ایک تاریخی فیصلہ!

31

اللہ پاک ہمارے ملک پر رحم فرمائے۔ ہر روز ہمیں کوئی نہ کوئی نیا معاملہ درپیش ہوتا ہے۔ ایک طرف ملک کی معیشت ہے جس کی حالت سنبھلنے میں نہیں آ رہی۔ مہنگائی کے طوفان نے  عوام الناس کی کمر توڑ رکھی ہے۔ بیروز گاری، لاقانیت، تعلیم اور صحت سمیت دیگر مسائل کا ڈھیر لگا ہے۔تمام تر امدادی کاروائیوں کے باوجود سیلاب زدگان کی مشکلات ختم ہونے میں نہیں آ رہیں۔ ان حالات میں جب ہمیں سیاسی اتحاد اور استحکام کی سب سے زیادہ ضرورت ہے،  سیاسی منظرنامے پر نگاہ ڈالیں تو نہایت مایوسی ہوتی ہے۔ سیاسی رہنما غریب عوام کے مسائل کی طرف توجہ دینے کے بجائے ایک دوسر ے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہیں۔ آج خبر آتی ہے کہ چوہدری پرویز الہیٰ کی وزارت اعلیٰ بس چند دنوں کی بات ہے۔ اگلے دن یہ تبصرے سننے کو ملتے ہیں کہ شہباز شریف کی وفاقی حکومت جلد رخصت ہونے کو ہے۔یہ ایک اہم حقیقت ہے کہ سیاسی استحکام کسی بھی ملک کی ترقی اور قوم کے اطمینان کیلئے نہایت ضروری  امرہے۔جبکہ سیاسی بے یقینی ملک و قوم کیلئے زہر کا درجہ رکھتی ہے۔ بے یقینی کی کیفیت ملکی معیشت اور غیر ملکی سرمایہ کاری پرانتہائی منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔داخلی طور پر سیاسی بے یقینی عوام الناس میں بے چینی اور اضطراب پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں اس وقت سیاسی بے یقینی اپنے عروج پر ہے۔ ان سیاسی حالات نے ملک میں اضطراب کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔ فی الحال یہی لگتا ہے کہ سیاسی بے یقینی کی یہ صورتحال برقرار رہے گی۔
وفاقی حکومت سے بے دخل ہونے سے لے کر اب تک عمران خان سائفر اور امریکی سازش کے بیانیے کی بنیاد پر جلسوں میں مصروف تھے۔ اب انہوں نے لانگ مارچ کی کال بھی دے دی ہے۔ عمران خان کے اعلان کے مطابق وہ کل یعنی 28 اکتوبر بروز جمعہ سے لاہور لبرٹی چوک سے اپنے لانگ مارچ کا آغاز کریں گے۔میڈیا پر اس دھرنے کے معیشت اور سیاست پر اثرات کے حوالے سے تبصرے ہو رہے ہیں۔  چند دن سے ملک میں سینئر صحافی ارشد شریف کی افسوسناک ہلاکت کی خبر بھی زیر بحث ہے۔اس ضمن میں طرح طرح کے سازشی مفروضے بھی زیر گردش ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہونے والے تبصرے بسا اوقات اخلاقی حدود سے متجاوز محسوس ہوتے ہیں۔حکومتی اور اپوزیشن جماعتیں بھی متواتر پریس کانفرنسوں میں نئے نئے بیانات داغنے اور اپنے مخالفین کو لتاڑنے میں مصروف ہیں۔
سیاسی افراتفری اور الزام تراشی کے ہنگام، افواج پاکستان کے ترجمان ادارے آئی۔ایس۔ پی کے ڈی،جی کو بھی ایک پریس کانفرنس کرنا پڑی۔ اندازہ کیجئے کہ ملکی حالات کس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ آئی۔ ایس۔ آئی کے ڈی۔ جی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کو بھی پریس کانفرنس کرنا پڑی۔ گزشتہ کئی مہینوں سے امریکی سازش اور سائفر کو بنیاد بناتے ہوئے جو طوفان بپاہے۔ ا س پریس کانفرنس میں اس بیانیے کو جھوٹ پر مبنی قرار دیا گیا۔ پریس کانفرنس میں ڈی۔۔۔۔۔ جی آئی۔ ایس۔پی۔آر نے  ارشد شریف کی ہلاکت کے حوالے سے بھی کھل کر بات کی۔انہوں نے بتایا کہ ارشد شریف کو پشاور ائیر پورٹ سے کے۔پی حکومت کی نگرانی میں ملک سے باہر بھیجا گیا۔ اس ضمن میں انہوں نے ایک نجی ٹیلی ویژن کے مالک کا نام بھی لیا، جن کی ہدایات پر سینئر صحافی کو ملک سے باہر بھیجوایا گیا تھا۔ تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے حوالے سے آئی۔ایس۔آئی کے ڈی۔جی نے بتایا کہ انہیں کسی کے احتجاج، دھرنے یا لانگ مارچ پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ تما م جمہوری ممالک میں احتجاج ہوتے ہیں۔ آئین پاکستان بھی ہر شہری کو احتجاج کا حق دیتا ہے۔ لیکن آئین نے احتجاج کی کچھ حدود و قیود بھی طے کررکھی ہیں، جن کی پابندی لازم ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ زیادہ لوگ ایک جگہ اکھٹے ہو جائیں تو خطرہ ہوتا ہے، ان حالات میں سیکیورٹی فراہم کرنا ہمارا فرض ہے۔ڈی۔ جی آئی۔ ایس۔آئی کا کہنا تھا کہ وہ سیاست دان جو فوج کے سربراہ کو جلسوں میں ہدف تنقید بناتے ہیں، وہ رات کے اندھیرے میں سپہ سالار سے ملاقاتیں بھی کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ سیاسی تجزیہ کار اس پریس کانفرنس کو ایک نہایت اہم پریس کانفرنس قرار دے رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلی مرتبہ آئی۔ ایس۔ آئی کے کسی سربراہ نے پریس کانفرنس میں اظہار خیال کیا۔اورملک کے سیاسی حالات اور سازشی بیانیے پر کھل کر بات کی۔
آئی۔ایس۔ پی۔آر اور آئی۔ایس۔ آئی کے ڈائریکٹرجنرلز کی یہ پریس کانفرنس یقینا نہایت اہم ہے۔ ملک کے سیاسی حالات کے ہنگام اس کی اہمیت بے حد زیادہ ہے۔ سیاست اور صحافت کی ایک ادنی طالب علم ہونے کے ناطے میرے لئے سب سے اہم باتیں وہ ہیں جو اس پریس کانفرنس میں جمہوریت اور فوج کے سیاست میں دخل نہ دینے کے حوالے سے ہوئیں۔ یہ سن کر بہت اچھا لگا کہ ا فواج پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنی آئینی حدود کی پابندی کرئے گی اور ملک کی سیاست میں دخل اندازی نہیں کرئے گی۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ بتایا گیا کہ یہ کسی فرد واحد کا فیصلہ نہیں ہے۔ بلکہ بطور ادارہ فوج نے یہ فیصلہ کیا ہے اور آئندہ پندرہ بیس سالوں میں جو افسران افواج کی باگ ڈور سنبھالیں گے وہ اس فیصلے میں شامل ہیں۔اسے ایک تاریخی فیصلہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔
ہم بخوبی آ گاہ ہیں کہ جمہوریت کے حوالے سے ہماری تاریخ حوصلہ افزاء نہیں ہے۔ ہمارے ہاں مارشل لاء لگتے رہے۔ جمہوری حکومتوں کے خلاف سازشیں ہوتی رہیں۔انہیں راتوں رات گرایا جاتا رہا۔ ہماری عدالتیں بھی ماضی میں ان غیر آئینی اقدامات کی حمایت کرتی رہیں۔ اب اگر کوئی ادارہ کھلے دل سے اپنی ماضی کی غلطیوں کو نہ دہرانے کا عزم رکھتا ہے تو اس کی تحسین ہونی چاہیے۔ ماضی میں ہمارے ریاستی اداروں نے اپنی آئینی حدود سے تجاوز کیا۔ بالکل اسی طرح سیاست دانوں سے بھی بہت سی غلطیاں ہوئیں۔ خوش آئند امرہے کہ اب ایک ادارہ ان غلطیوں کو نہ دہرانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ بہت اچھا ہو اگر دوسرے ادارے بھی اس کی تقلید کریں۔ اس حوالے سے سیاست دانوں کی ذمہ داری بھی نہایت اہم ہے۔ لازم ہے کہ سیاست دان بھی آئین و قانون کی حدود میں رہنے کا عزم کریں۔ ایک دوسرے کی حکومت گرانے اور بر سر اقتدار آنے کے لئے غیر آئینی حربے اختیار کرنے اور مختلف اداروں کے دروازے کھٹکھٹانے سے اجتناب کریں۔ جب تک سیاست دانوں یہ عزم نہیں کرتے، تب تک جمہوریت مضبوط ہو سکے گی اور نہ ہی پاکستان آگے بڑھ سکے گا۔

تبصرے بند ہیں.