سنبھل کے چل

11

ہم نے زمین کا یہ ٹکڑا اپنے رَب سے اِس عہد کے ساتھ حاصل کیا تھا کہ ہم اِسے اسلام کی تجربہ گاہ میں ڈھالیں گے۔ 13 جنوری 1948ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں خطاب کرتے ہوئے قائدِاعظمؒ نے فرمایا ”اسلام ہماری زندگی اور ہمارے وجود کا بنیادی سرچشمہ ہے۔ ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں اسلام کے اُصول آزما سکیں“۔ یہ تجربہ گاہ بن تو گئی مگراسلام کی نہیں بلکہ فرقہ واریتوں، لسانی منافرتوں اور آمریتوں کی۔ یہاں ابتدا ہی سے استحصالی قوتوں نے قبضہ جمایا جو آج تک جاری ہے۔ دوسری طرف ہم اپنے آپ کو ایک قوم کے قالب میں ڈھالنے سے قاصر رہے یا پھر ہمیں ایک قوم بننے ہی نہیں دیا گیا۔ ہم نے پچھلے پچھتر برس میں چھبیس وزرائے اعظم بھگتے اور چار آمریتیں بھی۔ وجہ یہ کہ جب حاکم امانت کا حق ادا نہیں کرتا تو قوموں کے اندر معاشی ومعاشرتی برائیوں کا پیدا ہونا اظہر من الشمس۔ یہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہوا۔ہمارے رَہنماؤں کو جہاں بانی کا شوق بہت مگر کارِجہاں سے بے بہرہ۔ مثالیں حضرت عمرؓ کی لیکن خاک کے فرش پر سونا تو درکناراِن کے پاؤں دبیز قالینوں کے بغیر نہیں اُٹھتے۔ انواع واقسام کی موجوداتِ ارضی صرف اُن کا نصیبہ، غریب کی جھولی خالی۔ اپنی ذات کے گنبد میں گُم مہربانوں سے خیر کی توقع عبث۔
سوال یہ کہ زمین کا یہ ٹکڑا الفت ومحبت کی خوشبوؤں سے مہکتا ہوا گلزار بنانے کے لیے حاصل کیا گیا تھا یا نفرتوں کے الاؤ دہکانے کے لیے؟۔ کیا یہاں اخلاقی برتری کی جہانگیری ہے یا کھنکتے سکوں کی جہانداری۔ جہاں آدھا وقت بدترین آمریتوں کی نذر ہو جائے اور باقی آدھا جمہوری آمریتوں کی بھینٹ چڑھ جائے وہاں متاعِ حیات بوجھ بن جاتی ہے۔ جہاں تفکر و تعقل ذاتی مصلحتوں کے دَر پر سجدہ ریز ہو جائے وہاں
وہاں فلک پہ ستاروں نے کیا اُبھرنا ہے
ہر ایک آنکھ جہاں آنسوؤں کا جھرنا ہے
جہاں قنوطیت کا عفریت دانت نکوسنے لگے، عریاں ناانصافیاں رقص کناں ہوں، طبقاتی تضاد میں مجبورومقہور سسکنے لگیں، جھوٹ جہانِ تخیل سے ماوراء ہو جائے، سیاست میں کثافت ہی نہیں خباثت بھی شامل ہو جائے، عدل کے اونچے ایوان زورآوروں کے خوف سے لرزہ براندام ہوں، نئی صبح نئی شام کی آرزو حماقت قرار پائے اور بیت المال کو باپ کا مال سمجھ لیا جائے وہاں بادِ سموم کی آندھیاں تو آسکتی ہیں، اذہان وقلوب کو معطر کرنے والے بادِ نسیم وشمیم کے جھونکے نہیں۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب حجت تمام ہو جاتی ہے اور توبہ کے سارے دَر بند ہو جاتے ہیں۔ پھر ”کتنی ہی نسلیں ہیں جنہیں ہم نے اِن سے پہلے ہلاک کر دیا۔ کیا تم اِن میں سے کسی کو محسوس کرتے ہو یا اِن کی آہٹ سنتے“ (سورۃ مریم آیت 199)۔ ”کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اِن سے پہلے ہم نے کتنی قومیں ہلاک کر دیں اور اِن کے بعد دوسری قوموں کو پروان
چڑھایا“ (سورۃ الانعام آیت 7)۔ ہم بھی تیزی سے اُسی طرف بڑھ رہے ہیں جس کا ذکر حکمت کی رفیع الشان کتاب میں بار بار کیا گیا ہے۔
آجکل ففتھ جنریشن وار کا غلغلہ بہت۔اِس جنگ نے ہمیں عصری کرب کا تحفہ بخشا ہے جس کے زیرِاثر نسلِ نَو دشنام کو اکرام سمجھنے لگی ہے۔تحقیق کہ یہ تحفہ ہمیں کپتان نے بخشا ہے جو اب نسلِ نَو میں بھی سرایت کر چکا۔ اب غیرپارلیمانی الفاظ کو اتنی پذیرائی مل چکی ہے کہ کوئی تحریر وتقریر اِن کے بغیرمکمل نہیں ہوتی۔ہماری پارلیمانی سیاست کا دوسرا بڑا ہتھیار جھوٹ ہے جو اس تواتر سے بولا جاتا ہے کہ سچ کا گمان ہونے لگتا ہے۔ جھوٹ کی فصل اُگانے میں کپتان کو مہارتِ تامہ حاصل ہے۔۔ اِس ہولناک ہتھیار کے ذریعے اذہان وقلوب پراگندہ ہو رہے ہیں اور سچ سننے کو کوئی تیار ہی نہیں۔ یہ کام سوشل میڈیا نے بہت آسان کر دیا ہے۔ جو ٹویٹر، فیس بُک اور انسٹاگرام پر حاوی، وہی سکندر۔ مثال ہمارے سامنے کہ تحریکِ انصاف سوشل میڈیا کی شہنشاہ اور کپتان کی مقبولیت رفعتوں کو چھوتی ہوئی حالانکہ محض چھ ماہ پہلے تک یہی مقبولیت زنگ آلود ہو چکی تھی۔ اگر تحریکِ انصاف کی حکومت کو اُس کی بقیہ مدت پوری کرنے دی جاتی تو آمدہ انتخابات میں قوم اُسے دھتکار دیتی لیکن اتحادیوں نے سارا گند اپنی جھولی میں ڈال لیا۔ اب صورتِ حال یہ ”نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں“۔ دراصل میاں شہباز شریف کو وزارتِ عظمیٰ کی ”پَگ“ اپنے سر پر سجانے کا شوق ہی بہت تھا۔اب نوازلیگ کی مقبولیت تیزی سے تنزلی کے سفر پر گامزن ہے اور پیپلزپارٹی دور بیٹھی ”انجوائے“ کر رہی ہے۔
بغاوت کپتان کا ایک اورہتھیار ہے جس کے بروقت استعمال میں اُن کا کوئی ثانی نہیں۔ 2014ء کے دھرنے میں، جب اسٹیبلشمنٹ اُن کی پُشت پر تھی تو اُنہوں نے سول نافرمانی کا اعلان کیا، پی ٹی وی پر قبضہ کیا، پارلیمنٹ ہاؤس کے گیٹ توڑے، یوٹیلٹی بِلز جلائے اور وزیرِاعظم ہاؤس پر یلغار کی۔ تب فضائیں اتنی مسموم ہوگئیں کہ چین کے صدر کو اپنا طے شدہ دورہ معطل کرنا پڑا تب کنٹینر پر کھڑے کپتان نے کہا ”او جھوٹو! چین کا صدر تو آ ہی نہیں رہا تھا“۔ اگلے روز پاکستان میں متعین چینی سفیر کو یہ وضاحت کرنا پڑی کہ حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے چینی صدر کا دورہ معطل کیا گیا ہے اور جونہی حالات بہتر ہوں گے وہ پاکستان تشریف لائیں گے۔ اہلِ فکرونظر اور صاحبانِ فہم وذکا تب بھی یہی سوچتے تھے کہ آخر ایک باغی کو کیفرِکردار تک کیوں نہیں پہنچایا جاتا۔ تب تو واقفانِ حال جانتے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ کپتان کی پُشت پر ہے اور اُنہیں قیادت کے لیے تیار کیا جا رہا ہے لیکن آج جبکہ اسٹیبلشمنٹ غیرجانبدار ہوچکی، مکرر وہی سوال کہ آخر کب تک؟۔
نرگسیت کے زیرِاثر نفرت کپتان کا مخصوص ہتھیار جس کا وہ جاوبے جا استعمال کرتے رہتے ہیں۔ اپنے پورے دَورِ حکومت میں اُنہوں نے اپوزیشن سے ملنا تو درکنار ہاتھ ملانا بھی کسرِشان سمجھا۔ وہ ہمیشہ یہی کہتے رہے ”میں چوروں اور ڈاکوؤں سے ہرگز ہاتھ نہیں ملاؤں گا“۔ آج جبکہ وہ مسلمہ چور ثابت ہو چکے پھر بھی اُن کی نفرت میں سرِمو فرق نہیں آیا۔ اب تو وہ یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ
مجھے اب آگئے ہیں نفرتوں کے بیج بونے
سو میرا حق یہ بنتا ہے کہ سرداری کروں میں
کپتان ایک دفعہ پھر لانگ مارچ کی تیاریوں میں ہے۔ اُنہوں نے جمعہ 28 مئی سے لانگ مارچ کا اعلان کر دیا ہے۔ اِس وقت وطنِ عزیز کے معاشی حالات انتہائی دگرگوں ہیں اور اتحادی حکومت سے معیشت سنبھالے نہیں سنبھل رہی۔ سیلاب کی تباہ کاریوں نے معیشت کو مزید پیچھے دھکیل دیا ہے لیکن کپتان اپنی ضد پر قائم کیونکہ اُنہیں صرف اقتدار چاہیے خواہ اِس کے عوض پاکستان دیوالیہ ہی کیوں نہ ہوجائے۔ اُن کی زبان پر آج بھی وہی رٹے رٹائے جملے کہ اُنہیں ایک سازش کے تحت اقتدار سے نکالا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا آئینِ پاکستان میں عدم اعتماد کا ذکر نہیں؟۔ کیا پوری دنیا میں عدم اعتماد ہوتے نہیں رہتے؟۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر سازش کہاں سے آگئی؟۔ اپوزیشن نے تحریکِ عدم اعتماد پیش کی اور تحریکِ انصاف کے اتحادیوں نے اپوزیشن کی تحریک کو کامیاب بنانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ یہ سب کچھ خالصتاََ آئینِ پاکستان کے تحت ہواجسے کپتان سازش کا نام دے کر پچھلے چھ ماہ سے احتجاج کر رہے ہیں۔ اب لانگ مارچ حصولِ اقتدار کے لیے غالباً اُن کی آخری کوشش ہے۔ دیکھتے ہیں کہ وہ اِس کوشش میں کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.