” ہم نے عرض شوق نہ کر کے حسن کو زک پہنچائی ہے”

79

 

سادہ، لیکن تیکھی تراشی اور چمکائی ہوئی زبان میں نہایت گہری اور شور انگیز باتیں کہنے والے ہفت زبان شاعر، صحافی، مفکّر، مترجم، نثر نگار، دانشور اور بالاعلان نفی پرست اور انارکسٹ جون ایلیا اک ایسے اوریجینل شاعر تھے جن کی شاعری نے نہ صرف ان کے زمانہ کے ادب نوازوں کے دل جیت لئے بلکہ جنھوں نے اپنے بعد آنے والے ادیبوں اور شاعروں کے لئے زبان و بیان کے نئے معیارات متعیّن کئے. ان کی آج 20 ویں برسی منائی جا رہی ہے۔

جون ایلیا نے اپنی شاعری میں عشق کی نئی جہات کا سراغ لگایا۔ وہ باغی، انقلابی اور روایت شکن تھے لیکن ان کی شاعری کا لہجہ ا تنا مہذب نرم اور غنائی ہے کہ ان کے اشعار میں میر تقی میر کے نشتروں کی طرح سیدھے دل میں اترتے ہوئے سامع یا قاری کو فوری طور پران کی فنّی خوبیوں پرغور کرنے کا موقع ہی نہیں دیتے۔ میر کے بعد خال خال نظر آنے والی تاثیر کی شاعری کو تسلسل کے ساتھ نئی گہرائیوں تک پہنچا دینا جون ایلیا کا کمال ہے۔ اپنی نجی زندگی میں جون ایلیا کی مثال اس بچّے جیسی تھی جو کوئی کھلونا ملنے پر اس سے کھیلنے کی بجائے اسے توڑ کر کچھ سے کچھ بنا دینے کی دُھن میں رہتا ہے۔ اپنی شاعری میں انھوں نے اس رویہ کا اظہار بڑے سلیقے سے کیا ہے۔ جون ایلیا کمیونسٹ ہونے کے باوجود فن برائے فن کے قائل تھے۔

انھوں نے رومانی شاعری سے دامن بچاتے ہوے ، تازہ بیانی کے ساتھ دلوں میں اتر جانے والی عشقیہ شاعری کی۔ احمد ندیم قاسمی کے بقول "جون ایلیا اپنے معاصرین سے نہایت درجہ مختلف اور منفرد شاعر ہیں۔ ان کی شاعری پر یقیناً اردو، فارسی عربی شاعری کی چھوٹ پڑ رہی ہے مگر وہ ان کی روایات کا استعمال بھی اتنے انوکھے اور رسیلے انداز میں کرتے ہیں کہ بیسویں صدی کے آخری نصف میں ہونے والی شاعری میں ان کی آواز نہایت آسانی سے الگ پہچانی جاتی ہے”۔ اردو شاعری کی سہ صد سالہ تاریخ میں کسی نے اس لہجہ کے، اس مفہوم کے، اس نشتریت سے مملو شعر کم ہی کہے ہوں گے۔ جون ایلیا کے یہاں مختلف نوع کے رنگ اور نئے مضامین و موضوعات ہیں جو اردو غزل کی روایت میں نیا در وا کرتے ہیں اور روایت سے انحراف کے طور پر بھی نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی نظمیں بھی موضوعاتی نہ ہو کر حسیاتی ہیں۔

جون ایلیا اترپردیش کے شہر امروہہ کے ایک علمی گھرانے میں 1931ء میں ہیدا ہوئے۔ ان کے والد سید شفیق حسن ایلیا اک تنگ دست شاعر اور عالم تھے۔ ان کے اور اپنے بارے میں جون ایلیا کا کہنا تھا "جس بیٹے کو اس کے انتہائی خیال پسند اور مثالیہ پرست باپ نے عملی زندگی گزارنے کا کوئی طریقہ نہ سکھایا ہو بلکہ یہ تلقین کی ہو کہ علم سب سے بڑی فضیلت ہے اور کتابیں سب سے بڑی دولت تو وہ رائگاں نہ جاتا تو کیا ہوتا۔” پاکستان کے نامور صحافی رئیس امروہوی اور مشہور ماہر نفسیات محمد تقی جون ایلیا کے بھائی تھے، جبکہ فلم ساز کمال امروہی ان کے چچا زاد بھائی تھے۔

جون ایلیا کے بچپن اور لڑکپن کے واقعات بہ زبان جون ایلیا ہیں مثلا "اپنی ولادت کے تھوڑی دیر بعد چھت کو گھورتے ہوئے میں عجیب طرح ہنس پڑا جب میری خالاؤں نے یہ دیکھا تو ڈر کر کمرے سے باہر نکل گئیں۔ اس بے محل ہنسی کے بعد میں آج تک کھل کر نہیں ہنس سکا” یا "آٹھ برس کی عمر میں میں نے پہلا عشق کیا اور پہلا شعر کہا۔”

جون کی ابتدائی تعلیم امروہہ کے مدارس میں ہوئی جہاں انھوں نے اردو عربی اور فارسی سیکھی۔ درسی کتابوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور امتحان میں فیل بھی ہو جاتے تھے۔ بڑے ہونے کے بعد ان کو فلسفہ اور ہیئت سے دلچسپی پیدا ہوئی۔ انھوں نے اردو، فارسی اور فلسفہ میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔ وہ انگریزی، پہلوی وعبرانی، سنسکرت اور فرانسیسی زبانیں بھی جانتے تھے۔ نوجوانی میں وہ کمیونزم کی طرف راغب ہوئے۔ تقسیم کے بعد ان کے بڑے بھائی پاکستان چلے گئے تھے۔ والدہ اور والد کے انتقال کے بعد جون ایلیا کو بھی 1956 میں با دل ناخواستہ پاکستان جانا پڑا اور وہ تا زندگی امروہہ اور ہندوستان کو یاد کرتے رہے۔

ان کا کہنا تھا "پاکستان آ کر میں ہندوستانی ہو گیا۔” جون  ایلیا کو کام میں مشغول کر کے ان کو ہجرت کے کرب سے نکالنے کے لیے رئیس امروہوی نے اک علمی و ادبی رسالہ "انشاء” جاری کیا، جس میں جون اداریے لکھتے تھے۔ بعد میں اس رسالہ کو "عالمی ڈائجسٹ” میں تبدیل کر دیا گیا۔ اسی زمانہ میں جون نے قبل از اسلام مشرق وسطی کی سیاسی تاریخ مرتب کی اور باطنی تحریک نیز فلسفے پر انگریزی، عربی اور فارسی کتابوں کے ترجمے کئے۔ انھوں نے مجموعی طور پر 35 کتابیں مرتب کیں۔ وہ اردو ترقی بورڈ (پاکستان) سے بھی وابستہ رہے، جہاں انھوں نے اک عظیم اردو لغت کی تیاری میں اہم کردار ادا کیا۔

جون ایلیا کا مزاج بچپن سے عاشقانہ تھا۔ وہ اکثر تصور میں اپنی محبوبہ سے باتیں کرتے رہتے تھے۔ بارہ برس کی عمر میں وہ اک خیالی محبوبہ صوفیہ کو خطوط بھی لکھتے رہے۔ پھر نوجوانی میں اک لڑکی فارہہ سے عشق کیا جسے وہ زندگی بھر یاد کرتے رہے، لیکن اس سے کبھی اظہار عشق نہیں کیا۔ ان کے عشق میں اک عجیب انانیت تھی اور وہ اظہار عشق کو اک ذلیل حرکت سمجھتے تھے۔ "حسن سے عرض شوق نہ کرنا حسن کو زک پہنچانا ہے / ہم نے عرض شوق نہ کر کے حسن کو زک پہنچائی ہے” اس طرح انھوں نے اپنے طور پر عشق کی تاریخ کی ان تمام حسیناؤں سے،ان کے عاشقوں کی طرف سے انتقام لیا جن کے دل ان حسیناؤں نے توڑے تھے۔ یہ اردو کی عشقیہ شاعری میں جون ایلیا کا پہلا کارنامہ ہے۔

جس زمانہ میں جون ایلیا "انشاء” میں کام کر رہے تھے، ان کی ملاقات مشہور جرنلسٹ اور افسانہ نگار زاہدہ حنا سے ہوئی۔ 1970 میں دونوں نے شادی کر لی۔ زاہدہ حنا نے ان کی بہت اچھی طرح دیکھ بھال کی اور وہ ان کے ساتھ خوش بھی رہے لیکن دونوں کے مزاجوں کے فرق نے دھیرے دھیرے اپنا رنگ دکھایا۔ یہ دو اناؤں کا ٹکراؤ تھا اور دونوں میں سے ایک بھی خود کو بدلنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ آخر تین بچوں کی پیدائش کے بعد دونوں کی طلاق ہو گئی۔

جون ایلیا کی شخصیت کا نقشہ ان کے دوست قمر رضی نے اس طرح پیش کیا ہے۔ ’’ایک زود رنج مگر بے حد مخلص دوست، اک شفیق اور بے تکلف استاد، اپنے خیالات میں ڈوبا ہوا راہگیر، اک مرعوب کن شریک بحث، ایک مغرور فلسفی، اک فوراً رو دینے والا غمگسار، ناروا حد تک خود دار اور سرکش عاشق، ہر وقت تمباکو نوشی میں مبتلا رہنے والا خلوت پسند، انجمن ساز، بہت ہی ناتواں مگر ساری دنیا سے بیک وقت جھگڑا مول لے لینے کا خوگر، سارے زمانے کو اپنا محرم بنا لینے والا نامحرم، حد درجہ غیر ذمہ دار، بیمار، ایک شدید الحس نادرہ کار شاعر، یہ ہے وہ فن کار جسے جون ایلیا کہتے ہیں۔‘‘

جون ایلیا نے پاکستان پہنچتے ہی اپنی شاعری کے جھنڈے گاڑ دئے تھے۔ شاعری کے ساتھ ساتھ ان کے پڑھنے کے ڈرامائی انداز سے بھی سامعین محظوظ ہوتے تھے۔ ان کی شرکت مشاعروں کی کامیابی کی ضمانت تھی۔ نامور شاعر ان مشاعروں میں، جن میں جون ایلیا بھی ہوں، شرکت سے گھبراتے تھے۔ جون ایلیا کو عجوبہ بن کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا شوق تھا۔ اپنے لمبے لمبے بالوں کے ساتھ ایسے کپڑے پہننا جن سے ان کی جنس ہی مشتبہ ہو جاے، گرمیوں میں کمبل اوڑھ کر نکلنا، رات کے وقت دھوپ کا چشمہ لگانا، کھڑاؤں پہن کر دور دور تک لوگوں سے ملنے چلے جانا، ان کے لئے عام بات تھی۔

زاہدہ حنا سے علیحدگی جون ایلیا کے لئے بڑا صدمہ تھی۔ عرصہ تک وہ نیم تاریک کمرے میں تنہا بیٹھے رہے۔ سگرٹ اور شراب کی کثرت نے ان کی صحت بہت خراب کر دی، ان کے دونوں پھیپھڑے بیکار ہو گئے۔ وہ خون تھوکتے رہے لیکن شراب نوشی سے باز نہیں آئے۔ 8نومبر 2002ء کو ان کی موت ہو گئی۔ اپنی زندگی کی طرح وہ اپنی شاعری کی اشاعت کی طرف سے بھی لاپروا تھے۔ 1990ء میں تقریباً ساٹھ سال کی عمر میں لوگوں کے اصرار پر انھوں نے اپنا پہلا مجموعہ کلام "شاید” شائع کرایا۔ اس کے بعد ان کے کئی مجموعے "گویا”، لیکن”، یعنی”، اور "گمان” شائع ہوئے۔

جون ایلیا بڑے شاعر ہیں تو اس لئے نہیں کہ ان کی شاعری ان تمام کسوٹیوں پر کھری اترتی ہے جو صدیوں کی شعری روایت اور تنقیدی معیارات کے تحت قائم ہوئی ہے۔ وہ بڑے شاعر اس لئے ہیں کہ شاعری کے سب سے بڑے موضوع انسان کی جذباتی اور نفسیاتی کیفیات پر جیسے اشعار جون ایلیا نے کہے ہیں، اردو شاعری کی روایت میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ کیفیت کو احساس کی شدّت کے ساتھ قاری یا سامع تک منتقل کر نے کی جو صلاحیت جون کے یہاں ہے، اس کی مثال اردو شاعری میں صرف میر تقی میر کے یہاں ملتی ہے۔

تبصرے بند ہیں.