وہ بھی توانسان تھے

6

گاڑیاں کیابڑے بڑے جہازبھی ہم نے دیکھ لئے۔وہ جہاں تک پہنچنے کے لئے ہمارے آباؤ اجداد اور بزرگ سال اور مہینے کی پیدل مسافتیں طے کیاکرتے تھے ان جگہوں تک بھی ہم ہفتوں اور مہینوں نہیں بلکہ گھنٹوں اورمنٹوں میں پہنچے۔وہ جن کھیتوں اورزمینوں میں بیج بونے کے لئے ہمارے بزرگ ہفتوں تک ہل چلایاکرتے تھے ان کھیتوں اورزمینوں میں بغیرہل چلائے بیج بھی ہم نے گھنٹوں اورسیکنڈوں میں بوئے۔وہ جن گھروں اورمکانوں کی سفیدی ولالی کے لئے ہماری مائیں،بہنیں اوربیٹیاں میلوں دورسے مٹی لاکرکئی دنوں تک لپائی کی مشقتیں اٹھایاکرتی تھیں ان گھروں اورمکانوں کوبھی ہم نے گھنٹوں میں سفیدولال کیا نیلا، پیلا اور زرد ہوتے دیکھا۔وہ جس پانی کے لئے ہمارے بچے برتن اٹھائے میلوں دور  جایا کرتے تھے اس پانی کوہم نے ہرگھرمیں چھوٹے چھوٹے بے جان نلکوں سے نکلتے بھی دیکھا۔وہ ٹیپ ریکارڈراورریڈیوپرہم برسوں تک جن کی صرف آوازسنتے تھے ان آوازوالوں کوبھی ہم نے ان گنہگارآنکھوں سے آمنے اور سامنے دیکھا۔وہ جو سال پہلے گاؤں کی گلیوں اور کھیت کھلیانوں میں گولی ڈنڈا، کرکٹ، بنٹے اورآنکھ مچولی کھیلتے ہوئے ہم نے بڑوں سے سناتھاکہ دنیامیں ایسی کوئی چیزآئی ہے کہ جس میں یہاں سے بات کرنے والے کو امریکہ،  سعودی عرب، فرانس اورجاپان میں بات کرنے والابھی نظر آتا ہے  وہ چیزبھی نہ صرف ہم نے ان آنکھوں سے دیکھ لی بلکہ آج وہ موبائل کی شکل میں ہر جیب اورہرگھر کے اندرموجودبھی ہے۔ جدیدسائنس ٹیکنالوجی اور ترقی کے ذریعے خداکی ہرنعمت اور دنیا کی تقریباً ہر سہولت ہم نے نہ صرف اپنی ان آنکھوں سے دیکھی بلکہ اکثروبیشترنعمتیں وسہولتیں اپنے ان ہاتھوں سے استعمال بھی کیں۔غالباًآج اس دنیامیں ایسی کوئی شئے نہیں جوہمارے جیسے انسانوں کی پہنچ سے دور یا باہر ہو۔  آج ہم چاندتک بھی پہنچ چکے ہیں۔ اس کے باوجود ہمارے شہروں،ہمارے گھروں اورہماری زندگیوں میں وہ مزہ،وہ راحت، وہ آرام اوروہ سکون نہیں جو پیدل مسافتیں طے کرنے والے ہمارے آباؤاجداداوربزرگوں کی زندگیوں میں تھا۔ہمارے بزرگ گاڑیاں اور جہاز نہ ہونے کی وجہ سے روزانہ میلوں دورپیدل جایا کرتے تھے لیکن ان کے بدن اورجسم نہ توہمارے جیسے تھکے ہارے تھے اورنہ ہی
ٹوٹے پھوٹے۔پیدل توہم خواب میں بھی نہیں جاتے۔پڑو س کے گھرکچھ دینے یالینے کے لئے بھی آج ہم لفٹ،گاڑی اورسائیکل وموٹرسائیکل کااستعمال کرتے ہیں لیکن اس کے باوجودایک ہاتھ سے ہم نے ایک ٹانگ اور دوسرے ہاتھ سے دوسری ٹانگ پکڑی اور دبائی ہوتی ہے۔ دردکش انجکشن لگانے اورپیناڈول کی گولیاں بوسے کی طرح منہ میں انڈیلنے کے بعدبھی اپنے سروں کوہم نے خطرناک مجرموں کی طرح چادروں اور پٹیوں میں جکڑا ہوتا ہے۔ کیا یہ درد اور سردرد اس زمانے میں نہیں تھے۔ وہ پہلے والے بھی توہمارے جیسے ہی انسان تھے، اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، چلنا پھرنا اور یہ جینا مرنا تو ان کے ساتھ بھی تھا۔ بیمار تو وہ بھی ہوتے تھے،موت بھی توہروقت ان کے تعاقب میں رہتی اوروہ مرتے بھی تھے لیکن۔۔؟معذرت انتہائی معذرت کے ساتھ ہماری طرح نہ وہ تڑپ تڑپ کر جیتے اور نہ اس طرح ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر مرتے۔ یہ شوگر، بلڈ پریشر، کینسر، یرقان، ٹی بی، ہارٹ اٹیک، نمونیا، چھوٹابخار، بڑابخار، کالی کھانسی، سفید کھانسی جیسی بیماریوں کے تواس وقت نام ونشان بھی نہ تھے۔اس دورمیں یہ کروناشرونا اورروزروزکایہ رونادھونابھی نہ تھا۔ماناکہ اس دوراورزمانے میں آج کی طرح یہ گاڑیاں،یہ جہاز،یہ کمپیوٹر،یہ سکول،یہ ہسپتال،یہ بازار،یہ کارخانے،یہ فیکٹریاں،یہ قسم قسم کی مشینیں اوریہ موبائل تونہیں تھے لیکن لوگوں کی زندگیوں میں سکون بھی تھااورآرام بھی۔دنوں اورمہینوں پیدل چل کر وہ پھر بھی تروتازہ اور پرسکون رہتے تھے،وہ دردسے کراہتے اورنہ ہی سر اور ٹانگوں کو کبھی پٹیوں سے باندھتے۔ روکھی سوکھی کھا کر وہ آرام وسکون سے اس طرح زندگی گزارتے جس طرح کی زندگی آج وقت کے بادشاہ بھی نہیں گزارتے۔ مکئی کی روٹی، لسی اورساگ میں اس وقت جو مزہ اور ذائقہ ہوتا تھا آج مٹن، چکن، بریانی، کباب اورپلاؤمیں بھی وہ مزہ اور ذائقہ نہیں۔ وہ مال دولت، جہاز، گاڑی، موبائل، کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ کے بغیربھی بادشاہ تھے اورہم۔؟سب کچھ آس اورپاس ہونے کے باوجودبھی بھکاری اوردھتکاری ہیں۔وہ راتوں کوگھروں کے صحن اور دلان میں چارپائی بچھا کر گہری نیند سویا کرتے تھے اورہم۔؟آج ایک ایک گھرکودس دس تالے لگااورپانچ پانچ سکیورٹی گارڈ وچوکیداررکھ کر بھی آرام وسکون سے سو نہیں پاتے۔ سیمنٹ، سریا اور سنگ مرمرسے بنے محلات میں آج وہ سکون نہیں جوپہلے والوں کی کچی لکڑیوں اورپتوں سے بننے والی جھونپڑیوں میں ہوتاتھا۔آج لاکھوں اور کروڑوں روپے سے بننے والے یہ محل اتنے شاندار نہیں جتنی پہلے والوں کی وہ جھونپڑیاں جاندار تھیں۔ ان کے پاس اس وقت بینک بیلنس تھااورنہ ہی کوئی تجوریاں۔ ان جھونپڑیوں میں آٹے وچینی کی اس طرح کوئی بوریاں ہوتی تھیں اورنہ ہی مٹن، چکن، چاول، دال اورگھی سے بھری یہ الماریاں۔لیکن پھر بھی اپنے کیا۔؟غیربھی پاس ہواکرتے تھے۔آج تو گھروں میں دنیاکی ہرنعمت اور ہر سہولت موجود ہے۔ آٹا، چینی، دال، چاول اورگی کیا۔؟ہرگھرمیں فریج اور فریزر بھی کھانے پینے کی اشیاء سے بھرے ہوتے ہیں لیکن پھر بھی غیرکیا اپنے بھی پاس نہیں ہوتے۔وہ لوگ ایک روٹی کیا ایک ایک نوالہ بھی آپس میں تقسیم کیا کرتے تھے۔ جس گھرمیں کسی دن مرغ یاگوشت کا سالن پکتاتوگھروالے کھانے سے پہلے اسے اڑوس پڑوس کے ساتھ پورے گاؤں میں تقسیم کرتے۔یہ نہیں ہوسکتاتھاکہ کوئی مرغ یاگوشت پکاتااوراس کاسالن اڑوس پڑوس میں نہ بانٹتا۔آج تولوگ پوری کی پوری بھینس حلق سے نیچے اپنے جہنم میں اتاردیتے ہیں اورپڑوس کیا۔؟ساتھ دوسرے کمرے میں رہنے والے بہن بھائیوں کوبھی پتہ تک نہیں چلتا۔ کتنا شاندار دور اورکیسے خوبصورت لوگ تھے وہ۔اس رنگ برنگی انسانیت اورمصنوعی روشنیوں سے لالٹین اوردئیے کاوہ دورایک نہیں ہزاراورلاکھ درجے بہترتھا۔اس دورمیں یہ جدیدسہولتیں تونہیں تھیں لیکن زندگی جینے کے لئے راحت وسکون والی حقیقی نعمتیں توتھیں۔اس وقت جینے کا اپنا ہی کچھ مزہ تھا۔آج دنیاکی تمام ترنعمتیں اور سہولتیں پاس ہونے کے باوجود لوگ زندگی سے بھاگ رہے ہیں جبکہ اس وقت لوگوں کے پاس سوائے ایک جھونپڑی،پھٹی پرانی چادر اورایک بھینس سے زیادہ کچھ نہیں ہوتاتھااس کے باوجودوہ لوگ زندگی کے پیچھے یازندگی سے نہیں بھاگتے تھے بلکہ زندگی راحت وسکون کاسایہ بن کر ان کے پیچھے بھاگتی تھی۔وہ لوگ کچھ بھی پاس نہ ہونے کے باوجودامن،سکون اورخوشی سے جی گئے اورہم سب کچھ پاس پاکربھی سکون سے جی نہیں پارہے۔زندگی جینے کااصل دوراوروقت تووہی تھاجوترقی کے دریامیں بہہ گیا۔اب ہم ہیں اور ترقی۔یوں محسوس ہورہاہے کہ جیسے ترقی کی اس روشنی سے زندگی کاوہ میلا کچیلا ”دیا“ ہی کہیں بجھ گیاہو۔

تبصرے بند ہیں.