متوقع لانگ مارچ

18

یہ تو سنا تھا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا لیکن یہ نہیں سنا تھا کہ سیاست اس حد تک سفاک ہوتی ہے کہ وہ اپنے مفاد کی خاطر ہر چیز کو تہس نہس کر دے۔ ارشد شریف ایک پاکستانی صحافی تھے اور دیار غیر میں ان کی ناگہانی موت نے ہر آنکھ کو اشکبار کر دیا تھا کتنا اچھا ہوتا کہ جب ارشد شریف کا جسد خاکی ان کے وطن پاکستان لایا جاتا تو انھیں ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے ان کے سفر آخرت پر روانہ کیا جاتا لیکن افسوس اور بدقسمتی کہ ایک سیاسی جماعت کے انتہائی سفاکانہ طرز عمل نے ارشد شریف کو ایک سیاسی جماعت کا شہید بنا دیا حکومت نے اس پر دو رکنی تحقیقاتی کمیٹی بنا دی ہے جو کینیا میں جا کر تحقیقات کرے گی اور پاکستانی سفارت خانہ اس کی معاونت کرے گا اس ٹیم کو چاہیے کہ پاکستان میں جس جس نے یہ بیان دیا ہے کہ وہ ارشد شریف کے قاتلوں کو جانتا ہے انھیں شامل تفتیش کرے اور اس کے ساتھ ساتھ جن سوالات کی طرف ڈی جی آئی ایس پی آر نے نشاندھی کی ہے اس زاویہ سے بھی تحقیقات کی جائیں۔ ارشد شریف کینیا پولیس کے ہاتھوں ان کی انتہائی سنگین غلطی کی وجہ سے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔اس بات کا اعتراف کینیا کی پولیس نے اپنے ایک بیان میں بھی کیا۔ اصل حقائق کیا ہیں ان کا علم تو تحقیقات کے بعد ہی ہو سکے گا لیکن ابتدائی معلومات کے مطابق کینیا کے دارالحکومت نیروبی کے قریب کینین پولیس نے ایک بچے کے اغوا کار کو پکڑنے کے لئے ناکہ لگایا ہوا تھا اور بقول ان کے ارشد شریف جس گاڑی میں سفر کر رہے تھے اغوا کار بھی اسی طرح کی گاڑی میں سفر کر رہے تھے اور انھوں نے اسی شبہ میں ان کی گاڑی کو روکا لیکن جب گاڑی نہ رکی تو انھوں نے فائر کھول دیا جس کے نتیجہ میں 9گولیاں ارشد شریف کے جسم میں لگی جن میں سے ایک گولی ان کے سر میں لگی۔ جس طرح ارشد شریف کے قتل کو لے کر تحریک انصاف اور اس کے قائد کی جانب سے سیاست کی جا رہی ہے ایسی سیاست ماضی میں کم از کم پاکستان میں ہم نے نہیں دیکھی ماضی میں جائیں تو بہت سوں نے لاشوں پر سیاست کی ہو گی لیکن قتل کی اطلاع کے بعد بنا کسی سوچ اور ثبوت کے تحریک انصاف کی روش کے عین مطابق جس طرح الزام تراشی شروع کی گئی یہ عمل بذات خود مشکوک ہے اور پھر اس پر جس طرح ہائپ بنانے کی کوشش کی گئی یہ سب باتیں ایک پاکستانی کے لئے انتہائی حیرت کا سبب ہیں۔ یہ بات بہرحال اطمینان کا باعث ہے کہ جس طرح محترمہ کلثوم نواز کی بیماری کے دوران اور پھر ان کی موت پر انتہائی ہتک آمیز انداز میں سوشل میڈیا پر مہم چلائی گئی اور اسلامی اور مشرقی اقدار کی دھجیاں بکھیری گئیں ایسی کوئی بات تحریک انصاف کے مخالف کیمپ کی جانب سے نہیں کی گئی۔
خان صاحب نے اپنی سیاست چمکانے کے لئے اور اب لانگ مارچ کا ماحول بنانے کے لئے حب الوطنی اور مذہب سمیت ہر کارڈ استعمال کر کے دیکھ لیا تھا لیکن بات نہیں بن رہی تھی گذشتہ ہفتہ اپنی نااہلی پر حد سے زیادہ ناکام احتجاج کی وجہ سے چند گھنٹوں بعد اسی رات کو احتجاج کی کال واپس لینا پڑی۔ وہ لانگ مارچ کی کال دے کر گو مگو کی کیفیت کا شکار تھے لیکن اب انھوں نے جمعہ کو لاہور لبرٹی چوک سے لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔ اس مرتبہ ایک سے زائد
وجوہات کی بنا پر تحریک انصاف اور خاص طور پر خان صاحب کی اپنی ذات کے لئے اس لانگ مارچ کی کامیابی ازحد ضروری ہے اس لئے کہ 2014 اور حال ہی میں 25 مئی کو دوسرے ناکام لانگ مارچ کے بعد اگر اس مرتبہ بھی ناکامی ہوئی تو یہ بات خان صاحب کی سیاست کے لئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ 25 مئی کے لانگ مارچ کی ناکامی کا ملبہ تو اس وقت پنجاب اور وفاق میں اتحادی حکومت پر ڈال دیا گیا تھا کہ ان کے جبر اور بے جا سختیوں کی وجہ سے کارکن گھروں سے نہیں نکل سکے لیکن اس مرتبہ تو ایسا کوئی بہانہ یا جواز عوام کے سامنے پیش نہیں کیا جا
سکتا کیونکہ اب تو اسلام آباد کے چاروں اطراف پنجاب، خیبر پختونخوا، آزاد کشمیر اور گلگت  بلتستان میں تحریک انصاف کی اپنی حکومتیں ہیں اب تو اسلام آباد تک نہ کوئی پولیس نہ کوئی رکاوٹ اور نہ ہی لانگ مارچ سے پہلے یا بعد میں کسی چھاپے یا مقدمہ کا ڈر تو اس مرتبہ تحریک انصاف کے پاس لانگ مارچ کی کامیابی کے علاوہ دوسرا کوئی آپشن موجود ہی نہیں ہے تو سب سے اہم سوال تو یہی ہے کہ کیا اس بار لانگ مارچ کامیاب ہو گا اور کیا جن مقاصد اور اہداف کے لئے یہ لانگ مارچ کیا جا رہا ہے وہ اہداف اور مقاصد حاصل ہو پائیں گے۔
لانگ مارچ کی کامیابی کی راہ میں جو رکاوٹیں ہیں ان میں سب سے اہم تو وہ ماحول ہے کہ جو 2014 سے مطابقت نہیں رکھتا یہ درست ہے کہ کچھ حلقوں میں اب بھی یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ایک حصہ کی آشیر باد آج بھی خان صاحب کے ساتھ ہے لیکن جس طرح گذشتہ دنوں آرمی چیف نے لگی لپٹی رکھے بغیر واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ کسی کو ملک میں انتشار پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور سیاست سے دلچسپی رکھنے والے ہر شخص کو پتا چل گیا تھا کہ یہ پیغام کس کے لئے ہے اس لئے اب 2014 والا مہربان ماحول تو تحریک انصاف کو اسلام آباد میں نہیں ملے گا اور وفاق کے پاس سندھ پولیس کے علاوہ رینجرز اور ایف سی کے ساتھ ساتھ فوج کی نفری بھی موجود ہو گی۔ دوسرا لانگ مارچ کوئی چھوٹا ٹارگٹ نہیں ہے اس کے لئے ٹرانسپورٹ کے ساتھ ساتھ جیسا کہ سننے میں آ رہا ہے کہ اسلام آباد میں دھرنا کا بھی پروگرام ہے توقیام و طعام کا بندوبست اور اس پر اٹھنے والے اخراجات کے لئے کسی اے ٹی ایم کا ہونا بھی بہت ضروری ہے اور سب سے اہم کہ لانگ مارچ کے لئے بندوں کی ایک کثیر تعداد کا ہونا بھی ضروری ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ خان صاحب جب لبرٹی سے لانگ مارچ لے کر نکلیں گے تو ان کے ساتھ کتنے لوگ ہوں گے لیکن یہ ضرور معلوم ہے کہ ابھی گذشتہ جمعہ کو ہی خان صاحب کی نااہلی پر جب تحریک انصاف کی جانب سے احتجاج کی کال دی گئی تو اس احتجاج میں اپنی حکومتیں ہونے کی وجہ سے کوئی خطرہ نہیں تھا اور کہیں جانا بھی نہیں تھا لیکن اس کے باوجود بھی اس احتجاج کی زبردست ناکامی کے بعد اسی رات کال واپس لینا پڑ گئی تو اس لانگ مارچ میں تو اپنے شہر سے سیکڑوں کلو میٹر دور اور پھر اس شہر میں داخل ہونا ہے کہ جہاں لاٹھی گولی اور آنسو گیس سبھی کا خطرہ بدرجہ اتم موجود ہے اور اس حوالے سے وفاقی حکومت ایک ماہ سے تیاریاں کر رہی ہے اور رانا صاحب خود اس لانگ مارچ کا انتظار کر رہے ہیں تو اگر کہیں کسی طاقتور حلقہ سے ون ٹو کے فور کی گارنٹی نہ مل گئی ہو ورنہ اس لانگ مارچ کی ناکامی کے امکانات گذشتہ دونوں مرتبہ کے لانگ مارچ سے کہیں زیادہ ہیں اور لگ ایسے رہا ہے کہ خان صاحب کو کسی نہ کسی طرح فیس سیونگ دے دی جائے گی اور اس کے بعد سیاست کے تمام متحرک کردار اپنی اپنی موجودہ  تنخواہوں پر کام کرتے رہیں گے۔

تبصرے بند ہیں.