ارشد شریف چلا گیا

25

انا للہ واناالیہ راجعون۔ اللہ اس کی لغزشیں معاف کرے، انہیں جنت مکین کرے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے، بے شک ہر ایک نے لوٹ کر جانا ہے۔ ارشد شریف کی ناگہانی موت نے بہت سے سوال کھڑے کر دیے ہیں۔ وہ قلم قبیلے کا باسی تھا مگر کچھ لوگ اسے اپنی سیاست کی بھینٹ چڑھا کر اس خون ناحق کو دفن کرنا چاہتے ہیں۔ جیسے ہی ارشد شریف کے قتل کی اطلاع آتی ہے ایک جماعت کا سوشل میڈیا سیل متحرک ہوتا ہے اور اسے بڑی ہوشیاری کے ساتھ فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ جوڑ دیتا ہے۔ کیا یہ سب ارشد کی محبت میں ہو رہا ہے بالکل نہیں بلکہ اپنی سیاست کو آگے بڑھانے کے لیے مذموم پروپیگنڈے کو فروغ دیا جا رہا ہے اور ریاست اتنی بے بس نظر آتی ہے کہ اس پر ایکشن لینے کے بجائے معذرت خواہانہ رویہ اپنا رہی ہے۔۔معاملہ کی نزاکت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ شہبازشریف جو اس وقت ملک میں نہیں تھے انہیں ویڈیو بیان جاری کرنا پڑا اور اس کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دے دیا گیا۔ اس قتل کی تحقیقات کے لیے ایف آئی اے اور آئی بی پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی گئی ہے جو وزارت داخلہ کو اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔
جوڈیشل کمیشن کو اتنا بااختیار بنایا جائے کہ وہ کسی کو بھی طلب کر سکے اور ممکن ہو تو اقوام متحدہ سے اس کی تفتیش کرانے کے لیے کہا جائے تاکہ اصل ذمہ داران کا تعین ہو سکے۔ اس قتل سے حکومت کو بری الزمہ قرار نہیں دیا جا سکتا کہ اس پر بھی انگلیاں اٹھائی گئی ہیں اور اسے بھی بہت سے سوالات کا جواب دینا ہے۔
عمران خان ارشد شریف کے قتل سے سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، انہوں نے ہمیشہ لوگوں کو اپنی سیاست کے لیے استعمال کیا ہے لیکن انگلیاں ان کی طرف بھی اٹھ رہی ہے بلکہ بہت مضبوط دلائل دے جا رہے ہیں۔ پہلا سوال ہی یہ کیا جا رہا ہے کہ اس قتل کا فائدہ کس کو ہو رہا ہے۔ یہاں تو بے نظیر بھٹو کے قتل کا الزام ان کے خاوند آصف علی زرداری پر لگ گیا تھا۔ ارشد شریف نے آخر ایسا کون سا کام کر دیا تھا کہ اسے باقی لوگوں کی طرح معافی نہیں مل سکتی تھی۔ معاملہ شہباز گل کے اے آر وائی کے بیپر سے شروع ہوا تھا، شہباز گل جیل کاٹ کر باہر آگیا۔ اے آر وائی بند ہوا اس کے ملازمین پر مقدمات بنے مگر وقت کے ساتھ معاملات بہتر ہو گئے۔ اے آر وائی کی نشریات بحال ہو گئیں، اور جن پر مقدمات پر تھے انہیں عدالت نے ضمانت دے دی۔ ارشد شریف کو اتنا زیادہ خوفزدہ کس نے کر دیا تھا کہ وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ اسلام آباد سے پشاور روانگی ہوئی اور پھر سرکاری پروٹوکول میں انہیں دبئی روانہ کر دیا گیا۔ دبئی میں ان کے رہنے کا بندوبست کس نے کیا اور اس کے میزبان کون تھے؟ کیا سچ میں انہیں کسی نے یو اے ای چھوڑنے پر مجبور کیا تھا یا وہ اپنی مرضی سے وہاں گئے تھے؟ سوشل میڈیا پر یہ افواہ بھی گردش کر رہی ہے کہ ایک اہم حکومتی شخصیت نے وہاں کی حکومت سے حوالگی کا مطالبہ کیا تھا جس پر انہیں فوری طور پر یو اے ای چھوڑنے پڑا۔ یہ وہ سرے ہیں جن کی مدد سے اس قتل میں ملوث کرداروں تک پہنچا جا سکتا ہے۔ یہ قتل کینیا کی پولیس کی نادانستہ کارروائی قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ اس کے کرداروں تک پہنچنا
قدرے آسان ہے۔ اس میں ملوث کرداروں کا تعاقب اسلام آباد سے شروع ہو گا، پشاور اور دبئی سے ہوتے ہوئے کینیا کے شہر نیروبی تک جائے گا۔
پہلا سوال یہ سامنے آتا ہے کہ اسے اتنا خوفزدہ کس نے کر دیا تھا۔ کیا حقیقت میں ایسی کوئی تھریٹ موجود تھی کہ اسے پاکستان میں موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا۔ کیا اس کا جرم شہباز گل سے زیادہ تھا کہ وہ خوف زدہ ہو گئے اور بھاگ گئے۔  پشاور میں ان کے میزبان کون تھے اور کن لوگوں نے انہیں وہاں معاونت فراہم کی اور اس سے بھی  پہلا سوال یہ کہ کیا ان کا نام ائیرپورٹ کی سٹاپ لسٹ میں تھا کہ وہ اسلام آباد سے دبئی نہیں جا سکتے تھے۔ کیا دبئی میں ان کا کوئی میزبان تھا جس کے پاس وہ ٹھہرے ہوئے تھے اور اس دوران ان کا رابطہ کن کے ساتھ تھا۔ اس سوال کا جواب بھی تلاش کرنا مشکل نہیں ہے کہ انہیں کینیا کس نے بھیجا؟ کینیا میں ان کے میزبان خرم اور وقار سے وہ کب متعارف ہوئے، کس نے متعارف کرایا؟ شہزاد اکبر کا خرم اور وقار کے ساتھ کوئی تعلق تھا یا نہیں کیونکہ ان کے حوالے سے بھی سوشل میڈیا پر انگلی اٹھائی جا رہی ہے۔ کیا وقار اور خرم فیملی فرینڈ تھے؟ کیا وہ جاسوس تھے کہ اپنی لوکیشن کسی سے شئیر نہیں کر رہے تھے؟ اگر انہیں ریاست کی جانب سے جان کا خطرہ تھا تو انہوں نے کسی دوسری ریاست کی پروٹیکشن کیوں نہیں لی۔ کسی ملک سے سیاسی پناہ کی درخواست کیوں نہیں کی۔ کیا صرف کینیا ہی پاکستان کو آن ارائیول ویزہ دیتا ہے کیا کوئی دوسرا ملک یہ سہولت فراہم نہیں کرتا حالانکہ آپ آذربائیجان کا ویزہ ہنگامی بنیاد پر تین گھنٹے میں حاصل کر سکتے ہیں۔ اب آتے ہیں کہ خرم اور وقار کی طرف۔ کیا وہ بزنس مین ہیں اور ان کا تعارف کیا ہے۔ وہ جس کمپنی کے تحت ریزارٹ اور فائرنگ رینج چلا رہے ہیں وہ ان کی ملکیت ہے یا کسی اور کی۔ جس جگہ فائرنگ رینج ہو یا فائرنگ کی تربیت دی جاتی ہو وہاں پولیس کو سب پتہ ہوتا ہے اور وہ قریبی رابطے میں رہتے ہیں، ان کی گاڑیوں سے پولیس بخوبی واقف ہوتی ہے۔ جس گاڑی پر فائرنگ ہوئی اور جو ان کے استعمال میں تھی وہ عام گاڑی نہیں تھی، کینیا اور پاکستان میں وہ عام گاڑی نہیں ہے اور اعلیٰ طبقے کے پاس ہوتی ہے کیا وہاں کی پولیس کو اس گاڑی کے بارے میں علم نہیں تھا۔ جس گاڑی کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ وہ بچے سمیت اغوا ہوئی تھی کیا وہ بھی ایسی ہی گاڑی تھی۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ جب ارشد شریف کو گولی لگی تو اسے فوری طور پر ہسپتال منتقل کیوں نہیں کیا گیا اور ڈرائیور جائے حادثہ سے گاڑی بھگا کر کس طرح لے گیا۔ کیا فائرنگ کے باوجود ڈرائیور گاڑی بھگا کر لے جانے میں کامیاب ہو گیا اور پولیس اسے گرفتار کیوں نہ کر سکی؟
مجھے پختہ یقین ہے کہ اس قتل کا کھرا وقار اور خرم کی گرفتاری اور تفتیش سے نکل آئے گا۔ یہ قتل وہاں کی پولیس کے کھاتے میں ڈال کر چھپنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ فوج کو براہ راست ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ فوج نے حکومت کو خط لکھ کر اس معاملہ کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کر دیا ہے۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے صحافی ارشد شریف کے قتل کے بعد ہونے والی الزام تراشی پر مکمل تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس مہم سے کون فائدہ اٹھا رہا ہے اس کا تعین ہونا چاہیے۔جی ایچ کیو کی جانب سے حکومت پاکستان سے درخواست کی گئی ہے کہ اس افسوس ناک واقعے کی مکمل تحقیقات کرائی جائے اور اس کے جو بھی عوامل اور محرکات تھے ان کو بھرپور طریقے سے دیکھنے کی ضرورت ہے’۔انہوں نے کہا کہ ‘یہ تحقیقات ان حالات کی ہی نہیں ہونی چاہیے کہ وہاں پر کیا ہوا بلکہ ان حالات کی بھی ہونی چاہیے کہ ارشد شریف کو پاکستان سے جانا کیوں پڑا، کس نے ان کو مجبور کیا یہاں سے جانے کے لیے اور کیسے گئے اور اس دوران کہاں پر رہے’۔
اقوام متحدہ نے بھی ارشد شریف کی ’پراسرار موت‘ کی مکمل تحقیقات پر زور دیتے ہوئے نتائج منظرعام پر لانے کا مطالبہ کیا ہے۔سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن ڈوجارک نے واشنگٹن میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے ارشد شریف کی موت کی المناک رپورٹ دیکھی ہے، میرے خیال میں وجوہات کی مکمل چھان بین کی ضرورت ہے اور کینیا کے حکام نے کہا ہے کہ وہ ایسا کریں گے‘۔امریکا نے بھی سینئر صحافی اور اینکر پرسن ارشد شریف کی موت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کینیا کی حکومت سے واقعے کی مکمل تحقیقات پر زور دیا ہے۔ امید کرنی چاہیے کہ اس کے ذمہ داران کا تعین ہو گا اور جو بھی ملوث ہو اسے قرار واقعی سزا دی جائے گی۔

تبصرے بند ہیں.