تین مضامین پہ ایک کالم

12

قارئین کرام، جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے کہ زیرِ نظر کالم اپنے اندر تین مختلف موضوعات لیے ہوئے ہے، تو پہلا موضوع ہے ’سانحات پہ الزامات سے گریز کی ضرورت‘۔ تو اس سلسلے میں یہ دہرانے کی ضرورت نہیں کہ سینئر صحافی ارشد شریف کا بہیمانہ قتل بلا شبہ مرحوم کے گھر والوں دوستوں اور ملک کے عوام کے لیے ایک سانحہ ہے۔ ایک ذہین صحافی سماج کی آنکھ اور کان ہوتا ہے اور یوں اس قیمتی زندگی کا اچانک اور اس طرح بے دردی سے ختم ہو جانا بلاشبہ رنج و الم کا باعث ہے۔ ارشد شریف کی موت پر یہی احساس پاکستانی عوام کا ہے۔ ان کا قتل جن حالات میں ہوا پاکستانی عوام اس بارے حقائق سے پوری طرح آگاہ نہیں۔ جو کچھ کینیا کی پولیس کی جانب سے مختلف بیانات میں کہا گیا ہے اس سے تو یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ بھیانک واقعہ پولیس کی غلطی کا نتیجہ تھا؛ تاہم کینیا ہی کے صحافتی حلقے وقوعے کے حالات و واقعات کا جائزہ لینے کے بعد جو سوال اٹھا رہے ہیں اس سے پولیس کے بیان پر شبہات ظاہر ہوتے ہیں اور کینیا کی پولیس کی پیشہ ورانہ اہلیت اور قوانین کی خلاف ورزیوں کا ریکارڈ ان شبہات کو تقویت دیتا ہے؛ چنانچہ ان شبہات کے ازالے کے لیے اس وقوعے کی جامع تفتیش ضروری ہے۔ دوسری جانب اس اندوہناک واقعے کو بنیاد بنا کر قیاس آرائی اور الزام تراشی سے گریز بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ خوش آئند بات ہے کہ حکومت نے جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے جس میں سول سوسائٹی اور صحافتی تنظیموں کے نمائندے کو شامل کرنے کا بھی کہا گیا ہے۔ پاک فوج کی جانب سے بھی حکومت سے اس افسوسناک واقعے کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے گزشتہ روز ایک نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ تحقیقات ان حالات ہی کی نہیں ہونی چاہئیں کہ وہاں پر کیا ہوا بلکہ ان حالات کی بھی ہونی چاہئیں کہ ارشد شریف کو پاکستان سے کیوں جانا پڑا، کس نے ان کو جانے پہ مجبور کیا اور کیسے گئے اور اس دوران کہاں پر رہے۔ یہ سبھی نکات یقینا اس کیس کے حوالے سے بہت اہم ہوں گے اور جامع تحقیقات ہی سے اصل صورتحال سامنے آ سکتی ہے جو اس دلخراش واقعے کا سبب بنی۔ ایک ذہین اور معروف صحافی کی موت جہاں باعثِ رنج و الم ہے وہیں اس وقوعے پر قیاس آرائیوں اور الزام تراشی کا سلسلہ بھی نہایت افسوسناک ہیں۔ ماضی میں بھی یہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے افسوسناک واقعات کی آڑ میں الزام تراشی اور من گھڑت الزامات لگائے جاتے رہے ہیں جن کا نتیجہ سماجی انتشار اور بے یقینی میں اضافے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ اس معاملے میں سنجیدگی اور ذمہ داری کا ثبوت دیا جائے۔ سوشل میڈیا اس جدید دور میں پروپیگنڈا کا سب سے موثر ہتھیار ہے سیاسی رہنماؤں سے یہ ڈھکا چھپا نہیں؛ چنانچہ سیاسی قیادت کا فرض ہے کہ ان حالات میں ایسا بیانیہ اختیار کیا جائے جو پروپیگنڈے کا توڑ کرے اور سماج میں اعتماد حوصلہ اور ہم آہنگی کے فروغ کا سبب بنے۔ سیاسی قائدین کی باتوں کا اپنا وزن ہوتا ہے۔ اگر مخالف دھڑے کے لوگوں پہ یہ بات موثر اثر نہ بھی کرے مگر اپنے طرف داروں کیلئے تو یقینا یہ اثر رکھتی ہے اس لیے جب کسی جماعت کی قیادت کی جانب سے کوئی قیاس آرائی یا بے بنیاد بات کی جاتی ہے تو سماج کے
لیے اس کا اثر زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے۔ اس میں کوئی
شبہ نہیں کہ معاشی اور سیاسی لحاظ سے وطن عزیز کو نامساعد حالات کا سامنا ہے مگر غور سے دیکھا جائے تو یہ حالات صرف یہیں نہیں کساد بازاری اور افراطِ زر کا مسئلہ متعدد مضبوط معیشتوں کی جڑیں ہلا چکا ہے مگر دانش مند سیاسی قیادت ایسے حالات کو احتیاط سے سنبھالنے کی کوشش کرتی ہے جبکہ جذباتی اور موقع کی تاک میں رہنے والے فائدہ اٹھانے کی غرض سے حقائق اور واقعات کا استحصال کرتے ہیں۔ اگر کل ملا کر دیکھا جائے تو یہ سوچ اور عمل ملک معاشرے اور سیاست سبھی کے لیے نقصان دہ ہے۔ خاص طور پر پاکستان جیسے ممالک میں جہاں کی آبادی اور مسائل زیادہ اور گمبھیر ہیں ایسے حالات خوفناک نتائج کا سبب بن سکتے ہیں۔ہما را دوسرا موضوع وطنِ عزیز میں ڈینگی کے پھیلاؤ اور اس کے
لیے ادویات کی نایابی کے بارے میں ہے۔ اس موضوع پہ لکھنا یوں ضروری ہے کہ ایک عرصہ سے جاری سیاسی کشمکش کی بنا پر ڈینگی پہ توجہ نہ دیئے جانے کی وجہ سے ملک میں اس خطرناک بیماری کے کیسز میں اضافہ ہوئے جا رہا ہے تو دوسری طرف قیمت میں اضافے کے باوجود بخار کی دوا مارکیٹ سے تاحال غائب ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق گزشتہ چند روز کے دوران ملک میں ڈینگی بخار کے کیسوں میں 30 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ محکمہ صحت پنجاب کے مطابق اگلے روز پنجاب میں 24 گھنٹوں کے دوران ڈینگی انفیکشن کے 293 کیسز رپورٹ ہونے کے بعد ان کی مجموعی تعداد ساڑھے تیرہ ہزار سے زائد ہو چکی ہے جبکہ ایک غیر سرکاری ادارے کے مطابق ڈینگی کے مثبت کیسز کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جو سرکاری طور پر بتائی جا رہی ہے۔ ڈینگی بخار کے پھیلاؤ اور پیراسیٹامول فارمولے کی بخار کی دوا کی عدم دستیابی نے مریضوں کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔ گو کہ اس وقت قیمتوں میں رد و بدل کو دوا کی قلت کا جواز بتایا جا رہا ہے مگر دیکھا گیا ہے کہ ڈینگی کے سیزن میں عمومی طور پر بخار کی دوا مارکیٹ سے غائب کر دی جاتی ہے اور اس کے پیچھے بلیک مارکیٹنگ کی سوچ کارفرما ہوتی ہے۔ ڈینگی کے بڑھتے کیسز اور طلب کو مدنظر رکھتے ہوئے حکام کو فوری طور پر بخار کی دوا کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے۔ عوام کو صحت کی سستی اور معیاری سہولتوں کی فراہمی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے جسے بجا طور پر پورا کیا جانا چاہیے۔
قارئین کرام، اب ایسا بھی نہیں کہ وطنِ عزیز میں سب بُری خبریں ہی ہیں۔ محبِ وطن ہونے کے ناتے وطن کے بارے کے بارے میں کوئی اچھی خبر
مل جانے پر آپ سے شیئر کرنا میرا فرض ہے۔ وہ اچھی خبر کچھ یوں ہے کہ تیل اور گیس کی دریافت کے شعبے کی سرکاری کمپنی او جی ڈی سی ایل نے پنجاب کے ضلع اٹک میں تیل اور گیس کے نئے ذخائر دریافت کیے ہیں۔ یہ دریافت اٹک میں کمپنی آپریٹڈ ویل توت ڈیپ ون سے ہوئی ہے۔ اس کنویں سے یومیہ 882 بیرل تیل اور 0.93 ملین کیوبک فٹ قدرتی گیس حاصل ہو گی۔ یہ خبر خوش کن ہے کہ ان ذخائر سے ملکی ضروریات کے لیے سستا تیل نظام میں شامل ہو گا لیکن تیل کی دریافت کی ایسی خبریں آئے روز سننے کو ملتی ہیں۔ رواں مہینے کے آغاز میں ہی پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ نے سندھ کے ضلع سانگھڑ میں تیل اور گیس کے نئے ذخائر کی دریافت کی خوش خبری سنائی تھی۔ اس سے قبل رواں سال جون میں بھی او جی ڈی سی ایل نے پنجاب اور سندھ میں تیل اور گیس کے بڑے ذخائر کی دریافت کا اعلان کیا تھا۔ ہر سال ملک میں تیل کے بیشتر ذخائر دریافت ہوتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ملک میں تیل اور گیس کے ذخائر موجود ہیں تو انہیں پوری طرح بروئے کار کیوں نہیں لایا جاتا۔ کیوں ملک کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے درآمدات پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ دنیا میں تیل اور گیس کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتوں کے پیش نظر مقامی طور پر تیل کی دریافت کسی نعمت سے کم نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت تیل اورگیس کی مقامی پیداوار میں اضافے کی سعی کرے تا کہ درآمدات پر انحصار کم کر کے نہ صرف قیمتی زرمبادلہ بچایا ج اسکے بلکہ عوام کو بھی سستے تیل کی صورت میں کچھ ریلیف میسر آ سکے۔
محکمہ موسمیات نے چند دنوں میں ملک بھر میں بارش کی پیش گوئی کردی ہے۔ کراچی سمیت سندھ کے مختلف شہروں میں 6اور7نومبرکو تیز

تبصرے بند ہیں.