فصل بہار کے آتے آتے کتنے گریباں چاک ہوئے

21

قارئین، وطن سے دور سات سمندر پار ایک ایسے دیس میں ہوں جہاں پت جھڑ یا خزاں کا موسم اتنا خوبصورت ہے تو یہاں بہار کیسی ہو گی؟ اودے اودے نیلے نیلے پیلے پیلے پیرہن، یہاں درختوں کے پتے سرخ سے نارنجی اورآخر میں پیلے ہو کر بکھر جاتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ ہر طرف درختوں نے سونا اگل دیا ہے۔ یہ کینیڈا ہے، جہاں ان دنوں ہر طرف قدرت کے رنگ بکھرے ہوئے ہیں،سڑکوں کے اطراف، پارکوں، گھروں کے لانز،چھتوں اور بالکونیوں میں ہر طرف رنگ بکھرے ہوئے ہیں،یہ قدرت کا کمال تو ہے ہی مگر کینیڈا کی حکومت اور یہاں کے شہریوں کی بھی قدرتی خوبصورتی کو سنبھالنے اور نکھارنے کی کوشش کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ ان دنوں یہاں خوبصورت ڈیزائین اور دلکش رنگوں والے گھنے،بلند چھتر دار درختوں اور پودوں کا سیلاب آیا ہوا ہے،کینیڈا جہاں ایک طرف قطب جنوبی کے بلند برفیلے پہاڑوں کا ایک طویل سلسلہ ہے، تو دوسری طرف درختوں کی خوبصورتی بھی کمال ہے۔
اور ایک ہمارا پیارا پاکستان
”موسم بدلا رت گدرائی،اہل جنوں بیباک ہوئے
فصل بہار کے آتے آتے کتنے گریباں چاک ہوئے،،
جی ہاں گرمی کی شدت میں کمی کیساتھ ہی ملک کا سیاسی درجہ حرارت نقطہ عروج پر ہے،قانون قدرت اگرچہ خزاں کے بعد بہار کی آمد ہوتی ہے،مگر موسم کی رت گدراتے ہی اہل سیاست نہ صرف بیباک ہو رہے ہیں بلکہ آپے سے بھی باہر ہو تے جا رہے ہیں،13جماعتی اتحاد اپنی بقاء اور حکومت کے استحکام کیلئے سرگرم ہے اور عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف تن تنہا بدلتے موسم کیساتھ لانگ مارچ کے ذریعے سیاسی تبدیلی کیلئے میدان میں ہے،وفاقی حکومت جس کا دائرہ کار اور اثر ورسوخ اسلام آباد کی حد تک محدود ہو چکا ہے لانگ مارچ کو ناکام بنانے بلکہ شرکاء اور تحریک انصاف کی قیادت کو خوفزدہ کرنے میں مصروف ہے،مگر عمران خان نے خوف کی چادر تار تار کر دی ہے اورکارکنوں کی بڑی تعداد کیساتھ اسلام آباد کی طرف رواں دواں ہیں،بدلتے موسم میں عمران خان کے کھلاڑیوں کا جذبہ و جنوں جوان اور عزم مصمم ہے،حکومتی ذرائع لانگ مارچ کو ناکام قرار دے رہے ہیں،رانا ثناء اللہ کہتے ہیں شرکاء کی تعداد دو سو سے زیادہ نہیں،نواز شریف دو ہزار قرار دے رہے ہیں،مریم اورنگزیب کے مطابق چند سو ہیں مریم نواز اسے خونیں مارچ قراردیتے ملک میں ماشل لاء نافذ کرانے کی سازش کہتی ہیں،مگر اسلام آباد میں لانگ مارچ کے شرکاء کو روکنے کیلئے کی جانے والی تیاری ان کے دعوؤں کی تردید کرتی ہے،ریڈ زون کی حدود کو وسعت دیکر زیرو پوائنٹ تک بڑھا دیا گیا،دارلحکومت کو کنٹینرز کا قبرستان بنا کر شہر میں داخل ہونے والی سڑکوں کو سیل کر دیا گیا ہے،جو اس بات کا ثبوت ہے کہ لانگ مارچ کے شرکاء کی تعداد حکومت کیلئے پریشانی کا باعث ہے۔ حکومت اس قدر حواس باختہ ہے کہ(صفحہ3پر بقیہ نمبر1)
ناقد صحافیوں کیخلاف محاذ کھول دیا گیا ہے، ہماری ایک بہن صدف نعیم صحافتی فرائض سر انجام دیتے زندگی کا انجام پا گئی، ارشد شریف کینیا میں پر اسرار طور پر جان سے چلے گئے،چودھری غلام حسین کو گرفتار کر لیا گیا،عدالت نے ان کی ضمانت منظور کی جس کے بعد ان کو رہائی ملی،صابر شاکر پہلے ہی بیرون ملک چلے
گئے تھے،اب پتہ نہیں کس کس کو بیرون ملک پناہ لینا پڑے گی، اہل صحافت پر وطن کی زمین تنگ کی جا رہی ہے اور ان کیخلاف متعدد ایف آئی آرز درج ہو رہی ہیں اور وہ ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرنے کیلئے عدالتوں سے رجوع کر رہے ہیں،دونوں جانب تبدیلی کا جنون ہے مگر اپنے اپنے طریقے اور مرضی کی تبدیلی،حالانکہ سب کو معلوم ہے ہر رات کا انجام دن ہے،خزاں کے بعد بہار کو آنا ہی ہے،اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ بہار کا استقبال رنگ و خوشبو،گل و گلزار،درختوں پر نئی شاخوں اور پتوں کو پھوٹتا دیکھیں یا موسم بہار کو خزاں سے بھی بد تر کر لیں۔
قادر و قدیر رب ذوالجلال نے ہمیں ایک بہت خوبصورت ملک سے نوازا ہے،پوری دنیا میں کہیں ایک کہیں دو اور کہیں تین موسم ہوتے ہیں بہت کم ممالک کے مکین چار موسموں کا لطف اٹھاتے ہیں مگر دست قدرت ہم پر مہربان ہوا اور ہمیں پانچ موسموں سے نوازا مگر ہم کسی بھی موسم سے لطف اندازنہیں ہوتے،موسم گرما میں لوڈ شیڈنگ کا جن بے قابو ہو جاتا ہے،سرما میں گیس کی قلت،برسات میں بارش اور سیلاب سے تباہی،خزاں میں سبزہ و گل سے لا تعلقی اور بہار میں رنگ و خوشبو سے بے نیاز،ایسے موسم میں جبکہ زمین اپنی زرخیزی اگلتی ہے ہم شجر کاری کی اہمیت سے بے خبر ہوتے ہیں،ہم وہ کوتاہ اندیش ہیں جو وطن عزیز کے گلشن کو بھی بنا سنوار نہ سکے،ذاتی سیاسی مفادات کیلئے ریاستی اداروں پر زہریلی تنقید تو اب فیشن بن چکا ہے،مگر دنیا میں شائد ہی کوئی قوم ہو گی جو اپنی فوج کے سپہ سالار پر،اس ادارہ پر جو ہماری ملکی سرحدوں ہی کے نہیں بلکہ نظریاتی سرحدوں کے بھی محافظ ہیں،جو آگ برساتے سورج اور حرارت اگلتی گرمی میں اگلے مورچوں پر دن رات وطن کی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں،ہڈیوں میں گود ا جماتی سردی میں برفیلی چوٹیوں پر وطن کی حفاظت کا فریضہ انجام دیتے ہیں،سنگلاخ پہاڑوں، لق و دق صحراؤں جہاں کوئی سہولت دستیاب نہیں،برستی گولیوں،پھٹتے بموں،بارودی سرنگوں کے درمیان جیتے ہیں تاکہ ہم سکھ کی نیند سو سکیں،مگر ہم نے اس معتبر معزز مقدس ادارے کے سربراہ کی تقرری کو متازع بنا کر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کو شغل بنا لیا،ایسے میں موسم کی تبدیلی کیا معنی رکھتی ہے۔
موسم،رنگ،خوشبو،خوشگوار ماحول تو حس لطیف رکھنے والوں کیلئے ہوتے ہیں،پتھروں کیلئے ان کی کوئی اہمیت ہے نہ ان میں کوئی
کشش۔بقول ظہیر کاشمیری
برق زمانہ دو ر تھی لیکن مشعل خانہ دور نہ تھی
ہم تو ظہیر اپنے ہی گھر کی آگ میں جل کر خاک ہوئے
آج ہم اگر موسموں کی شدت میں جل رہے ہیں تو یہ ہمارا اپنا انتخاب ہے اور ہم اپنے گھر کی شمع سے اپنے ہی گھر کو آگ دکھا رہے ہیں،آج اگر ہم اپنے دریاوں پر ڈیم نہیں بنا سکے تو قصور ہمارا اپنا ہے،اتنے سالوں بعد بھی ہم ملک میں ایک مستحکم جمہوریت اور جمہوری روایات کو پروان نہیں چڑہا سکے تو اس کاذمہ دار کوئی اور نہیں ہم خود ہیں،کاش ہمارے سیاسی راہنما ہمیں وہ راہنمائی دیتے جس سے ہم ایک اچھے پاکستانی بنتے کاش،اب بھی وقت ہمارے ہاتھ میں ہے خدا کرے کہ ہم سمجھ جائیں۔

تبصرے بند ہیں.