جھوٹ اور نفرت کی سیاست

21

پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ڈی جی آئی ایس آئی نے کسی پریس کانفرنس میں شرکت کی۔ جو قارئین میری تحریریں پڑھتے ہیں انھیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہو گیا ہو گا کہ ہم نے ہمیشہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ نقطہ نظر کی حمایت کی ہے اور اس کی کیا وجوہات تھیں اس کا اعتراف خود افواج پاکستان کے ترجمان ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ ماضی کی بات اپنی جگہ پر لیکن اب بحیثیت ادارہ افواج پاکستان نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ سیاست میں ملوث نہیں ہو گی اور اپنی آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے وطن عزیز کی حفاظت اور سالمیت کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرتی رہے گی۔یقین جانیں ہمیں اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کے باوجود بھی ڈی جی آئی ایس آئی کو پریس کانفرنس میں دیکھ کر شدید افسوس بھی ہوا اور دکھ بھی۔ اس لئے کہ آئی ایس آئی کا ادارہ ہمارے ملک کی شان اور آن ہے اور اس کا شمار دنیا کی بہترین خفیہ ایجنسیوں میں ہوتا ہے اور خفیہ ایجنسیوں کے سربراہ تو دور کی بات ہے اس کے نچلی سطح کے عہدیدار بھی منظر عام پر نہیں آتے۔ہمیں کیا سبھی کو اس بات کا علم ہے کہ عمران خان نے افواج پاکستان اور آئی ایس آئی کے خلاف ایک مہم شروع کر رکھی ہے اور ارشد شریف کے قتل کو لے کر خان صاحب اور تحریک انصاف نے جس طرح حساس اداروں پر الزام تراشی کی ہے اگر اس میں رتی بھر صداقت ہوتی تب بھی کوئی بات تھی لیکن جھوٹ کی بنیاد پر ایک نفرت انگیز بیانیہ کی ترویج ایک ایسا گھناؤنا فعل ہے کہ جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ عمران خان کے اس فعل نے اس ڈی جی آئی ایس آئی کو کہ جو گذشتہ ایک سال میں اپنے آپ کو سو پردوں کے پیچھے چھپا کر رکھے ہوئے تھے، منظر عام پر ہی نہیں بلکہ پریس کانفرنس میں آنا پڑا۔ ہمیں اس پر بہت افسوس ہوا۔ یقینا ان کے خلاف بے بنیاد الزام تراشی ہوئی تھی لیکن اچھا ہوتا کہ اس کا جواب ڈی جی آئی ایس پی آر پریس کانفرنس میں دیتے اور ان کے ساتھ وزیر اطلاعات سمیت بیشک چار پانچ مزید وزیر مشیر بیٹھ جاتے لیکن اس طرح ڈی جی آئی ایس آئی اگر پریس کانفرنس میں شریک نہ ہوتے تو ملکی وقار کے لئے اچھا ہوتا۔
پاکستان کی سیاست میں اس وقت حقیقی معنوں میں بھونچال کی سی کیفیت ہے۔ارشد شریف کے قتل کے حوالے سے تو ہم نے 27اکتوبر کو شائع ہونے والے اپنے کالم ”متوقع لانگ مارچ“ میں عرض کیا تھا کہ ”ماضی میں جائیں تو بہت سوں نے لاشوں پر سیاست کی ہو گی لیکن قتل کی اطلاع کے بعد بنا کسی سوچ اور ثبوت کے تحریک انصاف کی روش کے عین مطابق جس طرح الزام تراشی شروع کی گئی یہ عمل بذات خود مشکوک ہے اور پھر اس پر جس طرح ہائپ بنانے کی کوشش کی گئی یہ سب باتیں ایک پاکستانی کے لئے انتہائی حیرت کا سبب ہیں۔“ ہم نے مشکوک اور جس حیرت کا ذکر کیا تھا اسے پہلے فیصل واڈوا نے اور بعد میں ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس دونوں چیف نے ساتھ مل کر پریس کانفرنس کر کے بتا دیا۔خان صاحب نے ارشد شریف کے قتل کو جھوٹ اور نفرت کا لبادہ پہنا کر حسب سابق کمال مہارت سے جس طرح بیانیہ بنا کر عوام کے سامنے پیش کیا تھا اس بیانیہ کی منجھی ٹھوکنے کا آغاز فیصل واوڈا نے کیا اور انجام ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس نے کر دیا۔ یہ بیانیہ تو پہلے مرحلہ پر ہی اپنی موت آپ مر چکا لیکن لگ ایسے رہا ہے کہ اس کی تحقیقات کے نتیجہ میں بیانیہ بنانے والوں کی
اپنی منجھی کے ٹھکنے کے واضح امکانات روشن ہو جائیں گے۔ اس حوالے فیصل واوڈا نے اپنی پریس کانفرنس میں جو کچھ بتایا اگر ان کو تحقیقاتی کمیٹی نے بلا کر پوچھا تو ان کی بتائی باتوں کی تفصیل میں اسی قتل کے حوالے سے کوئی ایک نہیں بلکہ بہت سے کٹے کٹیاں ایسی کھلیں گی کہ جن سے ارشد شریف کے قتل پر سیاست کرنے والوں کے لئے مشکلات کا ایک طویل دور شروع ہو سکتا ہے۔ ہم اپنی انھی تحریروں میں ایک سے زائد بار عمران خان کی جھوٹ اور نفرت کی سیاست کے حوالے سے بات کر چکے ہیں۔ ارشد شریف کی موت پر بھی یہی ہوا ہے کہ انھوں نے قتل کے فوری بعد ضرورت سے زیادہ تیز بننے کی
کوشش کی۔ اگر اس میں وہ سچ کہہ رہے ہوتے تو انھیں کسی نقصان کا اندیشہ نہیں تھا لیکن اقتدار کی ہوس نے انھیں جلد بازی پر مجبور کیا جس میں وہ جلد بازی میں اپنی سیاسی زندگی کی سنگین غلطی کر بیٹھے اور اب جو خبریں کینیا سے آئیں گی وہ عمران خان اورتحریک انصاف والوں کے لئے کچھ زیادہ بہتر ثابت نہیں ہوں گی بلکہ غیر سرکاری سطح سے ایسی خبریں آنا شروع ہو بھی گئی ہیں اور اب یہ سلسلہ رکنے والا نہیں۔
یہ بیانیہ اس وجہ سے بھی رنگ نہیں جما سکا کہ خان صاحب نے ارشد شریف کے قتل پر جن کی جانب انگلیاں اٹھائی تھیں ان کے ساتھ تو مرنے والے کے تعلقات بڑے بہترین تھے اور انھوں نے افواج پاکستان کے متعلق بہت سی ڈاکیومنٹریز بنائی تھیں جس کے لئے افواج پاکستان کے ادارے نے انھیں انتہائی حساس مقامات تک بھی جانے کی اجازت دی تھی تو ان کے ساتھ تو ان کے تعلقات بہت بہتر تھے اور دوسرا پاکستان میں تحریک انصاف کے ہم خیال گروپ کے کئی اینکر ایسے ہیں جو ارشد شریف سے زیادہ حساس اداروں کے خلاف باتیں کرتے ہیں لیکن وہ سب محفوظ بھی ہیں اور مامون بھی۔ ان پر کوئی کیس بنایا گیا اور نہ ہی ان کی جانب سے کسی دباؤ یا ہراساں کرنے کی کوئی شکایت کی گئی ہے تو پھر سوال کرنے والے تو سوال کریں گے کہ ارشد شریف کو زبردستی ملک سے باہر کس نے بھیجا اور ان کے مقاصد کیا تھے اور پھر کینیا ایسے غیر محفوظ ملک میں کیوں بھیجا گیا اور ان کے ساتھ جو لوگ تھے اور جس دور دراز علاقہ میں ان کا قتل ہوا ہے یہ سارے سوالات اور ان کے جوابات تک تو پہنچا جائے گا لیکن جن جوابات کی توقع ہے وہ تحریک انصاف کے لئے کوئی بہت زیادہ خوشگوار ثابت نہیں ہوں گے۔ اس وقت تک خان صاحب کا لانگ مارچ لبرٹی چوک سے شروع ہو چکا ہے۔ اس میں کارکنوں کی شرکت یقینا خان صاحب کی مقبولیت کے پیمانہ کو بھی واضح کر دے گی لیکن جہاں تک اس کی کامیابی کا تعلق ہے تو اس کے لئے ہمیں چار نومبر کا انتظار کرنا پڑے گا اس لئے کہ لانگ مارچ کی کامیابی افراد کی تعداد نہیں بلکہ اس کے مقاصد کے حصول کے ساتھ نتھی ہے۔ لانگ مارچ میں بندوں کی تعداد عمران خان کی مقبولیت کو ظاہر کرے گی لیکن اس کی کامیابی مقاصد کے حصول سے مشروط ہو گی۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس میں اس مارچ میں نعشوں کے گرنے کے بیان کے بعد محب وطن حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اس لئے کہ پاکستان کی سالمیت کے ساتھ ہی سب کی سیاست ہے۔ کوئی بھی فریق ہو اسے اپنے مفادات کی خاطر اس حد تک نہیں جانا چاہئے کہ جہاں ملکی مفاد خطرے میں پڑ جائے۔ اس لئے دعا ہے جو بھی ہو ملک و قوم کو خدائے بزر گ و برتر کی ذات اپنے حفظ و امان میں رکھے آمین۔

تبصرے بند ہیں.