درد کے طوفان نے ہر گھر جلا کر رکھ دیا

14

انسان شروع سے ہی دنیا کی تمام تکلیفوں، دکھوں اور پریشانیوں سے رہائی اختیار کرنے کی کوششوں میں مبتلا رہا ہے اس لیے نشہ ابتدائے انساں سے ہی اس کا مسئلہ رہا ہے کیونکہ یہ جسم سے پہلے دماغ پر اثر کرتا ہے۔ سوچنے کا عمل تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ نیکی اور بدی کا شعور پوری طرح سے ختم کر دیتا ہے۔ دورِ حاضر میں بھی ہمارے معاشرے کو نا قابلِ تلافی نقصان پہنچانے والی چیزوں میں منشیات سرفہرست ہے۔ منشیات کا زہر ہمارے معاشرے کے حال اور مستقبل کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ نشہ ایک ایسا لفظ ہے کہ اس کے زبان پر آتے ہی اس کی خرابیاں نگاہوں کے سامنے رقص کرنے لگتی ہیں۔ پاکستان کو درپیش مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ نوجوان نسل کا منشیات کی طرف راغب ہونا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے نوجوانوں میں خاص کر تعلیمی اداروں کے طلبا میں منشیات کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے، جس کی وجہ سے ناصرف نوجوانوں کی صلاحیتیں متاثر ہو رہی ہیں بلکہ ان کا مستقبل بھی تاریک ہو رہا ہے۔ منشیات فروش ملک و ملت کے وہ دشمن ہیں جو چند سکوں کی خاطر ایسے شگوفوں کو شاخوں سے توڑ کر گندگی کے ڈھیر پر رکھ دیتے ہیں جنہیں کشت حیات میں قاصد بہار بننا تھا۔ بقول شاعر
درد کے طوفان نے ہر گھر جلا کر رکھ دیا
وحشتوں نے سوچ کا محور جلا کر رکھ دیا
پھر دشمن انساں نے نشے کا زہر پھونکا اس طرح
بے بسی کے کرب نے پتھر بنا کر رکھ دیا
حکومت کے بہت سے اقدامات کے باوجود ہمارے معاشرے میں منشیات کا استعمال دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔ منشیات ایک ایسا زہر ہے جو انسان کو دنیا و مافیا سے بیگانہ کر دیتا ہے، اس کو استعمال کرنے والا ہر شخص حقیقت سے فرار حاصل کرتا ہے اور تصورات کے بدمست جنگل میں مست الست کا عارضی راگ الاپتا ہے۔ آج پوری دنیا منشیات کے خوفناک حصار میں ہے ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد تقریباً سات کروڑ سے زائد ہے۔ صرف پاکستان میں ہی تقریباً ستر لاکھ افراد منشیات کے عادی ہیں۔ ان میں 78 فیصد مرد اور 22 فیصد خواتین ہیں۔ مذکورہ اعداد و شمار ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان میں نشہ آور اشیاء کے استعمال کا رجحان دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔ بلا شبہ ہمارے معاشرے میں منشیات نے اغیار کی سازشوں سے راہ پائی ہے۔ شریعتِ اسلامیہ میں تمام نشہ آور اشیاء کو ممنوعہ قرار دے کر انسانی شرف و قدر کا وقار برقرار رکھنے کی بہترین تدبیر کی گئی۔ فرمانِ نبویؐ ہے کہ ہر نشہ آور چیز خمر ہے اور ہر خمرحرام ہے۔ بھنگ، افیون، ہیروئن، چرس، کوکین، الکوحل اور ان کے علاوہ اور بھی بہت سی معلوم اور نامعلوم اشیا نشہ ہیں جو ایک جیتے جاگتے چلتے پھرتے انسان کو کچھ ہی عرصہ میں جیتی جاگتی لاش میں تبدیل کر دیتی ہیں۔ تحقیق کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کے مقابلے تین گنا زیادہ ہلاکتیں منشیات کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اس وقت منشیات دنیا کا سب سے بڑا کاروبار ہے امریکہ میں ہر شہری سال میں سو گیلن سے زائد شراب پیتا ہے، دنیا بھر میں تقریباً تیس ممالک میں بڑے پیمانے پر بھنگ اور پوست کاشت کی جاتی ہے، جنوبی امریکہ کے تمام ممالک میں تھوہر موجود ہے جہاں سے ایل۔ ایس۔ ڈی سفوف کشید ہو رہا ہے۔ سیکڑوں دوا ساز کمپنیاں مسکن ادویات کی شکل میں نشہ آور ادویات مارکیٹ میں بیچ رہی ہیں اور یہ سب مل کر انسانی زندگی میں وہ آلودگی پھیلا رہے ہیں جس سے بچ نکلنا آسانی سے ممکن نہیں۔ نشہ ایک ایسی لعنت ہے جو سکون کے دھوکے سے شروع ہوتی ہے اور زندگی کی بربادی پر ختم ہو جاتی ہے۔ پاکستان کو درپیش تمام مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ ہماری نوجوان نسل کا دن بہ دن تیزی کے ساتھ منشیات کی طرف راغب ہونا ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں طلبہ و طالبات میں منشیات کے بڑھتے استعمال سے نوجوانوں کی صلاحیتیں متاثر ہو نے کے ساتھ ان کے مستقبل بھی تاریک ہو رہے ہیں۔ پہلے زیادہ تر لوگ محبت یا معاشرتی پریشانیوں سے تنگ آ کر نشہ آور اشیا میں پناہ ڈھونڈتے تھے لیکن دورِ حاضر میں حالات بہت مختلف ہیں آج نشہ ایک فیشن اور سٹیٹس سمبل بن گیا ہے۔ نئی نسل اپنے تابناک مستقبل سے لاپروا ہو کر تیزی کے ساتھ اس میٹھے زہر کو اپنے اندر اتار رہی ہے۔ مسلم ممالک ایران، افغانستان، پاکستان، سعودی عرب سب نشہ کی روز افزوں لعنت کی گرفت میں ہیں۔ آج دنیا کو اس قدر شدید خطرہ ایٹم بم سے نہیں ہے جتنا منشیات کے دن بہ دن تیزی سے بڑھ رہے رجحان سے ہے۔ نشہ آور چیزیں جہاں اسلام اور ایمان کی دشمن ہیں وہیں معاشرے کے لیے بھی انتہائی خطرناک ہیں۔ منشیات کے استعمال سے مسلمانوں کی نسلیں تباہ و برباد ہو نے کے ساتھ اندرونی طور پر بالکل کھوکھلی ہوتی جا رہی ہیں۔ منشیات نے وقت کے ساتھ ساتھ ایک وبا کا روپ اختیار کر لیا ہے جو ہر طلوع ہوتے سورج کے ساتھ بس تیزی سے پھیلتی جا رہی ہے۔ حکومتِ وقت کو چاہیے کہ وہ ملک میں منشیات کی فروخت اور سمگلنک کی روک تھام کے لیے مزید انتظامات کرے۔ منشیات کے عادی افرا د کے لیے موجود اداروں کی تعداد بڑھائے اور ان میں موجود سہولیات کو بہتر بنائے اگر قبل از وقت کچھ نا کیا گیا تو مستقبل تباہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے گلی کوچوں میں بارہا نشہ مخالف تحریکیں جنم لیتی رہتی ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ چند دنوں کی ہنگامہ آرائی اور قومی اخبارات کی زینت بننے والی ایسی تما م تحریکیں گوشہ گمنامی میں گم ہو جایا کرتی ہیں آج تک کوئی بھی تحریک مستقل اور ٹھوس بنیادوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے نہیں چھیڑی گئی۔ ملک و قوم کا درد رکھنے والے افراد کو چاہیے کہ ہر قسم کی جذباتی سیاست اور تحریکوں سے دور رہتے ہو ئے کوئی ایسا دیر پا حل تلاش کریں کہ وطنِ عزیز کے گلی کوچوں میں رقص کرنے والا یہ نشیلا اور خونخوار جن کسی ایسی بوتل میں مقید ہو جائے کہ وہی بوتل اس کا مدفن ثابت ہو۔
بڑھو آگے بڑھو آگے برائی کو مٹانے کو
صلائے عام دو اس کام کی سارے زمانے کو
نشہ جو کر رہا ہے وہ تمہاری جان کھاتا ہے
فقط جان ہی نہیں وہ سب کا دین ایمان کھاتا ہے

تبصرے بند ہیں.