صدف نعیم شہباز شریف اور پرویز الٰہی

12

صدف نعیم بھی چلی گئی اور پاکستان کی پہلی خاتون شہید صحافی کہلائی۔ یقیناً وہ پاکستانی صحافت کی ایک بہادر، انتھک اور پروفیشنل خاتون تھیں اور انہوں نے اپنے کام سے ثابت کیا کہ صحافت میں اگلے محاذوں پر خدمات انجام دینا مردوں کی اجارہ داری نہیں۔ موت تو برحق ہے سب کو آنی ہے لیکن جس شان سے وہ گئی ہے اس نے پروفیشنل صحافت میں لاہور اور ملک کا نام روشن کر دیا۔ گو کہ وہ جاتے جاتے اپنے ساتھیوں کو سوگوار، دو بچوں کو مسکین، والدین اور خاوند کو تنہا کر گئیں اور اس کا اصل دکھ اور کمی تو اس کے اہل خانہ کو ہی ہو گی لیکن جب اس کا جسد خاکی گھر پہنچا تو وہاں موجود اس کے ہر ساتھی کی آنکھ اشک بار تھی۔ تھی تو وہ چینل 5 اور خبریں کی نمائندہ لیکن اپنی محنت اور لگن کی وجہ سے وہ لاہور کے ہر صحافتی حلقے میں مقبول تھی۔ اگر وہ کسی بڑے ادارے میں ہوتی تو اس کی پہچان ہی الگ ہوتی لیکن ایک چھوٹے ادارے میں رہ کر اپنی محنت اور لگن سے جو نام کمایا وہ بھی کم نہیں اور ثابت کیا کہ اپنا کام محنت اور لگن سے کر کے اپنے آپ کو منوایا جا سکتا ہے جو اس نے کیا۔ وہ ساری زندگی اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے دوڑتی رہی اور اس کی زندگی سے موت کی طرف آخری دوڑ بھی خبر کے حصول اور اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے تھی جس کے حصول کے لیے اسے موت کو گلے لگانا پڑا اور وہ امر ہو گئی۔ اسے یہ سب پانے کے لیے جان دینا پڑی اور کچھ منزلیں یقیناً مر کر ہی ملتی ہیں کیونکہ دنیا زندہ لوگوں کی قدر نہیں کرتی۔ مجھے اس کی موت کی خبر جیو نیوز لاہور کے بیورو چیف رئیس انصاری نے فون پر دی جسے خبریں کے فرقان ہاشمی نے رو رو کر کنفرم کیا۔ میں شاک میں تھا اور یقین نہیں آ رہا تھا لیکن زندگی کی طرح موت بھی ایک اٹل حقیقت ہے اس لیے ماننا پڑا۔
صدف کے بچوں کی امداد کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف نے 50 لاکھ اور وزیر اعلیٰ پنجاب نے بھی عمران خان کی ہدایت پر 50 لاکھ امداد کا اعلان کیا اس کے علاوہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے بھی اچھی خاصی امداد کی۔ لاہور پریس کلب کی لائف انشورنس سے بھی اس کے اہل خانہ کی قریباً 20 لاکھ کی رقم ملے گی۔ یہ سب تحریر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی امداد یعنی ایک کروڑ روپیہ اس کے بچوں کے لیے 5 سال کے لیے کسی اسلامی بنک میں فکس کرا دیں تا کہ اس سے حاصل ہونے والی آمدن سے اس کے بچوں کا مستقبل محفوظ رہ سکے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کا بھی شکریہ کہ انہوں نے اس کو خاوند اور بیٹی کو سرکاری نوکری دینے کا اعلان کیا۔ چینل کے سی ای او اور خبریں کے ایڈیٹر ان چیف امتنان شاہد نے بھی صدف کے اہل خانہ کے لیے امداد کا اعلان کیا ہے جو کہ خوش آئند ہے۔
پریس کلب کے موجودہ صدر اعظم چودھری اور سیکرٹری عبدالمجید ساجد و سابق صدور ارشد انصاری، معین اظہر اور پی یو جے کے صدور شہزاد حسین بٹ اور ابراہیم لکی کی اس امداد کے حصول کی کاوشوں کو سراہتے ہیں اور حکومت کے ساتھ ساتھ ان سے بھی درخواست بھی ہے کہ بھی یہ رقم فکس ڈیپازٹ کرانے میں اپنا کردار ادا کریں تا کہ اس کے بچوں کا مستقبل محفوظ رہ سکے۔
صدف نعیم کے ساتھ یادوں کا انبار ہے جب میں چینل5 میں ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر تھا صدف نعیم سے میری پہلی ملاقات وہیں ہوئی۔ وہ وہاں ”پرانے گیت پرانی غزلیں“ پروگرام کرتی تھی۔ اس کے ساتھ روزنامہ خبریں کے لیے کالم اور رپورٹنگ بھی کرتی تھی۔ ایک دن کہنے لگی اس نے چینل کے لیے سیاسی بیٹ کے لیے نیوز رپورٹنگ کرنی ہے اسے موقع دیا جائے۔ میں نے کہا نیوز رپورٹنگ بہت مشکل ہے اور سیاسی رپورٹنگ میں وقت کا پتہ نہیں ہوتا لیکن وہ مصر رہی۔ میں نے کہا اچھا دیکھتے ہیں۔ جب بھی سرراہ ملاقات ہوتی تو مجھے یاد دہانی کراتی۔ بالآخر اسے ایک سیاسی ایونٹ کی رپورٹنگ کا موقع دیا اور اس نے اپنی اہلیت ثابت کر دی۔ اس نے نہ صرف چینل کے لیے بلکہ خبریں کے لیے بھی کوریج کی۔ پھر ہوا یوں کہ چینل میں جس بھی رپورٹر کو سیاستدانوں بشمول وزیر اعظم، صدر، وزیر اعلیٰ، گورنر، سپیکر اسمبلی یا دیگر وی آئی پیز کی ڈیوٹی لگائی جاتی تو نتائج خاطر خواہ نہ نکلتے جس کی بنا پر میں نے تمام وی آئی پی بیٹس اس کے
حوالے کیں گو کہ کچھ لوگ معترض بھی ہوئے لیکن اس نے اپنے کام سے ثابت کر دیا کہ وہ اس کی اہل تھی۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ سیاسی رپورٹنگ کے گُر کیا ہیں میں نے کہ ہر ایونٹ کی کوریج پر پوری جان لگا دو اور وقت کی پابندی کرو اور ہر سیاسی لیڈر کا انٹرویو یا سوالات کرو۔ اس نے ایسا کیا اور اپنی پہچان بنا لی۔ اس کے چہرے پر ایک خاص چمک آ جاتی تھے جب دوسرے اداروں سے اس کے سینئر کسی خبر یا ایونٹ بارے اس سے پوچھتے تھے۔ کئی بار اسے گھر چھوڑنے کے لیے دفتر کی گاڑی میں اس کا ہمسفر رہا اور وہ اس دوران اپنے بچوں کی تعلیم اور ان کے مستقبل کے لیے فکرمند نظر آئی۔ جب اس کی بیٹی کا کالج میں داخلہ ہو گیا تو اس کی خوشی دیدنی تھی اللہ پاک اس کی بیٹی اور بیٹے کے نصیب اچھے کرے۔ آمین۔
ہمارے پرانے ساتھی جیو کہ سینئر سپورٹس رپورٹر سہیل عمران نے صدف نعیم کے بارے میں بڑی خوبصورت تحریر لکھی آپ کے لیے پیش ہے۔ ”مجھے فرشتہ بننے کے لیے مرنا پڑے گا، میرے بچوں کا سرکار کی طرف سے خیال رکھنے کے لیے مرنا پڑے گا، محنتی ہونے کا ثبوت دینے کے لیے مجھے مرنا پڑے گا، بچوں کی سرکاری نوکری اور سرکاری چیکس کے لیے مجھے مرنا پڑے گا، میرے محنتی ہونے کے ثبوت کے لیے مجھے مرنا پڑے گا، میرا ادارہ میری قدر کرے مجھے مرنا پڑنا کرے گا تو کیا مجھے مر نہیں جانا چاہئے“۔
بہتر سے بہتر خبر کے حصول کے لیے اس نے اپنی آخری دوڑ میں جان کی بازی لگا دی۔ لاہور پریس کلب کو اس کی صحافت سے لگن کو سراہتے ہوئے پریس کلب میں اس کے نام سے کچھ موسوم کر دینا چاہیے۔ اسی طرح لاہور کی صحافت کے اولین شہید فوٹو جرنلسٹ زیڈ اے شاہد شہید کے نام سے کلب میں فوٹو جرنلسٹ ہال اس کے نام سے موسوم کر دینا چاہیے۔
اس کالم بارے اپنی رائے 0300 4741474 پر وٹس ایپ کریں۔

تبصرے بند ہیں.