وقت کی پکار۔۔مضبوط معیشت

12

یہ میر ا کہنا یا اندا زہ نہیں،بلکہ وطنِ عز یز کی وزرات خزانہ کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال 2022-23 کی پہلی سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) کے دوران ملک میں مہنگائی کی شرح 25.1 فیصد رہی۔ ایف بی آر کے محصولات سترہ فی صد بڑھے، برآمدات میں 5.5 فی صد اضافہ، درآمدات 7.9 فی صد کم ہوئیں، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ دو ارب بیس کروڑ ڈالر رہا جب کہ ترسیلات زر میں 3.6 فی صد، مجموعی سرمایہ کاری 83.7فیصد کم ہوگئی۔ رپورٹ کے مطابق مستحکم کرنسی کے لیے مضبوط معیشت کا ہونا ضروری ہے۔ اسی تناظر میں معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر میں بہتری کے لیے دیرپا منصوبہ بندی ضروری ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بیان تو دیا ہے کہ ڈالر کی قیمت 200 روپے سے نیچے ہونی چاہیے لیکن ملکی معیشت کو بہتر سمت میں لے جانا بھی ان ہی کی ذمے داری ہے۔ کچھ عر صے سے روپے کی قدر میں ایک بار پھر گراوٹ کا رجحان دیکھا جا رہا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ کی تبدیلی کے بعد روپے کی قدر میں بہتری کا سلسلہ اب برقرار نہیں رہ پا رہا دراصل ملکی کرنسی میں بہتری کے لیے زرمبادلہ کے ذخائر کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔ روپے کو مستحکم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ برآمدات میں اضافہ کیا جائے جس سے آمدنی بڑھے گی اور اخراجات کم ہوں گے تو ہی ملکی کرنسی مضبوط ہوگی۔ مہنگائی مسلسل بڑھنے کی وجوہات میں ایک تو وہ قرضوں کا انبار ہے جو ایک سو بیس ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے۔ دوسرا وہ بجلی کا نظام ہے جس کے تحت ہمیں باہر سے بجلی منگوانا پڑتی ہے ہم نے بجلی کی پیداوار بڑھانے اور ڈیمز بنانے کی طرف کبھی توجہ نہ دی اب غریب کے لیے یہ بات تکلیف دہ ہے اگر وہ بجلی کی قیمتیں ادا کرتے ہیں تو ان کے پاس کھانے کے لیے پیسے نہیں بچتے اور تیسری بات یہ کہ ہمیشہ سے ہمارا مقصد اقتدار بچاؤ تو رہا غربت کا خاتمہ ہماری اولین ترجیح نہ رہا ہم ہمیشہ اقتدار میں آنے کے لیے یہ تاثر دیتے رہے کہ پرانی حکومتیں غیر جمہوری تھیں۔ ہم حکومت کے اصل وارث ہیں اور عوام کے خدمتگار ہیں اور عوام اس خوش فہمی میں مبتلا رہے کہ اپنا بھی دن آئے گا لیکن ہر دن مہنگائی کی نوید لے کر آیا پاکستان نے انیس سو اٹھاسی کے بعد سخت شرائط پر قرض لیا اس سے قبل قرض پر شرائط نہ ہونے کے برابر تھیں قرض بڑھتا گیا شرائط سخت ہوتی گئیں مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ موجودہ حکومت کے کندھوں پر تین تین ذمے داریاں عائد ہوچکی ہیں، صورتحال یہ ہے کہ ایک کا رخ درست
کرنے کی کوشش کی جائے تو دوسری کی سمت خراب ہوجاتی ہے جب کہ تیسری ذمے داری کا تعلق عوام سے ہے جس کا رخ آج تک کسی نے متعین کرنے کی کوشش نہ کی۔ مہنگائی کے روز بروز بڑھتے رجحان نے عوام کے ذہنوں کو ماؤف کردیا ہے۔ اور یہ کارل مارکس کا نظریہ ہے کہ پیٹ کا ایندھن بھرنے کے لیے لوگ جرائم کی طرف مائل ہوتے ہیں اور معاشرتی ناہمواری کی وجہ یہی غربت ہے لیکن حزب اقتدار اور مخالف کی سیاسی کشمکش اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں نے عوام کو خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور کر رکھا ہے۔اب سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا معاشی صورتحال سنبھل جائے گی اور عوام کی زندگیوں میں کیا تبدیلی آئے گی۔ اس سے قبل ٹیکسوں کی بڑھتی ہوئی شرح اور بجلی گیس اور پٹرول کی قیمتوں نے عوام پر جو بم گرایا ہے کیا عوام کو اس حوالے سے آنے والوں دنوں میں ریلیف ملے گا؟ لیکن حقائق بتاتے ہیں کہ آگے چل کر نہ صرف پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا بلکہ بجلی اور گیس میں بھی اضافہ ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاست کے عوام انعام و اکرام کے لیے اس ٹرک کی بتی کے پیچھے دوڑ رہے ہیں جس کی کوئی منزل نہیں۔ ہم نے عوام کی توجہ آئی ایم ایف کی طرف موڑ رکھی ہے کہ قرض ملتے ہی ملک ڈیفالٹ ہونے سے بچ گیا ہے، جلد ترقیاتی منصوبے شروع ہوں گے لیکن عوام کو اس ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ حالات و واقعات اس بات کے شاہد ہیں کہ نئے سخت شرائط والے قرضوں کے حصول کے بعد مزید سخت فیصلے عوام کی زندگی پر برے اثرات ڈالیں گے۔ اس وقت مہنگائی کی شرح اٹھائیس فی صد ہے جو کہ مستقبل قریب میں پینتیس سے چالیس فی صد ہوجائے گی، حکومت کا موقف ہے کہ وہ اپنی مدت دو ہزار تیئس تک پوری کرے گی، اب اس سفر کے دوران کیا کیا مشکلات درپیش ہوں گی، یہ تو وقت ہی بتائے گا تاہم یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ۔ عوام بھی اس تبدیلی سے یہ توقع لگائے بیٹھے تھے کہ عمران حکومت کے جاتے ہی تجربہ کار سیاستدان کوئی بڑی تبدیلی لائیں گے اور غریب کے ٹھنڈے چولہے پھر سے جل اٹھیں گے۔ آج ہمیں جن کڑے فیصلوں کی ضرورت ہے، اس میں ہر سطح پر فضول خرچی کا خاتمہ، غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی اور اس سادہ طرز زندگی کی ضرورت ہے جس سے معاشی نظام کو کسی حد تک سہارا ملے اس کے ساتھ درست فیصلے سیاسی محاذ آرائی کا خاتمہ اور سیاسی استحکام کے لیے ناگزیر حیثیت رکھتا ہے۔ بحران زدہ حالات کے تسلسل میں ملکی معیشت وینٹی لیٹر پر مصنوعی سانسوں سے بھی چل نہیں سکے گی۔ اب سب کو معلوم تھا کہ معاشی مشکلات کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اب رونے دھونے کا کیا فائدہ؟
بہر حا ل اگراب بھی صدق دلی سے کو شش کی جائے تو حل اب بھی ممکن ہے اور وہ یو ں کہ ملک کے سب بڑے ما ہرینِ معا شیا ت ذاتی انا اور پا رٹی محبت سے بالا تر ہو کر سر جو ڑ کر بیٹھ جا ئیں تو کو ئی وجہ نہیں کہ وہ ملک کو سیاسی بحران سے آ زا د نہ کرا سکیں۔ لیکن با ت تو یہ ہے یہاں مسئلہ لیڈری کاآ ن پڑتا ہے۔ان میں سے کوئی کسی دوسرے کی سپر میسی تسلیم کر نے پہ آ ما دہ نہیں۔یہ نا کامیوں کا ملبہ دوسرے پہ ڈالنے کوتو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں،مگر کامیابیوں کا کر یڈٹ کسی دوسرے کو دینا گنا ہ خیال کر تے ہیں۔ اس بارے وہ اس دکھ سے بھی بے نیا ز رہتے ہیں کہ خدا نخو استہ اگر ملک ڈ یفا لٹ کر جا تا ہے تو غریب عوام کا کیابنے گا۔یعنی بقول شا عر:
وا ئے نا کا می متا عِ کا رواں جا تا رہا
کارواں کے دل سے احسا سِ زیا ں جا تا رہا

تبصرے بند ہیں.