لانگ مارچ۔۔خطرناک موڑ

15

کپتان نے بالآخر ترپ کا پتا پھینک دیا۔ 28 اکتوبر بروز جمعہ لاہور کے لبرٹی چوک سے عوام کے ”سمندر“ کے ساتھ لانگ مارچ شروع کر دیاجو وزیر آباد میں حادثے کا شکار بھی ہو گیا۔ اس سے پہلے یہ لانگ مارچ تین جانیں لے چکا ہے۔

لانگ مارچ سے ایک روز قبل پی ٹی آئی کے اپنے رہنما اور کپتان کے دست راست فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس کے انکشافات نے لنکا ڈھا دی، اینکر ارشد شریف کی ناگہانی موت بلکہ سفاکانہ قتل سے عوام میں جو رد عمل اور جوش پیدا ہوا تھا وہ واوڈا کے اس انکشاف سے جھاگ کی طرح بیٹھ گیا کہ یہ اندرون ملک سازشی ٹولے کی کارروائی تھی جس کے تحت ارشد شریف کو زبردستی باہر بھیجا گیا۔

گولیاں کار کے اندر سے چلائی گئیں۔ آستین کے سانپوں نے اسے قتل کیا۔ آئندہ چند روز میں ان کے نام بھی بتا دوں گا۔ لانگ مارچ کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ میں اس میں خون ہی خون، موت ہی موت، جنازے ہی جنازے دیکھ رہا ہوں۔ کئی اہم شخصیات موت کے منہ میں جا سکتی ہیں والدین اپنے بچوں کو موت کی وادی میں نہ دھکیلیں۔

بہرحال لانگ مارچ شروع ہو گیا مگر ابتدا جھٹکوں سے ہوئی پہلا جھٹکا عوام گھروں سے نہ نکلے دوسرا جھٹکا اسی روز پی ٹی آئی کے رکن پنجاب اسمبلی خرم لغاری نے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔ بادیئ النظر میں لگتا ہے کہ جرنیلوں کی پریس کانفرنس کے بعد ٹائی ٹینک میں سوراخ ہو گیا ہے اور اس میں سوار افراد نے چھلانگیں لگانا شروع کر دی ہیں۔

کیسا لانگ مارچ ہے کہ کروڑوں کے خرچے سے کپتان کے لیے عالی شان کنٹینر تیار کیا گیا مگر کپتان نے رات زمان پارک کے گھر میں گزاری۔ لوگ بھی منڈوا ختم دیکھ کر گھر چلے گئے۔ دوسرے دن کپتان ایک بجے لانگ مارچ میں پہنچے تو وہاں وہی سو ڈیڑھ سو افراد خوش گپیاں کرتے نظر آئے۔

اس دوران اسد عمر کی مقامی رہنماؤں سے منہ ماری بھی ہوئی۔ مبینہ طور پر انہوں نے عوام کی کم تعداد پر ڈانٹ ڈپٹ کی واللہ اعلم لوگ کہتے ہیں کہ ہاتھا پائی بھی ہوئی، یہی حالات رہے تو اسلام آباد پہنچنے کی حسرت دم توڑ جائے گی۔ عوام کے ”بحیرہ عرب“ میں چند ہزار لوگ ہی رہ جائیں گے تاہم ایسی رپورٹ سامنے آ رہی ہیں کہ جہلم کے بعد اس میں خیبر پختونخوا اور پہاڑوں سے اترنے والے جتھے شامل ہو جائیں گے جس کے بعد ہلا گلا ہو گا جسے شیخ رشید نے خونیں لانگ مارچ کا نام دیا تھا مگر وائے ناکامی۔ ”وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا“ یا خلیل خان مراد شیخ رشید فاختہ اڑایا کرتے تھے۔

جھوٹی اپیل پر امپائر کی انگلی کے اشارے پر بیٹسمین کو پویلین واپس بجھوانے والا بالر کریز سے پاؤں باہر نکالنے پر باہر کر دیا گیا۔ کہنے کو حکومت گرانے نکلے ہیں لیکن اصل مقصد اپنی مرضی کا آرمی چیف لگوانا ہے۔ جنرل ندیم انجم اس سے قبل پریس کانفرنس میں کہہ چکے کہ جھوٹ اتنی روانی اور فراوانی سے بولاجائے کہ ملک کے استحکام کے لیے خطرہ بن جائے تو لمبی خاموشی درست نہیں ادارے کے خلاف الزامات اور منفی پراپیگنڈہ سے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے۔

دن کے اجالے میں جنہیں غدار کہا گیا ماضی قریب میں ان کی تعریفوں کے پل کیوں باندھے جاتے تھے۔ طویل پریس کانفرنس میں انہوں نے کپتان کے اصل روپ کو قوم کے سامنے پیش کر دیا۔ سیاست سے ہاتھ اٹھا لیا تو کپتان مزید غیض و غضب کا شکار ہو گئے۔ انہوں نے لانگ مارچ کے آغاز میں خطاب کرتے ہوئے جسے ڈرٹی ہیری کہتے تھے اس کا نام لے دیا سیکٹر کمانڈر کا نام لے کر دھمکیاں دیں۔ضد اور انا نے کپتان کو فوج کے مقابل لا کھڑا کیا ہے۔ وہ ریاست کے اہم راز افشا کرنے کی دھمکیوں پر اتر آئے ہیں۔ جس پر بھارتی پریس نے انہیں اپنا ”فیورٹ باس“ قرار دیتے ہوئے تالیاں بجا کر کہا ہے کہ آئی ایس آئی کے پول کھولنے پر عمران خان کو دس سال
تک وزیر اعظم بنا دیا جائے تو پاکستان کے تین ٹکڑے کرنے کا بھارت کا وہ خواب پورا ہو جائے گا جو گزشتہ 75 سال میں تین جنگوں کے باوجود بھارتی حاصل نہیں کر سکے۔

بھارتی ٹیلیویژن پر عمران کی جے کے نعرے قابل مذمت ہی نہیں حکومت پاکستان اور حساس اداروں کے لیے بھی قابل غور اور لمحہ فکریہ ہیں۔ عمرانی سیاست کے خطرناک موڑ صرف ان کے لیے نہیں پورے ملک کے لیے حادثات کا سبب بن سکتے ہیں۔ لانگ مارچ بلا مقصد ہے انتخابات آئندہ سال اگست ستمبر یا اکتوبر تک ہی ہوں گے۔

لانگ مارچ کے 4 نومبر کو اسلام آباد پہنچنے تک آئندہ آرمی چیف کا نام فائنل ہو چکا ہو گا پھر مغز ماری کیوں؟ باخبر ذرائع کے مطابق 6 نومبر کو چیف الیکشن کمشنر فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنائیں گے۔ اس لیے کپتان کی مجبوری ہے لانگ مارچ ضروری ہے وہ دندناتے ہوئے شہر اقتدار میں پہنچ کر دھرنا دیں گے تاکہ الیکشن کمیشن پر دباؤ ڈالا جا سکے جو ان کی خام خیالی ہے انہوں نے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف جو زبان استعمال کی اس پر قوم یوتھ کے ایک پہلوان نما شخص نے عمرے کی ادائیگی کے موقع پر چیف الیکشن کمشنر اور ان کی فیملی کو قتل کرنے کی دھمکی دی۔ شیطان کھلکھلا کر ہنسا اور بولا ”سال بھر یاریاں عمرے تے غداریاں۔“

رند خانہ خراب گناہ بخشوانے آئے ہو یا مزید گناہ کرنے کے لیے مہلت کے خواہاں ہو۔ پہلوان نما شخص بھیس بدل کر واپس لوٹا تو ایف آئی اے نے ایئر پورٹ پر ہی اسے گرفتار کر لیا۔ شنید ہے کہ کپتان کی گرفتاری کا فیصلہ بھی کر لیا گیا تھا لیکن کسی ہینڈلر نے فیصلہ موخر کرا دیا۔

تاہم معطل نہیں ہوا جلد یا بدیر انہیں سیاست کے خطرناک موڑوں پر لگے آئینے نظر انداز کرنے پر کسی بھی نا گہانی حادثہ کا سامنا ہو سکتا ہے۔ چار سال کی رعایت دے دی گئی۔ لاڈ پیار سے پالا گیا دودھ پلا کر جوان کیا گیا۔ تخت پر بٹھا دیا گیا۔ ساری رکاوٹیں ختم کی گئیں کرپشن کے نام پر مخالفین کو چور ڈاکو کے القابات سے اس تواتر سے نوازا گیا کہ چور ڈاکو ان کے نام کا حصہ بن گئے۔

خبروں کے مطابق عین لانگ مارچ کے آغاز پر لندن میں قوم یوتھ کے چند افراد نے نواز شریف کی قیام گاہ کے سامنے نعرے بازی کی۔ ارشد شریف کی تصویر اٹھائے ہوئے تھے۔ نواز شریف کا ارشد شریف سے کیا تعلق لیکن حکم کپتان سر آنکھوں پر، نواز شریف کو گالیاں دیے بغیر کھانا ہضم نہیں ہوتا اس بار ن لیگ کے حامیوں کو بھی خبر ہو گئی اور انہوں نے گھڑی چور کے جوابی نعروں سے آنے والوں کا استقبال کیا اور انہیں فرار پر مجبور کر دیا۔ مقطع میں آ گئی ہے سخن گسترانہ بات۔

کپتان کا عوام کا سمندر لے کر شہر اقتدار پر حملہ آور ہونے کا ایجنڈا ناکام ہو گیا۔ ان کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ اسلام آباد پہنچتے پہنچتے اس قسم کے خطرناک حالات پیدا کر دیے جائیں گے کہ فوج مارشل لا لگانے پر مجبور ہو جائے گی مگر دو جرنیلوں کی پریس کانفرنس نے مارشل لا کے امکانات کو بھی مسترد کر دیا۔ حالانکہ لانگ مارچ سے دو تین دن قبل دو ثقہ قسم کے صحافیوں نے ذرائع کے حوالے سے بڑے وثوق کے ساتھ انکشاف کیا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے وفاقی حکومت سے کہا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے سربراہ سے مل بیٹھ کر مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کر لے بصورت دیگر ملک میں مارشل لا لگا دیا جائے گا۔

مذاکرات ہو گئے مگر یہ کسی دباؤ کے تحت نہیں تھے پی ٹی آئی کی سیکنڈ کمان کے تین افراد نے حکومت سے خود رابطہ کیا اور وہی دو مطالبات پیش کیے جو ایوان صدر میں جنرل قمر جاوید باجوہ کے سامنے رکھے تھے۔ یعنی عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان اور آرمی چیف کی تقرری باہمی مشاورت سے کرنے پر زور۔ وفاقی حکومت نے دونوں مطالبات مسترد کر دیے بتایا گیا کہ عام انتخابات آئندہ سال اگست اکتوبر سے پہلے نہیں ہو سکتے جہاں تک آرمی چیف کی تقرری کا مسئلہ ہے وہ بلا شرکت غیرے وزیر اعظم کی صوابدید ہے مذاکرات بلا نتیجہ ختم ہو گئے مارشل لا کہاں لگا۔

صحافی حضرات بھی بعض اوقات سنسنی پھیلانے کے لیے اس قسم کی خبریں پھیلاتے ہیں۔ معاملات طے پا گئے ہیں کہ فوج سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی۔ نواز شریف کا بھی یہی مطالبہ تھا کہ فوج اپنا آئینی کردار ادا کرے اور عوام کو حق رائے دہی کے مواقع فراہم کیے جائیں ان کے ووٹ کو عزت دی جائے بعد ازاں خرابیئ بسیار ان کا مطالبہ مان لیا گیا جو خوش آئند ہے۔ اس سے ملک میں سیاسی استحکام آئے گا لیکن حیرت انگیز طور پر کپتان اس سے ناخوش ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے غیر جانبدار ہونے پر صلواتیں سنا رہے ہیں۔

ان کی آرزو ہے کہ اسٹیبشلمنٹ انہیں پھر گود لے کر ماضی کی طرح اقتدار میں لے آئے۔ تحریک عدم اعتماد جمہوری طریقہ تھا جو اپنا کر انہیں اقتدار سے علیحدہ کیا گیا۔ مقبول لیڈر ہیں اپنے اتحادیوں کو واپس لے آئیں یا پھر عدالت سے رجوع کر کے پنجاب اسمبلی فارمولے کے تحت اتحادیوں کے ووٹوں کو بھی مسترد کرا دیں راستہ کلیئر ہو جائے گا۔ لیکن اب ہر طرف سے کہا جا رہا ہے کہ ”جن کو تہذیب نہ آداب محبت معلوم، ایسے لوگوں کو یہاں کون دوبارہ لائے۔“ چور چوکیدار کا فلسفہ بھی ناکام ہو گیا۔ انہیں بتایا گیا کہ چوکیدار باہر سے آنے والے چوروں کو پکڑتا ہے گھر والوں کو ڈسٹرب نہیں کرتا۔ نہ ہی گھر والوں کے معاملات میں مداخلت کرتا ہے۔ توشہ خانہ کیس اور فارن فنڈنگ کیس کے بعد چوکیدار الرٹ ہو گئے ہیں اور انہوں نے اپنے آئینی کردار کا برملا اظہار کر دیا ہے کہ آرٹیکل 245 کے تحت حکومت نے فوج بلانے کی درخواست کی تو فوج اپنا کردار ادا کرے گی۔ رانا ثنا اللہ نے شہر اقتدار کے تحفظ کے لیے فوج کو طلب کر لیا ہے۔

ایف 9 پارک سے آگے ریڈ زون تک تھری ٹائر انتظامات ہیں۔ پولیس، رینجرز، ایف سی اور فوج ڈی چوک تک پہنچنا نا ممکن پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے اچھے بچوں کی طرح اسلام آباد میں جلسہ اور دھرنے کی اجازت مانگی ہے۔ مگر وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ دو نومبر تک ان کا رویہ دیکھ کر اجازت دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کیا جائے گا۔

عمرانی سیاست خطرناک موڑ پر آ گئی ہے آستین کے سانپوں نے تمام بیانیوں کے پرخچے اڑا دیے ہیں جس کے بعد واضح ہو گیا کہ پلے پلائے بچے کو اچانک گود سے پھینک دیا گیا ہے۔ بچہ ہمک ہمک کر سرپرستوں کی دوبارہ گود لینے کے لیے ترلے منتیں کر رہا ہے مگر کہانی ختم ہونے کے قریب ہے قرائن بتا رہے ہیں کہ جہاں سے کارروائی کا آغاز ہوا تھا وہیں سے اختتام ہو گا۔ دھمکیاں نعرے، لانگ مارچ دھرنے کام نہیں آئیں گے۔ جنہوں نے کہانی شروع کی تھی وہی اسے انجام تک پہنچائیں گے۔

تبصرے بند ہیں.