ڈی جی ISI پریس کانفرنس… جواب ضروری تھا!

22

آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے لیفٹیننٹ جنرل آئی ایس پی آر بابر افتخار کے ہمراہ غیر متوقع پریس کانفرنس میں شرکت کی اوراپنے ادارے پر لگنے والے الزامات اورتنقید کا جواب دیا۔جس کے بعدبحث شروع ہے کہDG  آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کو منظر عام پر کیوں آنا پڑا، جبکہ ان کی واضح پالیسی ہے کہ ان کی تشہیر نہ کی جائے۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ میں اپنی ذات کیلئے نہیں اپنے ادارے کیلئے آیا ہوں، میرے اداریپر جھوٹی تہمات لگائی گئیں، اسلیے آیا ہوں۔ انہوں نے کینیا میں قتل ہونے والے صحافی ارشد شریف کی موت اور عمران خان کے لانگ مارچ پر بھی گفتگو کی۔ انکا کہنا تھا کہ پاکستان کے آئین میں احتجاج کا حق ہے،ہمیں کسی کیاحتجاج یالانگ مارچ پر اعتراض نہیں ہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے کہاکہ مارچ میں ان کی موجودگی میں جنرل باجوہ کو ملازمت میں توسیع کا پرکشش موقع ملا مگر انہوں نے وہ قبول نہیں کیا، ساتھ ہی انہوں نے پاکستانی فوج کی قیادت پر ہونے والی تنقید کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ’اگر آپ کا سپہ سالار غدار ہے، میر جعفر ہے، تو آپ ماضی میں تعریفوں کے پل کیوں باندھتے تھے؟‘’اگر رات کی تاریکی میں ملاقاتیں ہوتی تھیں تو یہ ہرگز موزوں نہیں کہ دن میں غدار کا لقب دے دیا جائے۔‘ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے واضح کیا کہ ان کے ادارے کا مؤقف ہے کہ وہ آئینی حدود سے تجاوز نہیں کرے گا اورمیر جعفر اور میرصادق کے القابات اسلیے دے گئے کیونکہ ہم نے غیر آئینی کام سے انکار کیا۔DG ISI نے مزیدکہا کہ جانور،نیوٹرل اور غدارجیسے نام اس لیے دیے جارہے ہیں کیونکہ فوج نے آئینی دائرے میں رہنا پسند کیا۔ فوج کے جوان دفاع کیلئے فرنٹ لائن پر ہیں اورجب جھوٹ متواتر بولا جارہا ہو تو ادارے کے سربراہ کے طور پرانکا کام ہے کہ جب ضرورت ہو تو وہ سچ بتائیں۔
پاکستان کی حالیہ تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ مرکزی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے ملک کی سیاسی و سماجی صورتحال پر کھل کر بات کی ہے۔جنرل ندیم انجم نے ایک سال پہلے جب اپنے عہدے کا چارج سنبھالا تھا تو اسی وقت ان کے بارے میں اطلاعات آئی تھیں کہ وہ پس منظر میں رہ کر کام کرنا پسند کرتے ہیں۔ان کے پیش رو خبروں میں تو رہتے ہی تھے لیکن کئی ایک بار وہ کیمرے کے سامنے بھی آئے اور تقریبات میں بھی شرکت کی۔تاہم جنرل ندیم انجم  ڈی جی آئی ایس آئی کا چارج سنبھالنے کے بعد کبھی سامنے نہیں آئے۔ بلکہ یہاں تک اطلاعات آئیں کہ انہوں نے وزیراعظم اور دیگر اعلٰی عہدیداران سے سرکاری ملاقاتوں کی تصاویر جاری کرنے سے بھی منع کر دیا تھا کیوں کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کا چہرہ لوگوں کے سامنے آئے۔اسی پس منظر میں جب انہوں نے تمام ٹی وی چینلز پر براہ راست پریس کانفرنس کی تو یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔اس سال مارچ سے آئینی اداروں پر بہت دباؤ ہے لیکن خوش آئیند ہے کہ اداروں نے فیصلہ کیا کہ وہ آئینی کردار تک رہیں گے اور اس سے نہیں ہٹیں گے۔ یقینا ادارہ کسی گروہ یا شخص کے ساتھ وابستگی نہیں دکھاسکتا اور نہ ہی دکھانے چاہیے۔ ادارے کاغیر سیاسی رہنے کا فیصلہ کہ وہ آئینی حدود میں رہے گا تاکہ ادارے کی ساکھ متنازع نہ ہو، یقینااس سے ملک کے غیر مستحکم کرنے والے عناصر کوواضح پیغام ہے۔گزشتہ چند دہائیوں میں پاکستان، وارآن ٹیرر، افغان جنگ، دہشت گردی، انڈیا کے ساتھ کشیدہ صورتحال اور سیاسی ہنگامی عدم استحکام سمیت کئی ادوار سے گزرا ہے لیکن آئی ایس آئی کے سربراہ نے کبھی اس طرح پریس کانفرنس سے براہ راست خطاب اور سوالوں کے جوابات نہیں دیے۔لیکن ملک و قوم کی خاطر بعض اوقات جھوٹ کو جھوٹ ثابت کرنے کیلئے سامنے آنا پڑتا ہے۔پاکستان کا آئین شریعت کے عین مطابق ہے اور اسی آئین میں لکھا ہے کہ ادارے اپنا کردار آئینی حدود میں رہ کر ادا کریں گے اور اسی آئین کے اوپرافواج پاکستان کے افسران وجوان حلف لیتے ہیں، اور جب ملک حالت جنگ میں ہو تو سپاہی اورافسر سب میدان میں آجاتے ہیں۔ یقینا جب انہیں محسوس ہوا کہ جھوٹ ملک میں فتنے اور فساد کا باعث بن رہا ہے تو انہوں نے منظر عام پر آ کر بات کرنے کا فیصلہ کیا، جو درحقیقت درست فیصلہ ہے۔
ڈی جی آئی ایس آئی نے آرمی چیف کی سیاستدانوں سے ملاقاتوں کی تصدیق کی ہے اور مزید مذاکرات کے امکان کی بھی تردید نہیں کی لیکن فوج اور اس کی خفیہ ایجنسی کی طرف سے اس طرح کھل کر سامنے آنے سے پاکستان کا مستقبل قریب کا سیاسی منظر نامہ کافی ہنگامہ خیز نظر آ رہا ہے۔
عمران خان لانگ مارچ کا آغازکر چکے ہیں اورفیصل واوڈا انہیں اس مارچ کو خونی مارچ کہہ کرخبردار کرچکے ہیں۔صحافی ارشد شریف کے قتل کا الزام مختلف اطراف و سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر ڈال رہی ہیں اور اس کی تحقیقات کا مطالبہ کیا جا رہا۔یہ ساری صورتحال مختلف سٹیک ہولڈرز کی باہمی جنگ کی طوالت کی طرف اشارہ کر رہی ہے اور بظاہر یہ محسوس ہو رہا ہے کہ آنے والے دن اور ہفتے اس ملک میں مزید سیاسی بے چینی اور ہنگامہ خیزی لے کر آئیں گے۔ اب دیکھناہے کہ جس طر ح ڈی جی آئی ایس آئی نے فوج  کے متعلق الزامات کا جواب دینے کا ایک مشکل فیصلہ کیا، کیااسی طرح ملک کے مقتدر حلقے انتظامی،مفاہمتی اور اہم سیاسی فیصلے کر کے بحران کے خاتمے کیلئے کوئی قدم اٹھائیں گے یا محاذ آرائی کی اس لہرمیں غیریقینی کا اضافہ ہوتا رہے گا۔ بدقسمتی کہ سری لنکا کی مثال دیکرسرمایہ کاروں کو روکاجارہاہے، فیٹیف کامیابی کو ناکامی میں بدلنے، جوہری اثاثے غیرمحفوظ قرار دینے اورغداری کے فتوے بانٹے جارہے ہیں۔ایسا ماحول بن چکا ہے جس سے ریاست کی بقا کو خطرہ ہے اورجب ریاست حالت جنگ میں ہو تو عوام اور فوج ملکر اس کا مقابلہ کرتے ہیں۔ آج سوال پوچھا جارہا ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی کو خود کیوں میڈیا کے سامنے آنا پڑا اس کا جواب اس سوال میں ہی چھپا ہے، ایک ایسا آفیسر جس نے اپنی تصویر تک دکھانے پر پابندی لگائی تھی کیوں اتنا بڑا قدم اْٹھانے پر مجبور ہوا، صرف اس لئے کہ ملک ایک مشکل وقت میں ہے۔دوسری طرف فوج سے سوال کیا جاتا تھا کہ وہ خاموش کیوں ہیں کیا وہ ڈر گئے ہیں یا پس پردہ وہ بھی اس بیانیہ کا حصہ ہیں ان سب باتوں کا جواب دینا ضروری تھا۔ اگرچہ فوج کی کوشش تھی کہ انتشار کو خاموشی سے روکیں، لیکن حد سے گذرنے پرجواب دیناضروری تھا۔ خدشہ ہے کہ لانگ مارچ میں خون خرابہ ہوگا، لاشیں گریں گی اور اگر خدانخواستہ کچھ ہوا تو ذمہ داری فوج پر ڈال دی جائے گی اور بدنام کرنا شروع کردیں گے،یہ ہی اصل سازش ہے۔اب قوم خود سوچے اس موقع پر لوگوں کو مرنے سے بچانا اور ملک کو انتشار سے بچانا کیا بزدلی، سودے بازی، کمزوری ہے یا بہادری ہے؟ قوم کو سچ بتایا گیا ہے تاکہ معاملے کی سنگینی اورحساسیت کاادراک ہو۔عمران خان اور پی ٹی آئی کو بھی سوچنا ہوگا کہ اس صورتحال پر ہندوستان میں جشن کا سماں کیوں ہے؟ انڈیا کو اب کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بھارتی میڈیا میں لانگ مارچ کی بھرپور کوریج کی بنیادی وجہ عمران خان کا آئی ایس آئی کیخلاف بیان ہے۔عمران خان کے حق اور فوج کے خلاف بھارتی میڈیا پر متعدد ٹاک شوز کیے جا چکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔لانگ مارچ بھارتی میڈیا کیلئے پرجوش ایونٹ بن چکا ہے،جیسے ہی عمران خان نے فوج اور ڈی جی آئی ایس آئی کے متعلق تقریر شروع کی، انڈیا کے تمام چینلز نے عمران خان کی تقریر کو لائیو دکھانا شروع کر دیا۔بھارتی میڈیا کہہ رہا ہے کہ جوانڈیا کا مقصداور ٹارگٹ آئی ایس آئی کو نقصان پہنچانا ہے،اور جو کام انڈین فوج اورادارے نہ کرسکے، وہ کام بخوبی عمران خان انجام دے رہا ہے، بھارتی میڈیااورانڈین عوام عمران خان کو اپنا ہیرو اور فیورٹ دوست قراردے رہے ہیں کہ وہ فوج کے خلاف بغاوت کر چکا ہے اور پاکستانی فوج کی کریڈبیلٹی کو نشانہ بنا رہا ہے۔انڈیا شاید 71 کی جنگ کے بعد اتنا خوش نہیں ہوا ہو گا جتنا ڈی جی آئی ایس آئی کی توہین پر ہورہاہے۔ ایک وقت تھا جب انڈیا شیخ مجیب الرحمٰن اور الطاف حسین کو سپورٹ کر رہا تھا، المیہ ہے کہ آج پاکستانی فوج سے دشمنی کیلئے انڈیااورانڈین میڈیا عمران خان کو سپورٹ کر رہا ہیں لیکن انڈیا یاد رکھے یہ 1971 نہیں 2022 ہے۔ضروری ہے کے تمام ادارے اور سیاسی جماعتیں ذاتی انا سے ہٹ کراورملکر آئینی حدود کے اندر اور ملک وقوم کے وسیع تر مفاد میں اس بحراں کا قبول حل ممکن بنائیں۔

تبصرے بند ہیں.