بابت لونگ مارچ ایک تحریر

12

لاہور کی طرف موٹر وے پر رواں دواں بس میں انتالیس …… 39 مسافر تھے……
میں اور بابا جی ساتھ ساتھ بیٹھے تھے۔ باقی سب مسافروں کے پاس جدید اور لیٹسٹ ماڈل کے موبائل فون تھے مگر میرے اور بابا جی کے پاس پرانی طرز کے سیٹ تھے…… بوسیدہ …… مگر کیمرے سے بہر حال یہ بھی ’لیس‘ تھے…… آج کے دور کا سب سے تیز دھار ہتھیار ……
”دیکھ رہا ہے…… چو ہے کو……؟
”جی …… بابا جی…… کون سا چوہا……؟“
”ارے بھیا! وہ سیٹ نمبر چار پر جو بیٹھا ہے قینچی چپل پہن کے…… وہ دیکھ …… سیٹ نمبر سات والے کی ’بے غیرت‘ فلم بنا رہا ہے…… چھچھورا کہیں کا……“
مجھے اچھانہ لگا…… میں نے سوچا ’چوہے‘ کی چھترول کر دوں مگر بابا جی نے مجھے کالر سے پکڑ کر کھینچا:…… ”نہ کر بچے! اس حمام میں ہم سب ننگے ہیں۔“
”ہم سب؟“ میں بڑبڑایا…… ”آپ سب ہوں گے۔ ہم سب نہیں“
”یہاں سب کے پاس اپنی اپنی ڈھولکی ہے اور اپنا اپنا راگ ہے…… بس میں سکوت دیکھو کیا ہے…… پہلے محلے میں سب آپس میں ملتے جلتے تھے…… شام کو گپ شپ لگاتے…… مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوتا…… اب ذرا غور کر بس میں مجھ سمیت سب اپنے اپنے موبائل سے کھیل رہے ہیں …… لگتا ہے بس میں ’قل خوانی‘ ہو رہی ہے یا چالیسویں کا ختم ہے اور سامنے انواع و اقسام کی چیزیں ہیں …… دعا پڑھے جانے کا انتظار کر رہے ہیں سب…… کیا خاموشی ہے…… مگر دماغ مصروف…… دلوں کی دھڑکنیں تیز…… کسی کو معلوم نہیں بس مشرق کو جا رہی ہے یا مغرب کو……“
”بابا جی…… آپ بھی تو ابھی کسی کو SMS کر رہے تھے…… کسی کو سالگرہ پر مبارکباد پیش کر رہے تھے“۔
بابا جی کھیسانے ہو گئے……
”بھائی بارہ سال سے ’رنڈوا‘ہوں …… اس نے وعدہ کیا تھا کہ اس سالگرہ پر وہ مجھے بڑی سکرین والا موبائل تحفہ کرے گی…… ویسے اس کا شوہر بھی بس پل دو پل کا مہمان ہے …… بس تھوڑی سی ڈاکٹروں کی سستی ہے۔“
امید پہ بابے قائم ہیں …… کب ہے ’ان‘ کی سالگرہ؟ میں بڑبڑایا……
”25 مئی کو ……“ باباجی شرما گئے……
”مبارکاں حضور! پیشگی مبارک قبول ہو …… نیا موبائل اور ’ان‘ کا دیدار بھی“۔ اچانک بس میں شور مچ گیا۔
”خبیث! الو کے پٹھے! میری تصویریں بنا رہا ہے۔ تمہارے گھر میں ماں بہن نہیں ہے؟“
بس ہوسٹس گرج رہی تھی ایک پچپن سال کا بندہ اس کی تصویریں بنا رہا تھا یا شاید فلم؟
سب نے کانوں میں اپنی اپنی ہینڈ فری کی ٹوٹیاں ٹھونس رکھی تھیں ……
بابا جی جی ہنس دیے اور آہستہ سے بولے ”بے چاری کو میک اپ تو کرا لیتا۔ چڑیل لگ رہی ہے۔ اور کچھ نہیں یہ ظالم اس کی تصویریں ’فیس بک‘ پہ چڑھا دے گا……“
معاملہ ایک دم سے دفع دفع ہو گیا یعنی پھر سے ”ہو“ کا عالم طاری ہو گیا۔ بس رواں دواں تھی۔ بڑی سرعت سے سب کچھ طے ہو گیا، یہ ہوتی ہے عقلمندی…… نہ پولیس نہ کچہری، بالا بالا سب طے۔
”بابا جی! یہ کیا MYSTRY…… اندر کی کہانی …… ہے؟“
میاں! تم بھولے ہو یا میرے سامنے بنے بیٹھے ہو؟“ بابا جی نے پہلی بار مجھے غصے سے گھورا ”جی نہیں! میں کچھ کچھ بھولا ہوں۔“
میری وضاحت پر بولے، آنکھیں بند کر کے، ”میاں تو نے دیکھا نہیں …… اس پچپن کے ’لڑکے‘ نے ہوسٹس کو اپنا مہنگا سیٹ دے دیا ہے …… بظاہر اس نے غصے میں پچپن کے ’لڑکے‘ کا سیٹ اپنے بیگ میں ڈال لیا ہے مگر چہرے سے شرارت اور ’خوشی‘ عیاں ہے…… وہ اسے اور ’میں‘ دونوں کو معنی خیر نظروں سے دیکھ رہا تھا جبکہ اور تم سر جھکائے ’نئی بات‘ پڑھ رہے تھے …… اب وہ لاہور جا کے اسے شکریہ کا SMS کرے گی اور کہہ دے گی …… جی …… میں ایسی ویسی نہیں ہوں لیکن آپ نے سیٹ مجھے میری تصویروں سمیت ”GIFT“ کر دیا اور میں نے اپنی سالگرہ کا تحفہ سمجھ کے رکھ لیا…… تحفے اور بھی تھے پر سب سے پیارا آپ کا تھا …… میں نے کہا میں آپ کا شکر یہ ادا کر دوں …… اور ہاں بتاتی چلوں کہ پیر والے دن فون نہ کرنا …… میری OFF ہوتی ہے۔ اگر کوئی ’بہت‘ ضروری بات کرنی ہو تو صبح دس بجے سے پانچ بجے تک کر سکتے ہیں۔ میں بھنڈی پکا کے فارغ ہو جاؤں گی …… آپ کو بھنڈی اچھی لگتی ہے……؟“
اب باقی تفصیلات بھنڈی کا قصیدہ بیان کر کے وہ خود ہی بتا دے گا اور پھر Monday کے Monday ……
”باباجی! آپ نے تجربے کے زور پر سب کچھ بھانپ لیا ……؟“
بابا جی کی ہنسی نکل گئی، ”میاں! اس بس میں موجود ہر کوئی اپنے اپنے موبائل پر فلمیں، تصویریں اور SMS دیکھ رہا ہے…… کچھ تصویری گفتگو میں مصروف ہیں …… تو کچھ نہایت آہستہ فون پہ ’اداسی‘ دور کر رہا ہے…… اور ہم جیسے سادہ SMS پر گزارہ ……“
یہی حال ہمارے سیاستدان کا ہے…… ہرکوئی اپنی اپنی ڈھولکی بجا رہا ہے…… عوام شور مچا رہے ہیں مگر سیاسی بس کے اندر ”ہو“ کا عالم ہے …… لوگ سمجھ رہے ہیں کہ وہ ہمارے حقوق پر غور و فکر کر رہے ہیں جب کہ …… وہاں ہر کوئی اپنی اپنی سکرین پر ’اداسی‘ دور کر رہا ہے یا پھر مبارکبادیں لی اور دی جا رہی ہیں …… کیونکہ ہمارے ہونہار ’سیاسی رہنما‘ نے جو شیروانی وزرات عظمیٰ کے لیے سلوائی تھی وہ کسی نے پہن لی یا کسی کے حصے میں چلی گئی اور اُن کے حصے خالی گفتگو آ گئی یا پارٹی meetings وغیرہ وغیرہ …… سیاست میں دو طرح کے لوگ کامیاب ہوتے ہیں۔ اک وہ جو دب کے مال خرچے اور دوسرا وہ جو بن سوچے بولتا چلا جائے…… ہمارے ہاں چونکہ جاگیردارانہ نظام ہے تو جو دل میں آئے بول دینے کا تجربہ ان کو ہوتا ہے…… زمیندار کو بد تمیزی کی عادت ہوتی ہے اور مزارع یا ملازم کو ہر حکم پر YES کہنے کی…… اس لیے یہ حکم اور Yes والی سکیم یہاں کامیابی سے چلتی ہے۔ اس وقت عمران خان کا لانگ مارچ جاری ہے۔ خان نے بھی اپنے ورکرز کو ٹیم کے کھلاڑی سمجھ کے عادت ڈال دی ہے…… اکبر تم سلپ پے چلے جاؤ…… خالد تم جلدی سے باؤنڈری پے اور کھلاڑی بھاگم بھاگ حکم کی تکمیل میں مگن۔
ادھر شہباز شریف، زرداری صاحب اور بلاول…… یا مولانا فضل الرحمن کرسیاں بدل بدل کے اجلاس میں شریک…… ہر کسی کا مزہ لو جو لیٹر تیار ہوتا ہے وہ سب سے مشاورت کرتے کرتے ہی صفحات سے شروع ہوتا ہے…… ایک صفحے کا رہ جاتا ہے پھر ایک صفحے والے خط پہ مشاورت شروع ہوتی ہے اور وہ اللہ کے فضل سے پھر سے دو صفحات کا ہو جاتا ہے…… اس طرح کچھ لیٹر چلے جاتے ہیں کچھ مشاورت کی نذر ہو جاتے ہیں ……
ہیں ناں مزیدار حکومتی سلسلے…… یہ ہوتی ہے حکومت اور چونکہ اپوزیشن حکومت سب مشاورت ہر دم مشاورت آپس میں صلاح مشورہ سے چل رہی ہیں اس لیے ہر کارروائی پر گفتگو، ہر عوامی بات پر خفیہ گفتگو…… سکرین پر دکھائی جاتی ہے…… ہمارے پڑوسی بھارت میں ہر شخص دوست دشمن سب ڈائریکٹ دیکھ رہے ہیں اور خوش ہو رہے ہیں …… یہ ہے آئیڈیل جمہوریت جہاں سب کچھ سب پر عیاں ہے…… اور ہم سب بہت مخلص ہو کر ملک چلا رہے ہیں …… اس قدر پُر خلوص انداز میں ہم نے مل مل …… جُل مل کر دنیا میں کہیں بھی حکومت چلتی نہیں دیکھی…… عوام نے شکریہ کن کا ادا کرنا ہے…… پتہ نہیں؟!

تبصرے بند ہیں.