پہلی بات تو یہ سمجھ لیں کہ اگر مجھے عمران خان نے مایوس کیا ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ میں کسی دوسری سیاسی جماعت سے پُر امید ہو ں۔ لوٹوں ٗ نوٹوں اوربوٹوں کی سیاست نے ملکی مفاد کیلئے کچھ کیا یا نہیں البتہ گزشتہ 75 سال میں اقتدار میں آنے والی ہر حکومت نے درمیانے طبقے کو غریب ٗ غریب کو مفلس اورمفلس کو بھکاری ضرور بنا دیا ہے۔ یہی وہ واحد سچ ہے جس سے کسی جماعت کے سیاسی ورکر کو انکار نہیں ہونا چاہیے اور اگر کسی کو انکار ہو گا تو یقینا وہ اپنی سیاسی جماعت سے ذاتی حیثیت میں مستفید ہوا ہوگا لیکن قومی سطح پر آپ کی جماعت نے سوائے مایوسی کے کچھ نہیں دیا۔ فوج کو اپنی آئینی حدود میں رہنا چاہیے لیکن جب آئین تھا ہی نہیں تب ہم نے کونسا تیر مار لیا تھا؟ کبھی فرد واحد اورکبھی فوجی حکمران آئین بناتے رہے لیکن دونوں آئین لطائف کے مجموعے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ موجودہ آئین ہم نے آدھے سے زیادہ پاکستان کھو کر حاصل کیا ہے گو کہ اس پر بھی میرے تحفظات ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو مقتول کے پاس آئین بنانے کا مینڈیٹ ہی نہیں تھا کیونکہ جس پاکستان میں بھٹو نے الیکشن لڑ ا تھا اُس پاکستان کا اقتدارِ اعلیٰ ٗ حکومت ٗ آبادی اورجغرافیہ سب کچھ بدل چکاتھا سو اس بچے کچھے پاکستان میں نیا الیکشن نا گزیر تھا لیکن اُس وقت کی شکست خوردہ اسٹیبلشمنٹ کو شاید یہ بھی قابلِ قبول نہیں تھا۔ ممکن ہے آپ نے پاکستان اسلام کے نام پر لیا ہو لیکن یہ اسلامی اصولوں پر چلا نہیں اورنہ ہی کسی دوسرے اخلاقی قانون کوآپ نے پاکستان میں پرورش پانے کی اجازت دی ہے۔ نتیجہ آج آپ کے سامنے ہے ٗ ہمارے پاس اگر کچھ قابلِ فخربچاہے تو وہ غازیوں ٗ شہیدوں اور مقتولوں کے سچے جسم اور جھوٹی کہانیوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔ پاکستان کسی خوفناک جنگل میں پڑا گوشت کا بہت بڑا ٹکرا ثابت ہوا ہے جسے ہر جنگلی جانور نے اپنے جبڑوں کے سائز اورطاقت کے مطابق کاٹ لیا ہے۔آپ اس ملک میں پہلے بچوں کو بولنا سکھاتے ہیں اور پھر انہیں جھڑک کرکہتے ہو ”خاموش رہو“۔ آپ سوال کرنے کی اجازت اس لئے نہیں دیتے کہ آپ کے پاس اپنے پیدا کیے ہوئے بچو ں کے سوالوں کے جواب بھی نہیں چہ جائیکہ آپ اس عالمی گاؤں میں دنیا کے سوالوں کے جواب دے سکیں۔
اوورسیز پاکستانی وطنِ عزیز کے لائق ِتحسین بیٹے ہیں کہ جو معاشی جلاوطنیاں کاٹ کر پاکستان میں اپنے عزیز و اقارب کے آبرو مندانہ سماجی رتبے کی حفاظت کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے قومی خزانے میں بھی رونق لگائے رکھتے ہیں۔ کبھی ہم نے سوچا ہے کہ کیوں یہ لوگ پاکستان چھوڑ کر پردیس میں جا بسے؟ کیا بردہ فروشی صر ف بچوں کے اغوا کے بعد خریدو فروخت کا نام ہے؟ کیا ایسے حالات پیدا کردینا کہ انسان سماجی اور معاشی گھٹن کا شکار ہو کر خاموشی سے وطن عزیز کوچھوڑجائے ٗبردہ فروشی کی نئی قسم نہیں ہے؟ کیا ہم اکیسویں صدی میں غلامی کے نئے تصور کا سامنا نہیں کر رہے؟ جہاں پہلی ایٹمی جنگ کے بعد طاقتور ریاستوں اور عالمی سود خوروں نے فیصلہ کیا کہ اب جنگ کے ذریعے کسی ملک پر قبضہ کرنا اوربرقرار رکھنا ممکن نہیں ٗ تو انہوں نے کمزور ریاستوں کے حکمرانوں کو قرضوں کے جال میں پھنسا کر ریاستی اداروں کو مفلوج کردیا جس کے نتیجہ میں تمام قوم خود بخود بغیرجنگ کے غلام ہو گئی۔ بیرون ملک کمایا ہوا روپیہ جب”معاشی جلاوطن“ پاکستان بھیجتے ہیں تو وہ کچھ عرصے بعدسود خوروں کی اقساط ٗ بیرونی قرضوں اوربڑے گھروں کی غیر ضروری برآمدات کے ذریعے پھر انہیں ریاستوں میں واپس چلا جاتا ہے جہاں سے یہ انتہائی محنت اورسخت مشقت کے بعد پاکستان آیا ہوتا ہے۔ وطن عزیز جس ڈگرپرچل نکالا ہے مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ معاملہ بیلٹ سے نہیں بُلٹ سے حل ہو گا۔پرچی نہیں شاید برچھی چلے گی کیونکہ بھوکے کا کسی جمہوریت یا آمریت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔وہ تواُس مذہب سے بھی متنفر اورنالاں دکھائی دیتا ہے جو اُس کے بچوں کی ضرورتیں پوری نہ کر رہا ہو۔ اسی لئے رسولؐ نے فرمایا تھا کہ غربت سے توبہ کرو کہ یہ کفرتک لے جاتی ہے۔
اوورسیز پاکستانیوں کی سیاسی جدو جہد کو میرا سلام ہے لیکن خدارا! یہ بھی سوچیں کہ آپ لوگوں کا تعلق جس طبقے سے ہے کیا پاکستان میں بننے والی حکومتوں میں اُس طبقے کے نمائندے موجود ہیں۔اگر تو آپ کو اپنے چہرے دکھائی دیں تو سمجھ لیں کہ کچھ سال بعد پاکستان کی اسمبلیوں میں پاکستان کے حقیقی نمائندے بیٹھے ہوں گے اوراگر ایسا نہیں ہے توپھر آپ بھی اُسی سُراب کے پیچھے دوڑ رہے ہیں جس کے پیچھے بھاگتے ہوئے ہمارے بزرگوں نے بھوک
اور پیاس کی حالت میں پاکستان کے اِن سیاسی صحراؤں میں اپنی جان دی ہے۔پاکستان کا مقدرٗ صرف پاکستانی عوام کے ہاتھ میں ہے اور پاکستانی عوام کو ہی ایک بہترین پاکستان بنانے کیلئے ٗ اپنے بہترین لوگوں کے ساتھ نکلنا ہوگا۔ مجھے عمران خان سے کوئی گلہ نہیں کیوں کہ میں نے اُس کیلئے نہیں اپنے احساس کے تقاضے پورے کیے ہیں۔ یہاں حکمران اقلیت میں شامل ہونا بہت آسان ہے لیکن حقیقی افلاس زدہ اکثریت کیلئے کچھ کرنا انتہائی مشکل کیونکہ اس کی راہ میں کھڑے پرانے نظام کے اجارہ دار آپ کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ پاکستان صرف ایک معاشی انقلاب کا منتظر ہے۔جو وہی حقیقی نم ہے جس کا ذکر اقبال نے اپنی شاعری میں بھی کیا ہے”ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی“۔ ہمیں اللہ نے ہر طرح کے وسائل سے نوازا ہے لیکن ہمیں اُن وسائل کو اپنی مرضی سے استعمال کرنے کا اختیار خود حاصل کرنا ہے۔ جس دن آپ نے وہ اختیار حاصل کرلیا پاکستان ایک عظیم ملک بن جائے گا۔ورنہ یہاں ہرچند سال بعد لوٹوں ٗ نوٹوں اور بوٹوں کی لڑائی میں افلاس زدہ عوام خودکشیاں کرتے رہیں گے ٗ لانگ اورشارٹ مارچ نکلتے رہیں گے ٗ قیدیں ٗ جیلیں ٗ کوڑے اورجلا وطنیاں وہ جبری ہوں یا غیر محسوس طریقے سے ٗ ہمارے مقدر میں لکھی جاچکی ہیں۔بکھرے ہوئے ہجوم کو منتشر کرنا انتہائی آسان ہوتا ہے لیکن کسی منظم تنظیمی جلوس پر لاٹھی چارج یا آنسو گیس سے شیلنگ کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا ہے۔ جب تک احتجاجیوں کی تعداد کم اور انتظامیہ کی تعداد زیادہ ہو گی آپ کی ہر کوشش ناکام ہے لیکن جس دن ہر شہر سے لاکھوں لوگ نکل کرسٹرکوں پر آئیں گے اُس دن کوئی مائی کا لعل آپ کے مقابل آنے کی جرأت نہیں کرے گا کیونکہ اپنے لوگوں پر بمباری نہیں ہوتی اور نہ ہی ٹینک چڑھائے جا سکتے ہیں۔ ریاستی قوتوں کو بالادست طبقات کے کہنے پر جبر کرنے سے انکارہی کرنا پڑتا ہے لیکن یہ سب ہمارے خواب تھے جنہیں اقتدار کی لالچ نے تعبیرہونے سے روک دیا گیا مگر حقیقت ہمیشہ کیلئے نہیں روکی جا سکتی۔ میں پاکستان کے نوجوانوں سے پُرامید ہوں وہ ضرور کسی صبح نور کی نوید بنیں گے لیکن اس کیلئے انہیں سب سے پہلے اس نظام کو سمجھنا ہوگا جس میں اُن کے حقوق سلب ہو رہے ہیں اوراس کے بعد اس کا متبادل نظام ڈھونڈنا ہوگا۔تبدیلی یا انقلاب پڑھنے میں سائنس اور لانے میں آرٹ ہوتا ہے سو یاد رکھیں کہ انقلاب سائنس اور آرٹ کے مرکب کا نام ہے۔ اگربغیر تیاری کے میدان میں اتریں گے تو آپ ایک ناکام باغی تو بن سکتے ہیں لیکن کامیاب انقلابی نہیں۔ کیوں کہ یہی تاریخ کا سب سے بڑا سچ ہے کہ ہر ناکام انقلابی ”باغی“اورہر کامیاب باغی”قابل احترام انقلابی“ ہوتا ہے لیکن شاید ہمیں یہ سمجھنے کیلئے بھی اک زمانہ درکار ہے ہمیں جو بھی آ کر انقلاب کے نام پرکچھ بھی بیچ جائے ہم نہ صر ف خرید لیتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی خریدنے کا نہ صرف مشورہ دیتے ہیں بلکہ اُس کی مارکیٹنگ کرنا شروع ہوجاتے ہیں۔ وہ زمانے گئے جب نیلسن منڈیلا تقریباً تین دہائیاں جیل کاٹ کر لیڈر بنے گا آنے والا لیڈر گھنٹوں میں بنے گا اورعوام کے سامنے ہو گا مگر کسی بھی تبدیلی سے پہلے ہمیں اپنے دوست اوردشمنوں کے درمیان ایک لائن کھینچنا پڑتی ہے نہ کہ تحریک کے دوران ہی اپنے بدترین مخالفین کو اپنے حقیقی ساتھیوں کی قیادت سونپ دی جائے۔ بس آپ یہ بات یاد رکھیں۔درویش شاعر ساغر صدیقی نے کہا تھا
دو قدم رائیگاں ہوئے تو کیا
دو قدم اور جستجو کر لو
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.