انتشار کب تھمے گا؟

29

نہایت افسوس کی بات ہے کہ ملک کے بارے میں کوئی اچھی اور مثبت خبر ہمیں کم ہی سننے کو ملتی ہے۔ البتہ ہر روز ایک نیا بحران سر اٹھا لیتا ہے۔گزشتہ کئی سالوں سے ملک کی نازک معاشی صورتحال کی خبریں تواتر کیساتھ میڈیا کی زینت بنتی رہی ہیں۔اب اطلاعات ہیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی کاوشیں رنگ لے آئی ہیں۔ چین اور سعودی عرب نے تیرہ ارب ڈالر کی امداد کی یقین دہانی کروا دی ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ دوست ممالک سے ملنے والی مالی امداد پر خوشی منائیں یا افسوس کا اظہار کریں۔ اللہ کے فضل سے پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے۔ اصولی طور پر جوہری قوت کے حامل ملک کو غیر ملکی امداد کی حاجت سے ماوریٰ ہو نا چاہیے۔ لیکن  افسوس کہ مانگے تانگے کی رقم سے معیشت کی نبضیں بحال رکھنا ہمارا معمول ہے۔ ستر برس گزرنے کے بعد بھی ہم اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہو سکے۔سیاسی عدم استحکام اور عدم تسلسل کی وجہ سے ہمارا ملک آج تک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکا۔پاکستان کے داخلی سیاسی حالات اس کے معاشی طاقت بننے کی راہ میں ہمیشہ حائل رہے۔ جب بھی ہم ایک قدم آگے بڑھے، دو قدم پیچھے کی جانب لڑھک گئے۔امدادی رقوم پر انحصار کرنے کی ہماری عادت اس قدر پختہ ہو چکی ہے کہ کسی ملک یا عالمی ادارے سے امداد مل جائے تو اظہار خوشی کیا جاتا ہے۔ غنیمت ہو، اگر امدادی رقم کی وجہ سے معیشت کو کچھ استحکام نصیب ہو جائے۔ لیکن یہ بھی ناممکنا ت میں سے ہے۔ اس کی وجہ ہمارے سیاسی رویے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ سیاسی بے یقینی اور انتشار جس شے کو سب سے پہلے نگلتا ہے وہ ملک کی معیشت ہے۔ پاکستان میں برسوں سے سانپ سیڑھی کا یہ کھیل جاری ہے۔ آج بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔
اندازہ کیجئے کہ کسی ملک کا سیاسی منظرنامہ کچھ یوں ہو کہ کسی اپوزیشن جماعت نے سیاسی احتجاج کی کال دی ہو۔ حکومت گرانے کی کوششیں ہونے لگیں۔حساس اداروں کو سر عام للکار اجائے۔ الزام تراشی کا ایسا شور اٹھے کہ عوام الناس سچ جھوٹ کی پہچان بھولنے لگیں۔ جلاؤ گھیراؤ کی باتیں ہورہی ہوں۔اہم سرکاری عمارتوں پر حملے کئے جائیں۔ ان حالات میں کون سا ملک یا غیر ملکی کمپنی  اس ملک میں سرمایہ کاری کرنے یا قرض دینے پر پر آمادہ ہو گی؟ کوئی ملک یا کمپنی تو دور کی بات، بے یقینی اور ماردھاڑ کی ایسی کیفیت میں کو ئی عام سا شہری کریانے کی نئی دکان کھولنے سے پہلے بھی سو مرتبہ سوچے گا۔ یہ بات ہماری قومی یاداشت کا حصہ ہے کہ 2014 میں جاری دھرنے کے ہنگام میں چینی صدر شی جی پنگ کا دورہ پاکستان التواء کا شکار ہو گیا تھا۔حکومت پاکستان کی یقین دہانی کے باوجود چینی صدر کی سیکیورٹی کے پیش نظر چین نے طے شدہ دورہ ملتوی کر دیا تھا۔پینتالیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے منصوبے ایک لمبے عرصے تک طاق میں پڑے رہے۔پاکستان کے بجائے چینی صدر نے بھارت کا رخ کیا اور کئی ارب ڈالر کے معاہدے طے کر کے لوٹے۔ تشویش کی بات ہے کہ سیاسی افراتفری کی کیفیت آج بھی یہی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی بھاگ دوڑ کے نتیجے میں خواہ  چینی یوان کی بارش ہونے لگے ہو یا سعودی عرب ہماری جھولی ریالوں سے بھر دے، اقتصادی صورتحال میں بہتری کے امکانات نہایت مدھم ہیں۔
عمران خان کے لانگ مارچ کے دوران ہونے والی فائرنگ نے سیاسی استحکام اور مصالحت کی امید کو مزید کم کر دیا ہے۔ عمران خان نے عندیہ دیا ہے کہ جیسے ہی ان کی صحت بحال ہو تی ہے، وہ ایک مرتبہ پھرمنگل سے دارلحکومت اسلام آباد کا رخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے اپنے اوپر ہونے والے حملے کا الزام وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور ایک فوجی افسر پر دھر دیا ہے۔سیاسی اور قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ شواہد کے بغیر اس طرح کی الزام تراشی ناقابل جواز ہے۔ اس قصے کایہ پہلو بھی زیر بحث ہے کہ صوبہ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ سو عمران خان کی حفاظت کی ذمہ داری بھی پنجاب حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے۔ یہ معمہ بھی حل نہیں ہو سکا کہ عمران خان جیسے اہم سیاست دان کو گولی کا نشانہ بنے کئی دن بیت چکے ہیں۔لیکن تاحال ایف آئی آر درج نہیں ہو سکی ہے۔عمران خان کو گولی لگنے کے بعد پنجاب پولیس کی تحویل میں لئے گئے ملزم کے اعتراف جرم پر مبنی ویڈیو لیک بھی ایک راز معلوم ہوتا ہے۔ اس سیاسی افراتفری کے ہنگام میں تحریک انصاف کے رہنما اعظم سواتی کی ایک غیر اخلاقی ویڈیو لیک کی خبریں بھی میڈیا میں زیر بحث ہیں۔ سمجھ نہیں آتا کہ یہ انتشار کہاں جا کر رکے گا؟
ایک طرف سیاسی بے یقینی کی کیفیت ہے۔ دوسری طرف سیاسی تفریق کی لکیریں مزید گہری ہوتی جا رہی ہیں۔ سیاسی انتہاپسندی بھی اپنے عروج پر ہے۔قومی سیاست تو جیسے کفر اور ایمان کی جنگ بن گئی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے انتہا پسند پیروکار ایک دوسرے کے لہو کے پیاسے نظر آتے ہیں۔ سیاسی کارکنان ایک دوسرے کے خلاف غیر اخلاقی نعرے بازی اور گالی گلوچ کر کے انتہا پسندی میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ دو دن پہلے ہی لاہور کے گورنر ہاؤس پر ایک جماعت کے مشتعل حامیوں نے دھاوا بول دیا۔ کوئی ان سے یہ پوچھے کہ غریب عوام کے ٹیکس کی رقم پر انحصار کرتی سرکاری عمارتوں اور دفاتر کی توڑ پھوڑ کرنے سے بھلا کیا حاصل ہو گا؟ ٹائر جلانا، سڑکیں بلاک کرنا، پولیس کے جوانوں کو برا بھلا کہنا، انہیں للکارنا، کہاں کی سیاست ہے؟ یہ سب کوئی پسندیدہ عمل نہیں ہیں۔ مزید ناپسندیدہ بات یہ ہے کہ پاک فوج کے خلاف اشتعال اور نفرت پھیلانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ سنتے ہیں کہ چند دن پہلے پشاور کور کمانڈر کے گھر کے باہر بھی سیاسی کارکنان کے ایک غول نے طوفان اٹھائے رکھا۔یہ سب مناظر دیکھ کر خیال آتا ہے کہ سیاسی انتشار کا یہ سلسلہ آگے ہی آگے بڑھتا جا رہا ہے۔ کاش ہمارے ارباب اختیار حکمیمانہ طرز عمل اختیار کریں۔ سیاست دانوں کا فرض ہے کہ نفرت کا الاؤ بھڑکانے، اشتعال پھیلانے اور تفریق کی لکیریں مزید گہری کرنے کے بجائے تحمل و بردباری کا مظاہرہ کریں۔ اپنے پیروکارو ں اور حامیوں کو مشتعل کرنے کے بجائے انہیں قانون کی پاسداری اور اخلاقی حدود کی پابندی کا درس دیں۔ احتجاج کرنا ہر شہری کا جمہوری حق ہے۔ مگر انتشار پھیلانے اور قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت ہرگز نہیں دی جا سکتی۔

تبصرے بند ہیں.