انسان تو سارے ہی اچھے ہیں مگر مرناپڑتا ہے!

9

جب بھی کسی صحافی کے ساتھ دوران ڈیوٹی حادثہ ہوتا ہے تو دل بیٹھ سا جاتا ہے، ہر کوئی افسوس کا اظہار کرتا ہے، دل جوئی کرتا ہے، غموں کا مداوا کرنے کے لیے بڑی بڑی باتیں کرتا ہے، مگر پرسان حال کوئی نہیں ہوتا۔ صدف نعیم شہید گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ کی نذر ہوگئیں،یہ واقعہ سادہوکی کے قریب پیش آیا۔اْن کی شہادت پر وفاقی حکومت، پنجاب حکومت، صحافتی تنظیموں اور مختلف اداروں کی طرف سے ایک کروڑ روپے سے زیادہ کی امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔
مطلب!انسان تو سارے ہی اچھے ہیں مگر مرناپڑتا ہے!
اگر صدف نعیم کے بارے میں بات کریں تو صدف نعیم نے 2009 میں نجی ٹی وی میں شمولیت اختیار کی تھیں۔ وہ شادی شدہ تھیں اور انھوں نے پسماندگان میں ایک بیٹا اور ایک بیٹی چھوڑی ہے۔ صدف کے ساتھ کام کرنے والے میڈیا ورکرز کے مطابق وہ ایک انتہائی محنتی اور پروفیشنل صحافی تھیں جو کسی بھی قسم کی مشکل کو اپنے کام کے آڑے نہیں آنے دیتی تھیں۔اپنے چینل کے لیے وہ عموماً سیاسی جماعتوں اور سیاسی معاملات کی کوریج کرتی تھیں اور پنجاب اسمبلی کی کارروائی بھی باقاعدگی سے کور کرتی تھیں۔
جب عمران خان کے انٹرویو کے غرض سے چند رپورٹرز کو کنٹینر پر بلایا گیا تو ایک پی ٹی آئی رہنما نے صدف کا ہاتھ پکڑ کر انھیں بھی کنٹینر پر بلا لیا، اس بات سے قطع نظر کہ ان کا نام رپورٹرز کی اْس لسٹ میں موجود نہیں تھا جنھیں اس روز عمران خان کے انٹرویو کرنا تھے۔بعد ازاں اْس پی ٹی آئی رہنما نے مجھے بتایا کہ صدف چونکہ ایک انتہائی محنتی رپورٹر ہے اس لیے انھیں اچھا نہیں لگا کہ وہ پیدل چلتی رہیں، اسی لیے انھوں نے صدف کو لسٹ میں نام نہ ہونے کے باوجود کنٹینر پر بلا لیا۔وہ عمران خان کا انٹرویو کر کے ”ریٹنگ“ لینا چاہ رہی تھیں، کیوں کہ اْنہیں چینل انتظامیہ کی طرف سے دباؤ بھی تھا اور وقت کی ضرورت بھی۔ اور رپورٹرز کی خواہش بھی یہی ہوتی ہے کہ وہ بڑے لوگوں کا انٹرویو کرکے جلد سے جلد ٹرینڈ بنائیں اور صدف کی بھی یہی خواہش تھی۔
خیر اْن کے ساتھی رپورٹرز اْن کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ چند دن سے خاصی پریشان بھی تھیں۔ اْن کی ایک ساتھی رپورٹر کہتی ہیں کہ جب میں نے صدف کے چہرے پریشانی کے آثار دیکھے تو میں نے دریافت کیا کہ ’سب خیر تو ہے؟‘ صدف نے جواب دیا ’ہاں ٹھیک ہوں بس۔‘’ابھی تو لانگ مارچ چل رہا ہے، بس جیسے ہی یہ ختم ہو گا میں بریک پر چلی جاؤں گی‘۔ ساتھی رپورٹر نے دوبارہ دریافت کیاتو صدف نے کہا ’میں بہت زیادہ تھک چکی ہوں، اس لئے آرام کرنا چاہتی ہوں۔
بہرحال ہمارے ہاں تو یہ بات اب مذاق بن چکی ہے کہ ہم صحافیوں کو ”لفافہ“ کہتے ہوئے نہیں تھکتے! مگر میری نظر میں 95فیصد صحافی لفافے یعنی کرپشن جیسی بیماری کے نزدیک بھی نہیں جاتے، اس کی دو وجوہات ہیں، ایک تو اصل صحافی بہت حساس ہوتا ہے دوسرا وہ اپنی انا میں رہنے کی وجہ سے رشوت قبول نہیں کرتا۔ اور چھوٹے صحافتی اداروں میں تو ویسے ہی ان صحافیوں کی حالت غیر ہوتی ہے، تبھی تو صدف نعیم جیسی لڑکیاں 15، 20سال بھی صحافت میں گزارنے کے بعد پریشانی کا شکار ہی رہتی ہیں۔ حالانکہ ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ محنت نہیں کرتیں، آپ صدف کو ہی دیکھ لیتے، اْن کے ساتھ رپورٹرز کے بقول اْنہیں ہمیشہ فیلڈ رپورٹنگ میں دیکھا گیا، کہ اگر صبح چھ بجے کا کوئی ایونٹ ہے تو صدف تب بھی وہ وہاں کوریج کے لیے موجود ہوتی تھی اور اگر رات 12 بجے کا تو تب بھی۔ اتنی محنت کرنے کے باوجود اْسے ہمیشہ کھٹکا لگا رہتا تھا کہ اگر وہ چند روز کے لیے چھٹی پر چلی جائیں تو کہیں بریک لینے کے باعث انھیں دوبارہ نوکری حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔بقول شاعر
دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
بہرکیف اللہ اْن کی اگلی منزلیں آسان فرمائے۔

تبصرے بند ہیں.