر کی جاتیں اور ذمہ دار ممالک اپنابھرپور کردار ادا کرتے مگر ایسا کچھ دیکھنے میں نہیں آیا اسی وجہ سے پاکستان کوتاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا کرنا پڑاجے سکاٹ لینڈ میں سی او پی 26کے تحت نومبر 2021 کے آغازمیں سو ممالک کے سربراہوں نے گلوبل وارمنگ 1.5 تک رکھنے اور جنگلات کے کٹاؤ کو روکنے کے لیے مل کر کام کرنے کا عزم کیا مگر یہ عزم بھی صرف عزم تک ہی محدود رہا عملی طور پر بہت کم پیش رفت ہوئی حالانکہ بڑے پیمانے پر اجتماعی کاوشوں کی ضرورت ہے لیکن ابھی تک مجرمانہ غفلت ترک نہیں کی گئی اور موسمیاتی سرمایہ کاری سے اجتناب کیا جارہا ہے امیر ممالک کی طرف سے ازالہ نقصان کے ضمن میں وعدے بھی بارباراپیلوں کے باجود پورے نہیں کیے جارہے ایسا طرزِ عمل ہی برقرار رہا توآئندہ تباہی کی لہرزیادہ شدید اور تباہ کُن ہو سکتی ہے جس کی لپیٹ میں صرف پاک بھارت ہی نہیں دیگر ممالک بھی آسکتے ہیں۔
یہ جو زمینی درجہ حرارت میں اضافہ ہے اِس کے ذمہ دار غریب ممالک نہیں بلکہ صنعتی طاقتیں ہیں جن کی غیر سنجیدگی سے زمین گرم ترین ہوتی جارہی ہے یو این اوکی رپورٹ کے مطابق 19ویں صدی کے اختتام سے لیکر اب تک درجہ حرارت میں اضافہ گیارہ ڈگری ریکارڈ کیا گیا اگرگزشتہ تیس برسوں کا جائزہ لیں تو اِس مختصر مدت میں اضافہ پچاس فیصد بنتا ہے جس میں کمی لانے کے لیے عالمی برادری کو ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا چاہیے اور فضا سے آلودگی ختم کرنے پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے اگر درجہ حرارت میں اضافے کو کنٹرول کر لیا جائے تو گلیشئر کا پگھلاؤ بھی کم ہو جائے گا مگر صرف کہنے سے کچھ نہیں ہو سکتا جب تک عملی طور پر اقدامات نہیں کیے جاتے ہو یہ رہا ہے کہ بہتری لانے کے اقدامات کی بجائے توانائی کے حصول اور صنعتی سرگرمیوں کے لیے کوئلے کا استعمال ایک بارپھر دوبارہ بڑھنے لگا ہے جو نہ صرف ہوا میں آلودگی کا باعث ہے بلکہ زمینی حدت میں بھی خطرناک حد تک اضافہ کی وجہ ہے اِس سے کمزور ممالک کا تو نقصان ہو ہی رہا ہے ترقی یافتہ ممالک بھی متاثر ہو نے لگے ہیں عالمی اِدارہ صحت کے مطابق 2022 کے دوران یورپ میں گرم ترین موسم کی وجہ سے اب تک کم از کم پندرہ ہزار اموات ہو چکی ہیں اِس حوالے سے اسپین اور جرمنی کا شمارسرِ فہرست ممالک میں ہوتا ہے لہذایہ کہنا کہ نقصان صرف پاک بھارت کوہی ہوگا مکمل طور پر درست نہیں۔
یہ کہنا مبنی برحقیقت ہے کہ امیر ملکوں کی بے احتیاطیوں کی سزا غریب ممالک بھگت رہے ہیں حالانکہ غریب ملکوں کا کاربن کے اخراج میں حصہ بہت ہی کم ہے ضرورت اِس امر کی ہے کہ تمام اقوام غیر سنجیدگی ترک کرتے ہوئے مل کر کام کریں اور موسمیاتی تبدیلیوں میں خطرناک حد تک تبدیلیوں کی رفتار کم کرنے میں حصہ لیں اِس کے لیے ضروری ہے کہ نہ صرف بروقت فیصلے کیے جائیں بلکہ عمل درآمد پر توجہ بھی دی جائے اگر موجودہ صورتحال زیادہ دیر برقرار رہتی ہے تو کرہ ارض اِس حد تک گرم ہو جائے گا جو انسان سمیت ہر قسم کے جانداروں کی رہائش کے قابل نہیں رہے گا۔

تبصرے بند ہیں.