لانگ مارچ اور سازشی بیانیہ

15

عمران خان کہتے ہیں کسی حکومت کو گرانے یا لانے کے لیے مارچ نہیں کر رہے بلکہ حقیقی آزادی کے لیے حتمی اور فیصلہ کن جنگ ہے انھوں نے لاہور سے اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کر دیا ہے جو ایک ہفتے تک اپنی منزل دارالحکومت پہنچے گا لانگ مارچ کی کال دینے بارے واقفانِ حال کہتے ہیں کہ ارشد شریف کی وفات سے پیداشد ہ صورتحال کی وجہ سے لانگ مارچ جلدی شروع کیاگیا ہے حالانکہ بادی النظر میں تبدیلی کے لیے ابھی حالات کچھ زیادہ سازگار نہیں قبل ازیں بھی جلد بازی میں کیے لانگ مارچ اور ایک سو چھبیس روزہ دھرنے کے باوجود اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے پھربھی کامیابی کے لیے پی ٹی آئی حلقے کافی پُر امید ہیں مگر ناکامی کی کئی ایک وجوہات واضح ہیں ایک بڑی وجہ تو ملک کے معاشی حالات ہیں جو پالیسیوں کے تسلسل کے متقاضی ہیں کیونکہ بڑھتی درآمدات کی وجہ سے زرِ مبادلہ کے ذخائر گرتے جارہے ہیں جس کی وجہ سے دیوالیہ ہونے کے خطرات ہیں اِن پریشان کُن حالات میں ملک کسی غیر جمہوری یا غیر قانونی تبدیلی کا ہرگزمتحمل نہیں ہو سکتا اگر ایسا ہوتاہے تو عدمِ استحکام بڑھنے کا امکان رَد نہیں کیا جا سکتا جومکمل معاشی تباہی پر منتج ہو سکتاہے اسی بنا پر ہر اِدارہ حکومت کے ساتھ ہے جس کی وجہ سے تبدیلی کا امکان تاریک دکھائی دیتاہے۔
اِداروں نے سیاسی معاملات سے خود کوبڑی حد تک الگ تھلگ کر لیا ہے کیونکہ سیاستدان مطلب کے لیے پہلے مدد لیتے ہیں پھر اقتدار حاصل کرنے والے اپنے محسنوں پر ہی تنقید کرتے ہیں ایسے ہی تلخ تجربات بدظن کرنے کا باعث بنے ہیں اِس وقت سیاسی منظر نامے پر جتنی بھی بڑی پارلیمانی جماعتیں ہیں وہ ماضی میں کسی نہ کسی حوالے سے اِداروں کی اعانت سے اقتدار میں آ ئیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ تمام بڑی پارلیمانی جماعتیں اِداروں پرتنقید کے نشتر چلانے کا بھی طویل ترین ریکارڈ قائم کرچکی ہیں اب اِدارے سیاسی معاملات میں مداخلت سے الگ ہو گئے ہیں اِس پر حکومتی اتحاد تو خوش ہے لیکن اپوزیشن ناخوش ہے اسی ناخوشی میں کل جمعہ سے لانگ مارچ کا آغاز کر دیاہے مگر جب عمران خان کہتے ہیں کہ حکومت گرانے یا لانے کے لیے نہیں حقیقی آزادی کے لیے نکل رہے ہیں تو کوئی یقین نہیں کرتا اور جاری ہلچل کو لوگ اقتدار کی لڑائی تصور کرتے ہیں اقتدار سے محرومی کا اِداروں کو ذمہ دار قرار دینا ہر گزدرست نہیں بلکہ سچ یہ ہے کہ زوال پذیر معیشت،بڑھتی مہنگائی و بے روزگاری اور دوست ممالک سے تعلقات میں تناؤنے اپوزیشن کو عدمِ اعتماد لانے کی طرف راغب کیا جب کہ اداروں نے مزید بیساکھی بننے کے بجائے خود کو سیاست سے لاتعلق ہوکر فرائضِ منصبی تک محدود کر لیا اسی وجہ سے تحریکِ عدمِ اعتماد باآسانی کامیاب ہو گئی حالیہ سیاسی بدمزگی غلط فہمی پر مبنی ہے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ندیم انجم نے پریس کانفرنس میں یہ تسلیم کیا ہے کہ اُن کے سامنے عسکری سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو غیر معینہ مدت تک توسیع کی پیشکش کی گئی جسے قبول کرنے کے بجائے ٹھکرا دیا گیا اِس انکشاف کے بعدپی ٹی آئی کا سازشی بیانیہ بے روح ہو جاتا ہے ویسے بھی اگر سپہ سالار غدار ہے تو مدتِ ملازمت میں توسیع کی پیشکشیں
کیوں کی جاتی رہیں؟ سازش تو یہ ہوتی کہ توسیع لیکر حکومت کو قائم رکھنے میں مدد کی جاتی مگر یہاں تو سازش میں حصہ دار بننے کے بجائے الگ رہنے کا مستحسن فیصلہ کیا گیا جس پر تنقید نہیں تحسین کی جانی چاہیے۔
آجکل سوشل میڈیا پر ایسی مُہم چل رہی ہے جس میں کچھ اِداروں اور شخصیات پر بلاجواز تنقید کی جارہی ہے جب پوچھا جاتا ہے کہ اگر غدار ہیں تو رات کی تاریکی میں خاموشی سے بند دروازوں کے پیچھے کیوں ملتے ہیں؟توحیران کُن طور پر سوال کا جواب نہیں دیا جاتا بلکہ نظر اندازکرتے ہوئے گریز کیا جاتا ہے یہ درست ہے کہ بشری خامیوں سے کوئی بھی پاک نہیں سب سے غلطیاں ہو سکتی ہیں مگر غدار اور سازشی کہنا اور سیاسی مقاصد کے لیے فوج اور اِداروں کو بدنام کرنے کی روش پر چلنا ملک کو نقصان پہنچانے اور کمزورکرنے کے مترادف ہے ایسا کرنا کسی رہنما کے شایانِ شان نہیں لانگ مارچ احتجاج کی ہی شکل ہے سب کو اِس کاحق حاصل ہے اسی لیے حکومتی استدعا سپریم کورٹ نے مسترد کی مگر اِس آڑ میں اِداروں کے خلاف جاری منفی مُہم کی حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی عمران خان کا شمار ملک کے بڑے سیاسی رہنما ؤں میں ہوتاہے ضرورت اِس امر کی ہے کہ ذہنی پستی کا مظاہرہ نہ کریں کیونکہ محدود سیاسی مفاد کے لیے فوج اور عوام میں دوریاں پیدا کرنا کسی طورحب الوطنی نہیں بلکہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے ایسی نوعیت کی ہر سرگرمی بدترین ابن الوقتی اور مفاد پرستی کے زمرے میں آتی ہے۔
آزادی اظہار کے حق سے کسی کو محروم نہیں کیا جا سکتا لیکن ایسا آزادی اظہار جس سے اِداروں کی ساکھ متاثر ہو کی کسی صورت اجازت نہیں دی جا سکتی ہمسایہ ملک بھارت یا امریکہ میں کوئی ایسی جسارت کرے تو اُسے عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے مگر پاکستان میں جس کا دل چاہتا ہے منہ کھول کر اِداروں پر تنقید شروع کر دیتاہے اورکوئی پوچھنے والا نہیں اگر پوچھ تاچھ کی جائے تو آزادی اظہار کا راگ شروع کر دیا جاتا ہے یہ رویہ یا سوچ کسی طور لائق ِ تحسین یا قابلِ تقلید نہیں بلکہ من حیث القوم ہمیں ایسے رویے اور سوچ کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے عمران خان اور پی ٹی آئی کو محب الوطن ہونے کابڑا زعم ہے لیکن اِ داروں پربھی بغیر ثبوت شک کرنے کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی ملکی دفاع کے ضامن اِدارے کاکوئی ایسا شخص جس نے کئی دہائیوں پر محیط ملازمت کے دوران دفاع وطن کا فریضہ سرانجام دیا ہو وہ کسی بیرونی سازش میں آلہ کار بن ہی نہیں سکتا اسی بات کی وضاحت کے لیے ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل بابر افتخار کے ساتھ پہلی بار ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ندیم انجم کو پریس کانفرنس کا حصہ بننا پڑا ہے میر جعفر و میرصادق، نیوٹرل،سازشی،جانور اور غدار جیسے القابات سے پکارنا وطن پرستی یا وطن دوستی تو ہر گز نہیں سچ یہ ہے کہ زبان درازی کی وجہ سے عمران خان خود اپنی مشکلات میں اضافہ کررہے ہیں اِس لیے اُنھیں محتاط گفتگو کرنی چاہیے رواں برس گیارہ مارچ کو بطوروزیرِ اعظم انھوں نے سائفر پرخود کہا کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں مگر سیاسی فضا خلاف ہوتی دیکھ کر 27 مارچ کے جلسے میں کاغذ لہرانا اوربیرونی سازش قرار دینا ظاہر کرتاہے کہ سازشی بیانیہ اپناکرلانگ مارچ کے لیے نکلنا سیاسی اہداف حاصل کرنے کے سوا کچھ نہیں۔
ارشد شریف کی ناگہانی موت پرملک کا ہر مکتبہ فکر سوگوار ہے اور قاتلوں کو بے نقاب کرنے کے ساتھ سزا پاتے دیکھنا چاہتا ہے مگر پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا اِس واقعہ کا ذمہ دارحکومت اور وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ کو قرار دینے پر بضد ہے مجھے حکومت یا رانا ثنا اللہ کی صفائی دینے کا کوئی شوق نہیں بلکہ رانا ثنا اللہ اور مریم نواز کی طرف سے اِس اندوہناک سانحے پر ابتدائی تبصرہ راقم کو اچھا نہیں لگا جھوٹ اور دشنام طرازی کی سیاست کا خاتمہ ہونا چاہیے اِس سوال کا جواب حاصل کرنانہایت ضروری ہے کہ ارشد شریف کو ملک سے باہر جانے پر کس نے مجبور کیا اور کون کون سہولت کارتھا؟نیز دبئی سے کینیا بھیجنے میں کیا مصلحت اور کس کا ہاتھ تھا سفری معاملات انجام دینے سے لیکر قیام و طعام میں کون مددگاراور پیش پیش رہا اور کس نے کہا کہ ملک میں واپس نہ آنا وگرنہ ماردیا جائے گا اورزندہ رہناہے تو آپ کے لیے کینیا کی سرزمین ہی محفوظ  ہے وقار احمد اور خرم احمد کے کردار کا جائزہ لیا جانا بھی ضروی ہے اگر مذکورہ سوالات کے جوابات مل گئے تو قاتل تک پہنچنا آسان ہو جائے گا باعثِ اطمینان یہ ہے کہ عسکری اِدارے نے عدالتی کمیشن بنانے کی سفارش کی جسے حکومت نے تسلیم کرتے ہوئے عملدرآمد بھی کر دیا ہے اب اگر کمیشن غیرجانبداری سے آزادانہ کام کرتے ہوئے جلد حقائق سامنے لے آتا ہے تو متعدد رازوں سے پردہ اُٹھ جائے گا۔

تبصرے بند ہیں.