آہیں، آنسو، سسکیاں اور ہچکیاں!

62

کتنا بڑا المیہ ہے جس نے پوری دنیا میں ہمیں رُسوا اور ننگا کرکے رکھ دیا ہے ہمارے ہاں کوئی واقعہ کوئی سانحہ ہو جائے اُس کے اصل حقائق کبھی سامنے نہیں آتے اُس پر لوگ اپنے اپنے مفادات کے مطابق بھانت بھانت کی بولیاں بولنا شروع کردیتے ہیں۔ اپنے مخالفین پر الزام لگانا شروع کردیتے ہیں۔ اِس سے لوگوں کو ذاتی فوائد تو یقیناً حاصل ہوجاتے ہوں گے، یا اُن کے مذموم مقاصد یقیناً پورے ہوجاتے ہوں گے، مگر پاکستان کی جوبدنامی اِس سے پوری دنیا میں ہوتی ہے اُس کا کِسی کو احساس نہیں ہے، یہاں سب کو اپنی اپنی پڑی ہے، کوئی کُرسی بچانے کے لیے گھٹیاکارنامے کررہے ہیں، اور کوئی کُرسی حاصل کرنے کے لیے کررہے ہیں، …… کُرسی کی کھینچا تانی میں ملک زخموں سے جِس طرح چُورچُوراور تارتار ہے اُس کا اندازہ صِرف وہی کرسکتے ہیں پاکستان سے جو ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں۔ اُس کا اندازہ ہم جیسے نہیں کرسکتے جنہوں نے حسبِ توفیق اپنی بداعمالیوں سے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی ہرممکن کوشش کی، خُدا کی قسم یہ ملک خُدا کی خاص رحمت، کرم، ترس، فضل اور خصوصی رحم کے نتیجے میں اب تک بچا یا ”بچا کھچا“ ہوا ہے ورنہ ہم نے اِسے صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی، یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے، …… جِس جِس قسم کے کھیل تماشے گزشتہ ستربرسوں سے اِس ملک میں ہورہے ہیں اُس کے نتیجے میں ملک چیخ وپکار کررہا ہے کہ خدا کے لیے میری جان اب چھوڑ دیں، مجھے اور کتنا کھانا ہے؟۔ مجھے اور کتنا چبانا ہے؟میرا خون اور کتنا پینا ہے؟، میری ہڈیوں سے کتنا گودا اور نکالنا ہے؟، مجھے اور کتنا نوچنا ہے؟۔……”بڑے لوگوں“ کی چھوٹی اورجھوٹی اناؤں نے سب کچھ تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا، اخلاقیات کا جنازہ نکل گیا، پوری دنیا میں جتناجھوٹ بولا جاتا ہے اُس سے کہیں زیادہ صرف ایک دِن میں پاکستان میں بولا جاتا ہے، خصوصاً ہمارے سیاسی واصلی حکمران اور ہمارے میڈیا سے وابستہ بے شمار لوگ اِس عمل کو باقاعدہ ایک ”کارِ ثواب“ سمجھ کر کرتے ہیں، وہ ”ایمان“ کی حدتک اِس یقین میں مبتلا ہیں وہ اگر سچ بولیں گے اُنہیں اِس کا سخت گناہ ہوگا، سچ بولنے پر وہ کِسی ”عذاب“ میں مبتلا ہو جائیں گے، اور جھوٹ بول بول کر جِن عذابوں سے اِس ملک کو اُنہوں نے دوچار کررکھا ہے وہ یہ سمجھتے ہیں اُس کا حساب یہاں کوئی اُن سے لے گا نہ آخرت میں لے گا …… ہمارے ہر معاملے میں جو بے برکتی ہے وہ صرف اور صِرف ہمارے ”جھوٹوں“ کی وجہ سے ہے، ہماری منافقتوں کی وجہ سے ہے اور اُن ظلموں کی وجہ سے ہے جو صبح و شام دوسروں پر ہم کرتے ہیں، لوگوں کے حق مارتے ہیں، میرے نزدیک کِسی کا حق مارنا کِسی کو مارنے کے مترادف ہے، المیہ یہ ہے ہمارے ہاں جو جھوٹ بول کر ہیروبننا چاہتا ہے وہ بنتا جارہا ہے، اتنا جھوٹ بولا جارہا ہے کہ جھوٹ اور سچ میں تمیز کرنا مشکل ہوگیا ہے، پوری سوسائٹی بدتمیز ہو گئی ہے، پورا معاشرہ تباہ و برباد ہوگیا ہے، یہ کام خصوصاً گزشتہ چار پانچ برسوں میں باقاعدہ ایک ”مشن“ کے تحت ہوا، پاکستان میں یہ ایک ”مِشن“ بڑا کامیاب ہے دوسری ”کمیشن“ کامیاب ہے …… باقی سب کہانیاں ہیں ……خان صاحب پر حملے کا مجھے دُکھ ہے، اِس کے پیچھے جس کے جو بھی مقاصد ہیں، ایک مقصد میں سب بڑے کامیاب ہورہے ہیں کہ دنیا کے اِس تاثر کو وہ یقین میں بدل دیں پاکستان ہر لحاظ سے ایک غیرمحفوظ ملک ہے، مجھے لگتا ہے پاکستان کے دُشمنوں کو اِس بات کی بڑی گہری تکلیف ہے پاکستان کو فیٹف کی گرے لسٹ سے کیوں نکال دیا گیا ہے؟، وہ شاید پاکستان کو دوبارہ اِس لسٹ میں شامل کروانا چاہتے ہیں، ایک خاص بیرونی ایجنڈے کے تحت دوبارہ بدامنی کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے، کچھ ”اندرونی قوتیں“ بھی ضرور اِس میں شامل ہوں گی، جب تک چوکیدار چور سے مِل نہیں جاتا چور واردات ڈالنے میں پوری طرح کامیاب ہوہی نہیں سکتا، چوروں اور چوکیداروں کے ”گٹھ جوڑ“ نے پاکستان کو تباہ کرنے کی جو”واردات“ ڈالی اُس کی ایف آئی آر کہاں جاکے ہم لکھوائیں؟، پاکستان میں کون سا ایسا فورم کون سا ایسا ادارہ رہ گیا ہے جس کا کوئی بھرم کوئی ساکھ سلامت رہنے دی گئی ہو؟، سب سے بڑا المیہ اور سانحہ تو یہ ہے خود اِن اداروں میں بیٹھے ہوئے بے شمار لوگوں نے اُسی تھالی میں سوراخ کیے، جس میں وہ کھاتے رہے، یہ سلسلہ اللہ جانے کب ختم ہوگا؟، پاکستان کے دُکھ پاکستان کی سسکیاں اللہ جانے کب ختم ہوں گی؟،……غیر یقینی صورتحال ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی، روز ایک نیا ”کٹا“ کُھل جاتا ہے، …… لوگوں کے اصل مسائل کیا ہیں؟، سیلاب زرگان پر کیا بیت رہی ہے؟، تھانے کچہریوں ہسپتالوں میں لوگوں پر کیا ظلم ہورہے ہیں؟ کسی کو کوئی پروا نہیں ہے، …… بڑے بڑے عہدوں پر چھوٹے چھوٹے بونے آکر بیٹھ گئے، خصوصاً جس قسم کا ”کھسرانہ پن“ ہمارے بے شمار اعلیٰ افسران میں دیکھنے کو اب ملتا ہے اُس کی کوئی مثال نہیں مِلتی، اور جن کا کبھی سب سے زیادہ احترام سب سے زیادہ وقار ہوا کرتا تھا، جنہیں انتہائی محبت بھری نظروں سے لوگ دیکھتے تھے وہ بھی اب منہ چھپائے پھرتے ہیں، کبھی اُن کی ”قوت فیصلہ“ پوری دنیا میں مشہورتھی، اب چھوٹے چھوٹے فیصلے کرتے ہوئے بھی وہ گھبرائے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، …… مایوسی اِس قدر بڑھتی اور پھیلتی جارہی ہے بڑی تیزی سے لوگ ملک چھوڑتے جارہے ہیں، ہر کاروبار یہاں تباہ ہے سوائے کرپشن کے کاروبار کے ……مختلف اداروں میں پہلے چھوٹی چھوٹی جوئیں اور جونکیں ہوتی تھیں جو آہستہ آہستہ اِن اداروں کا خون چوستی رہتی تھیں، اب بڑے بڑے سانپ بڑے بڑے اژدھے بڑے بڑے مگرمچھ یہاں آکر بیٹھ گئے۔ پورے کے پورے ادارے اُن کے پاپی پیٹوں میں  اُتر گئے، ریاست کا کوئی ستون سلامت نہیں بچا، صرف آہیں، آنسو، سسکیاں اور ہچکیاں سلامت ہیں!!

تبصرے بند ہیں.