قومی سلامتی کو در پیش سنگین خطرات

8

دنیا بھر میں خفیہ ایجنسیوں کے سربراہ عام طور پر اخباری بیان جاری نہیں کرتے اور نہ ہی میڈیا پر براہ راست آتے ہیں۔ یہ روایت پاکستان میں بھی ہے بلکہ موجودہ آئی ایس آئی سربراہ جب سے اس منصب پر آئے ہیں انہوں نے میڈیا کو مراسلہ جاری کیا تھا کہ کسی اخبار یا ٹی وی پر ان کی تصویر نہیں آنی چاہیے جس پر عمل درآمد بھی ہوا لہٰذا جب وہ پریس کانفرنس میں شریک ہوئے تو یہ تمام حلقوں کے لیے ایک حیرت کی بات تھی مگر معاملہ یہ ہے کہ غیر معمولی حالات غیر معمولی اقدامات کے متقاضی ہوتے ہیں اس وقت ملکی سلامتی کو جو خطرات لاحق ہیں اور جتنا damage ہو چکا ہے اس کا اندازہ آپ اس فیصلے سے لگا سکتے ہیں۔ اداروں کے بارے میں جس طرح کے بیانات جو رویہ اور جو طرز عمل گزشتہ 6 ماہ سے جاری تھا اس کا ازالہ یا سدباب ناگزیر تھا۔ ایک دوسرا سوال یہ تھا کہ SPY chief کے براہ راست میڈیا ٹاک کے بجائے یہ کام آئی ایس پی آر سے لیا جا سکتا تھا۔ یہ پریس کانفرنس ایک ایسے وقت ہو رہی ہے جب نئے آرمی چیف کا انتخاب ہونا ہے۔ اس پس منظر میں نئے چیف کے لیے امیدواروں کی فہرست میں شامل ایک نام کا ہائی لائٹ ہو جانا یا ہائی لائٹ کر دیا جانا یہ پیغام ہے کہ اگلے آرمی چیف بننے کے سب سے زیادہ امکانات کس شخصیت کے ہیں۔ اس سے قطع نظر یہ پریس کانفرنس بہت ضروری تھی تاکہ معاشرے میں جاری پراپیگنڈا کے اثرات کو زائل کیا جا سکے۔
اس کانفرنس میں دو باتیں ثابت ہوتی ہیں پہلی یہ کہ اپوزیشن اور قومی اداروں کے درمیان قومی اصلاح احوال پر جاری بیک چینل مذاکرات بے نتیجہ بلکہ ناکام ہو گئے ہیں جس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ عمران خان نے فوری طور پر لانگ مارچ کا اعلان کر دیا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ عمران خان جو سیاسی اور جمہوری قوتوں سے یعنی حکومت کے ساتھ مذاکرات سے انکاری ہیں۔ اب اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ملٹری کے ساتھ بھی ان کی بات چیت ممکن نہیں رہی گویا اپوزیشن جہاں پہنچ گئی ہے وہاں سے واپسی کا راستہ نہیں ہے یہ ایک خطرناک ڈیڈ لاک ہے جس سے ملک میں سنگین بحران پیدا ہو چکا ہے۔ یہ بڑی سنجیدہ بات ہے کہ آئی ایس آئی چیف میڈیا پر آکر کہہ رہے ہیں کہ اگر حکومت امن و امان کے قیام کے لیے آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت فوج طلب کرے گی تو فوج اپنا آئینی کردار ادا کرے گی تا کہ ملکی سلامتی کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ اس پیغام کا مطلب تحریک انصاف اور عمران خون بخوبی سمجھتے ہیں مگر وہ اپنے پیروکاروں کو نہیں بتائیں گے اور نہ ہی توجہ دلائیں گے کہ کہیں لانگ مارچ کے شرکاء کو معاملے کی سنگینی کا احساس نہ ہو جائے اور وہ گھر بیٹھ جائیں۔
حالیہ سیاسی بحران کا آغاز سال کے شروع میں ہوا جو مارچ تک عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی صورت میں سامنے آیا۔ PDM کے پاس حکومت کا تختہ الٹانے کے لیے عددی اکثریت موجود تھی مگر عمران خان چاہتے تھے کہ اقتدار کی اس جنگ میں آرمی تحریک انصاف کا ساتھ دے اور انہیں بچائے مگر آرمی کا مؤقف تھا کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جاری اس رسہ کشی میں وہ غیر جانبدار رہیں گے اور کسی کی حمایت نہیں کریں گے جس پر عمران خان نے نیو ٹرلز کے لفظ کو گالی بنا دیا اور کبھی جانور کہا اور فوج کو میر جعفر اور میر صادق جیسے رسوا کن نام دیے۔ عمران خان کی ضد تھی کہ فوج نیوٹرل نہ رہے بلکہ ان کی مدد کرے۔
اس موقع پر ایک امریکی سائفر کو پاکستان کے خلاف سازش قرار دے کر ایک نیابیانیہ لانے کی کوشش کی گئی ہے کہ امریکہ پاکستان میں عمران خان کی حکومت ختم کرنا چاہتا ہے ایک سفیر کی ذاتی رائے کو ثبوت بنا کر پیش کر دیا گیا اور عوامی جلسوں میں اس کا پرچار کیا گیا حالانکہ یہ کچھ بھی نہیں تھا امریکہ جہاں حکومتیں تبدیل کرتا ہے انہیں لیٹر نہیں لکھے جاتے اور نہ ہی ایسی کوئی بات تھی۔ عمران خان نے معاشرے میں موجود امریکی نفرت اور ناپسندیدگی کو اپنے حق میں کیش کرانے کے لیے جو ڈرامہ شروع کیا اس کے بارے میں خود ان کی گفتگو ریکارڈ پر ہے کہ ہم نے اس پر کھیلنا ہے۔  عمران خان کا سازش کا بیانیہ عوام میں اتنا مقبول ہوا کہ وہ جولائی اور اکتوبر کے ضمنی انتخابات میں بھاری اکثریت سے جیت گئے اس جیت کی وجہ سے انہوں نے دفاعی اداروں پر اپنے جلسوں میں پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ حملے شروع کر دیے اور حکومت کو مطالبہ کیا کہ جلد از جلد نئے انتخابات کی تاریخ دیں۔
عمران خان اقتدار سے محرومی کے بعد یہ چاہتے تھے کہ سازشی بیانیے کی وجیہ سے ان کی ریٹنگ اتنی بڑھ چکی ہے کہ وہ دوبارہ وزیراعظم منتخب ہونے میں کوئی دقت محسوس نہیں کرتے یہ بات کافی حد تک ضمنی انتخاب میں درست بھی ثابت ہو گئی۔ اس اثنا میں ان کا اصل ٹارگٹ یہ تھا کہ نومبر سے پہلے پہلے ملک میں عام انتخابات مکمل ہو جائیں تا کہ وہ بطور دوسری بار وزیراعظم نئے آرمی چیف کی تعینات کا اختیار حاصل کر لیں۔ اس کثیر جہتی اختیار کو وہ اپنے مرضی کے آرمی چیف کی تعیناتی کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے تا کہ نیا آرمی چیف ان کی مرضی کا ہو گا تو وہ اپنی دوسری مدت کے 5 سال پر سکون اور اطمینان سے گزار سکیں گے لیکن ان کی یہ خواہش اب دم توڑ چکی ہے بلکہ ان کے مخالفین ایسا آرمی چیف لانا چاہتے ہیں جس کا عمران خان کے ساتھ ماضی میں ایک غیر اطمینان بخش ورکنگ ریلیشن رہا ہے کیونکہ عمران خان نے ان کی تعینات کے نوٹیفکیشن پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا اور معاملہ سیاست کی نذر ہو گیا تھا۔
عمران خان صاحب ایک لحاظ سے بڑے خوش قسمت ہیں کہ انہیں ہر معاملے میں ایک سے بڑھ کر ایک موقع ملتا رہا ہے یہ الگ بات ہے کہ 4 سالہ دور حکومت میں ان کی معاشی کارکردگی نہایت خراب رہی اور ملک قرضوں کے چنگل میں پھنستا چلا گیا اور مہنگائی نے عوام کے لیے دو وقت کی روٹی مشکل کر دی۔ یہ قسمت کی بات ہے کہ انہیں جہانگیر ترین علیم خان فیصل واوڈا جیسے کارپوریٹ ٹائیکون ملے جنہوں نے پارٹی پر اربوں روپے لٹا کر انہیں اقتدار دلوایا اورآج وہ ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ فارن فنڈنگ سے اندھا دھند ڈالروں کی بارشیں عمران خان کی چھت پر اترتی رہیں۔ بنی گالہ کی 300 کنال پراپرٹی تحفے میں مل گئی یہ شخص اس لحاظ سے مقدر کا سکندر ہے۔ مگر عمران خان عوامی مسائل اور اچھی حکمرانی یا کچھ ڈلیور کرنے میں بہت غیر تسلی بخش ریکارڈ کے حامل ہیں۔
حالیہ سیاسی ڈیڈ لاک میں جب انہیں نئے انتخابات کی تاریخ لینے میں ہر طرف سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو انہیں صحافی ارشد شریف کی اندوہناک موت میں ایک اور سنہری موقع نظر آیا اور اب وہ ارشد شریف کا خون اپنی پارٹی کی سیاسی بنیادوں میں انڈیل کر اقتدار کے نئے چراغ روشن کرنا چاہتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ اس میں انہیں کتنی کامیابی ملتی ہے۔
عمران خان کے اداروں کے ساتھ براہ راست ٹکراؤ کے اس موقع پر ان کی مخالف سیاسی جماعتیں اندر سے لطف اندوز ہو رہی ہیں مگر اس میں لگتا ہے کہ ان کا کوئی کردار نظر نہیں آتا حالانکہ نئے انتخابات سرپر ہیں اور حکومتی جماعتیں خصوصاً ن لیگ بری طرح الیکشن ہاری ہے انہیں بھاری چیلنج در پیش ہے مگر وہ بھی شاید عمران خان کی طرح اس نظریے پر کام کر رہے ہیں کہ مرضی کا آرمی چیف لگائیں اور 5 سال سکون سے گزاریں مگر سکون سے گزرنے کے لیے پہلے انہیں انتخابات میں اکثریت حاصل کرنا ہو گی اور حکومت کی موجودہ کارکردگی ایسی نہیں کہ وہ ضمنی انتخابات کے حالیہ نتائج سے کوئی مختلف نتیجہ برآمد کر سکیں۔
بہرحال عمران خان کی سیاسی مخالفین، عدلیہ اور دفاعی اداروں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر سے ملک اس وقت خانہ جنگی یا سول وار کے دہانے پر پہنچ چکا ہے جس سے پاکستان مخالف قوتیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ اس وقت ملک کو مفاہمت کی جتنی ضرورت ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ اگر لانگ مارچ کے نتیجے میں حالات قابو سے باہر ہوتے ہیں تو پھر اگلے عام انتخابات کے منعقد ہونے میں بھی شکوک و شبہات پیدا ہو سکتے ہیں جو موقع پرست سیاستدان پی ٹی آئی میں شامل ہیں وہ زیادہ دیر انتظار نہیں کریں گے اور پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گی۔

تبصرے بند ہیں.