رُت بدلے گی تو گلاب کھلیں گے!

54

فی الحال یہ کہنا ذرا مشکل ہے کہ سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ہاں مگر یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے اگلے آٹھ دس دن انتہائی اہم ہیں کہ ان میں ملک کی سیاست کا منظر تبدیل ہونے کا قوی امکان ہے کیونکہ جو صورت حال پیدا ہو چکی ہے وہ تادیر قائم نہیں رہ سکتی کہ معیشت کمزور ترین سطح پر آگئی ہے انتظامی معاملات بہت ہی خراب ہو چکے ہیں۔ عوام میں بے چینی و احساس بیگانگی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ایسا بالکل ملکی مفاد میں نہیں لہٰذا لگ رہا ہے کہ اب آنے والے دنوں میں حالات پر چھائی دھند چھٹ جائے گی اور مطلع صاف ہو جائے گا۔
یہ اچھی بات ہو گی کیونکہ عوام اپنے اور اپنے بچوں کے بارے میں بڑے فکر مند ہیں انہیں کہیں سے بھی کوئی خوشخبری سنائی نہیں دے رہی۔ انہیں کچھ سنائی دے رہا ہے تو یہ کہ وہ چور ہے، ڈاکو ہے اس نے اتنے ارب کھرب روپے ہڑپ کر لیے اس نے اپنوں کو نوازا بیرون ملک جائیدادیں بنا لیں وغیر وغیرہ لہٰذا یہ سلسلہ اب ختم ہو جانا چاہیے۔ عوام کو کسی صور ت سیاسی بحران قبول نہیں اس سے انہیں جو نقصان پہنچ رہا ہے اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا کہ آئے روز اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ سویلین ادارے برباد ہو چکے ہیں۔ رشوت دھڑلے سے لی جا رہی ہے کسی کو کوئی خوف محسوس نہیں ہو رہا لہٰذا ذمہ داران کو سر جوڑ کر بیٹھ جانا چاہیے۔ ہمارے سیاستدانوں کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ بے چین و بے قرار لوگوں کے ساتھ کوئی ہمددری نہیں کرتے تو اقتدار میں کیسے رہ سکتے ہیں وہ کب تک انہیں بھول بھلیوں میں گھما سکتے ہیں۔ اب وہ زمانہ تو رہا نہیں کہ جب اندر ہی اندر فیصلے ہوتے تھے اور عوام کو اندھیرے میں رکھا جاتا تھا اب تو لوگ سب جان چکے ہیں انہیں سوشل میڈیا نے بہت کچھ سمجھا بتا دیا ہے لہٰذا موجودہ انداز سیاست کو تبدیل کر دیا
جائے عوام کو شریک اقتدار کیا جائے انہیں بیوقوف مت تصور کیا جائے کیونکہ پچھتر برس کی سیاست کاری اور اشرافیہ کے طرز عمل و طرز حکمرانی سے انہوں نے بہت کچھ سیکھ لیا ہے انہیں معلوم ہے کہ یہ اشرافیہ انہیں کیا کیا سبز باغ دکھا کر خود کو ارب اور کھرب پتی بناتی رہی ہے انہیں معاشی تنگدستی کا شکار بنا کر کس طرح ان پر مسلط چلی آئی ہے لہٰذا پرانی اور آزمودہ چالاکیاں اب نہیں چلنے والی کہ جب بھی کوئی روایتی ہوشیاری دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے عوام شور مچا دیتے ہیں اس کو نہیں مانتے حقائق سامنے لے آتے ہیں۔ ان کو اب تشدد کر کے بھی جھکنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ طویل عرصہ گزرنے کے بعد آزادانہ اور مساویانہ زندگی گزارنا چاہتے ہیں انہیں یہ ہرگز منظور نہیں کہ حکمران طبقات اور ان کے حواری تو عیش و عشرت کے ساتھ زندگی بسر کر یں انہیں کوئی معاشی و انتظامی پریشانی نہ ہو اور وہ مسلسل آہیں بھرتے آگے بڑھیں یہ سب بدلنا چاہیے۔
ہمیں کچھ کچھ ایسا بھی دکھائی دے رہا ہے کہ حالت موجود اس طرح باقی نہیں رہے گی کیونکہ اب ہم بولنے لگے ہیں ان کے ذہنوں میں جو طوفان اٹھ رہے تھے وہ واضح ہو چکے ہیں انہیں سوال کرنا آگیا ہے ان کے اندر کا خوف دھیرے دھیرے اپنے انجام کو پہنچنا شروع ہو گیا ہے۔ وہ اس نظام سے ٹکرانے کے لیے آمادہ وتیار ہو چکے ہیں کہ کب تک وہ الم و مصائب کا سامنا کرتے رہیں گے کب تک آنے والی نسلوں کو مجبور و محکوم دیکھیں گے۔ لہٰذا انہیں احتجاج کرنا ہو گا سو وہ کر بھی رہے ہیں۔
بہر حال ہماری اشرافیہ آسانی سے ہار نہیں مانے گی وہ اپنے تئیں پوری کوشش کرے گی کہ جاگے ہوئے عوام کو سلا دیا جائے تا کہ وہ طویل عرصے تک حکمرانی کے مزے لوٹیں مگر شاید انہیں معلوم نہیں ہو گا کہ ارتقائی عمل کو نہیں روکا جا سکتا وہ پیچھے کی جانب نہیں آگے کی طرف بڑھتا ہے جس میں منظر بدل جاتے ہیں۔ لہٰذا انہیں حکمت عملیوں اور چکرباز یوں سے اجتناب برتتے ہوئے حقائق کو تسلیم کر لینا چاہیے وہ لاکھ شعوری سویرے کو تاریکیوں کی چادر میں لپیٹنے کی سعی کریں انہیں اس سے کچھ فائدہ نہیں حاصل ہو گا۔ وہ یہ دیکھیں مغرب پہلے کہاں کھڑا تھا آج کہاں ہے یورپ میں عام آدمی برسوں پہلے کیسے جی رہا تھا آج کیسے رہ رہا ہے چین اور روس کو دیکھ لیں کس قدر اس کے لوگ اذیت ناک  وقت گزر رہے تھے موجودہ صورت حال میں ان کا جیون کیسا ہے لہٰذا جو بھی اہل اختیار کو مشورے دیئے جا رہے ہیں یا پھر وہ خود جو سوچ رہے ہیں اس کو ذہن سے جھٹک دیں۔ خیالات کی طاقت کو سمجھیں لوگ آہستہ آہستہ اس پہلو کو بھی دیکھنے لگے ہیں کہ حکمران طبقات نے انہیں بڑی مہارت اور سمجھ داری سے تقسیم کیے رکھا ہے اور اقتدار میں آنے کے بعد ان سے آنکھیں پھیرتے رہے ہیں اس دوران وہ کیا کچھ سمیٹتے رہے ہیں اس کا علم اب آکر ہوا ہے۔ انہوں نے ایسا کرنا ہی تھا کیونکہ وہ ووٹ کے ساتھ آشیر باد لے کر اقتدار میں آتے رہے ہیں۔ آئی ایم ایف سے بھی تھپکی لے کر حکمران بنتے رہے ہیں اور یہ وعدہ کر کے وہ ’سٹیٹس کو‘ کو ہر صورت قائم رکھیں گے اختیارات کا قلمدان سنبھالتے رہے ہیں لہٰذا وہ عوام کی خدمت کو فراموش کر کے اپنے دوستوں کو راضی کرنے میں مصروف عمل رہے۔ اب یہ سلسلہ زیادہ دیر تک نہیں چلے گا کیونکہ عوام کی غالب اکثریت اس سیاسی کلچر سے نفرت کرنے لگی ہے سخت بے زار ہو چکی ہے۔ وہ ٹیکسوں کے سمندر میں غوطہ زن ہیں انہیں نا انصافیوں اورزیادتیوں نے تڑپا کر رکھ دیا ہے۔ وہ عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا نظر آتے ہیں ایک لمحے کو تو ایسا لگتا ہے کہ وہ واقعتا جنگل میں رہ رہے ہیں۔ مافیاز نے ان کے ناک میں دم کر رکھا ہے وہ روز بروز طاقتور سے طاقتور ہوتے جا رہے ہیں مگر قانون ڈرا ڈرا سہما سہما سا دکھائی دے رہا ہے لہٰذا یہ صورت حال ایک انقلاب کا تقاضا کر رہی ہے جو آئے گا تو یہ سفاک نظام بدلے گا اور لوگوں کے چہروں پر گلاب کھلیں گے فضائیں معطر ہوں گی اور زندگی کا ہر رنگ حسیں ہو گا!

تبصرے بند ہیں.