ایک اور آواز بند ہوئی!

33

میں ہفتے میں عموماًتین کالم لکھتا ہوں، اِس کے لیے میں نے منگل، جمعرات اور ہفتے کے روز مقرر کئے ہوئے ہیں۔ گزشتہ پورا ہفتہ میں کالم نہیں لکھ سکا دِل بہت اُداس تھا، ہمارے ایک سینئر اینکر ارشد شریف کو کینیا کے شہر نیروبی میں بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ وہ کچھ عرصہ پہلے دبئی تشریف لے گئے تھے، کہا یہ گیا پاکستان میں چونکہ بے شمار اہل صحافت کے خلاف سچ بولنے کے ”جرم“ میں انتہائی گھٹیا لیول کی انتقامی کارروائیاں ہورہی ہیں اُن سے بچنے کیلئے وہ ملک چھوڑ گئے ہیں۔ دبئی میں میرے ایک جاننے والے سے اُن کی ملاقات ہوئی تھی۔ اُنہوں نے بڑے ادب سے اُن سے پوچھا تھا ”پاکستان میں بے شمار قلم کار بے شمار اینکرز سچ بول رہے ہیں، وہ بڑی بڑی سخت باتیں کرجاتے ہیں، اُن میں سے کچھ کے خلاف مقدمات بھی قائم ہیں، عدالتوں میں اُن کے کیسز چل رہے ہیں، کچھ کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا، وہ پاکستان میں رہ کر ”طاقتوروں“ کا بھرپور مقابلہ کر رہے ہیں۔ آپ اُن سب سے زیادہ دلیر دکھائی دیتے ہیں، آپ کیوں پاکستان چھوڑ کر یہاں آگئے ہیں؟……وہ اِس بات کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے تھے، البتہ اُنہوں نے یہ ضرور کہا ”وہ بہت جلد واپس چلے جائیں گے“……کچھ روز بعد پتہ چلا وہ دبئی سے لندن چلے گئے ہیں، لندن میں اُن کی موجودگی کا کوئی ثبوت نہیں مِلا۔ اُن کے پاس برطانیہ کا ویزہ نہیں تھا۔ میرے لیے یہ بھی بہت حیرت کی بات ہے کیونکہ اُن جیسے سینئر صحافیوں نے عموماً آدھی دنیا کے ویزے حاصل کیے ہوتے ہیں۔ بلکہ اب تو ہمارے اکثر سینئر صحافیوں نے غیرملکی شہریتیں بھی حاصل کرلی ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بے شمار سینئر بیوروکریٹس ججوں، اور جرنیلوں سے کم تو نہیں کہ اُن کے پاس غیرملکی شہریت کا ”اعزاز“نہ ہو، اِس طرح کی خبریں  بھی آرہی ہیں پاکستان کے کچھ طاقتوروں نے یواے ای کے حکمرانوں سے ارشد شریف کودبئی سے نکالنے کے لیے کہا، مگر اِس کا کوئی باقاعدہ ثبوت ابھی تک نہیں مِلا، موجودہ سیاسی حکمران اِس کی تردید کررہے ہیں، پھرپتہ چلا وہ یواے ای سے نکل گئے ہیں۔ یواے ای سے نکل کر وہ کہاں گئے؟ کِسی کو کچھ معلوم نہیں تھا۔ حتیٰ کہ اُن کے قریبی دوستوں کو بھی معلوم نہیں تھا۔ اُن کے قریبی دوست نے دعویٰ کیا ہے اُن کے گھروالوں کو بھی معلوم نہیں تھا۔ اِس دوران اُن کے ”وی لاگ“ آتے رہے، نامعلوم مقامات سے آنے والے اُن کے ”وی لاگز“ میں اُن کے لب ولہجے اُن کی باڈی لینگوئج میں اُسی طرح کا اعتماد ہوتا تھا جیسا پاکستان میں ہوتا تھا، وہ بالکل پریشان دکھائی نہیں دیتے تھے، سوہم بھی خوش تھے کہ وہ جہاں ہیں خوش ہیں، گوکہ نیروبی پولیس نے اُن کے قتل کا اعتراف کرلیا ہے، اُن کی ایک اعلیٰ پولیس افسر نے اِس پر ایک پریس کانفرنس بھی کی ہے، مگر اِس معاملے میں  جِس طرح بار بار مؤقف بدلے جارہے ہیں اُن سے شکوک وشبہات بڑھتے جارہے ہیں، نیروبی پولیس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی کچھ شخصیات کے کردار پر مسلسل اُنگلیاں اُٹھ رہی ہیں، بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں،ہربدلتے ہوئے پل میں کئی نئے سوالات اُٹھتے ہوئے نظر آتے ہیں، وزیراعظم شہباز شریف نے ایک عدالتی کمیشن بنانے کا حکم دیا ہے، اعلیٰ افسران پر مشتمل ایک ٹیم کینیا روانہ ہو گئی ہے، یہ سب اقدامات لائق تحسین ہیں، اِس ضمن میں ذرا سستی کا مظاہرہ اگر کیا گیا، اِس کی صاف شفاف تحقیقات اگر نہ ہوئیں، مرحوم کے لواحقین کو مطمئن نہ کیا گیا، اِس کا پاکستان کو عالمی سطح پر بڑا نقصان ہوگا…… ارشد شریف ایک نڈر صحافی تھے۔ میری اُن سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی مگر دوستوں سے اُن کے بارے میں ہمیشہ یہی سنا وہ بہت محبت مروت والے انسان تھے۔ 2011ء میں اُن کے والد محترم کا حرکت قلب بند ہونے سے انتقال ہوگیا، اُن کے ایک بھائی فوج میں میجر تھے، وہ اپنے والد کے جنازے میں شرکت کے لیے آرہے تھے راستے میں دہشت گردوں کا نشانہ بن گئے، ایک ہی روز ایک گھر سے دوجنازے اُٹھے، یہ ایک بڑا سانحہ تھا۔ میں اُن دِنوں امریکہ میں تھا، میں جب واپس آیا میں نے اُنہیں کال کی، میں نے عرض کیا میں اظہارِ تعزیت کے لیے آنا چاہتا ہوں، اُنہوں نے فرمایا ”آپ کہاں اتنی دور آئیں گے، بس آپ دعا فرمادیں“…… اُنہوں نے میری تحریروں کی تعریف کی، یہ بھی فرمایا ”رؤف کلاسرا اکثر آپ کے گھر کے کھانوں کا بہت ذکرکرتے ہیں“…… میں نے اُن سے وعدہ لیا وہ جب بھی لاہور آئیں گے مجھے خدمت کا موقع دیں گے“…… وہ بہت ہی خوبصورت بولنے والے تھے، وہ ایسے ہی منہ اُٹھا کر کِسی معاملے یا ایشوپر بولنا نہیں شروع کردیتے تھے، اُس ایشو پر وہ پوری تحقیق کرتے، اُن کے پاس معلومات کا ایک خزانہ ہوتا تھا، کسی معاملے میں انتہائی جارحانہ مؤقف اپناتے ہوئے بھی الفاظ کا چناؤ بہت سوچ  سمجھ کرکرتے تھے، پوری کوشش کرتے تھے اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے۔ 2018ء کے عام انتخابات سے ذرا پہلے اُنہوں نے بہت سے پروگرامز عمران خان اور پی ٹی آئی کی کچھ پالیسیوں اور منافقتوں کے خلاف کیے، خان صاحب اُن سے بہت تنگ تھے، الیکشن سے چند روز قبل اُنہوں نے رؤف کلاسرا صاحب کے ساتھ ایک پروگرام میں خان صاحب کو اِس بات پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ زلفی بخاری کا نام بلیک لسٹ سے نکلوا کر اُنہیں ساتھ لے کر ایک پرائیویٹ طیارے میں عمرہ کرنے سعودی عرب چلے گئے تھے، …… میں اُن دِنوں کینیڈا میں تھا، مجھے خان صاحب نے ایک ”خصوصی مشن“ پر یہاں بھیجا ہوا تھا، ایک روز اُن کا مجھے فون آیا، وہ مجھ سے پوچھنے لگے ”رؤف کلاسرا اور ارشد شریف سے تمہارا کیسا تعلق ہے؟“…… میں نے عرض کیا ”رؤف کلاسرا صاحب تواپنے بھائی ہیں، ارشد شریف سے البتہ میری کوئی ملاقات نہیں ہے“…… کہنے لگے ”اُن دونوں نے آج کل ہمارے خلاف پوری ایک مہم چلائی ہوئی ہے، الیکشن قریب ہیں ہمیں اِس کا بڑا نقصان ہوگا، تم اُن سے بات کرو، میں نے اور دوستوں سے بھی کہا ہے اُن سے بات کریں“…… میں نے اُنہیں مشورہ دیا بہتر یہ ہے آپ خود اُنہیں ایک کال کرلیں“……اِس کے جواب میں اُنہوں نے اُسی رعونیت کا مظاہرہ کیا جو اُن کی فطرت کا حصہ ہے…… اُن کا قتل اہل صحافت کے لیے ایک بہت بڑا جھٹکا ہے، ریاست کا ہلاہوا ”چوتھا ستون“ اب باقاعدہ اُکھڑا ہوا دکھائی دینے لگا ہے، دنیائے صحافت میں اتنی سوگواری اِس سے قبل شاید ہی میں نے کبھی دیکھی ہو، کچھ ”فتنے“ اِس پر سیاست کررہے ہیں، اِس قتل کو بھی اپنے ذاتی مقاصد کے لیے وہ استعمال کررہے ہیں، اِس قتل کا پہلے ہی بہت فائدہ اُنہیں ہوگیا، وہ مزید فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں، اِسی لیے فوری طورپر لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان بھی اُنہیں کرنا پڑ گیا، ورنہ کچھ روز وہ مزید اِس کشمکش میں گزاردیتے کہ لانگ مارچ کریں یا نہ کریں۔

تبصرے بند ہیں.