توشہ خانہ سے شوشہ خانہ تک

17

ہم چھوٹے ہوتے کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ (چھوٹے تو خیر ہم اب بھی ہیں کیونکہ کچھ حکومتوں کے شرمناک وجود نے مجھ سمیت میرے کئی ہم وطنوں اور کئی نوخیز نسلوں کو پنپنے ہی نہیں دیا) ہم جب کوئی ٹورنامنٹ کھیلتے اور خوش قسمتی یا غلام مصطفی صادق (موجودہ ایڈووکیٹ، ان کا بننا بھی ایڈووکیٹ ہی بنتا تھا) یا ماسٹر فاروق اسلم کی ذہانت سے جیت جاتے تو جیتا ہوا کپ جھگڑے کا باعث بن جاتا۔تنازع کپ کو گھر لے جانے کا ہوتا تھا جو کھلاڑی اچھا کھیلتا تھا۔اس کا موقف ہوتا کہ وہ اچھا کھیلا ہے اور کپ جیتنے کا باعث بنا ہے لہٰذا کپ پر اس کا حق ہے۔۔کپتان کہتا کہ وہ ٹیم کا کپتان ہے۔کپ پر اس کا حق ہے۔ اس تنازع میں اشفاق بوکا،جاوید بھیڑ،عباس کمبوہ ،مصطفی صادق اور راقم الحروف پیش پیش ہوتے تھے اور کپ کو توشہ خانہ سے نکال کر اپنی بیٹھک میں ساتھ سجا سکیں۔اب رہا مسئلہ توشہ خانے کا۔۔۔ویسے یہ لفظ مرزا غالب کے استعمال کے بعد پہلی دفعہ میری بصارت سے گزرا ہے اور سماعتوں میں سماع خراشی کا باعث بنا ہے۔جناب قارئین آئیے میں آپ کو توشہ خانے کی کہانی اپنی زبانی سناتا ہوں۔ 1997ء میں جناب نواز شریف(اس وقت کے وزیر اعظم یعنی پردھان منتری جی) ترکمانستانی حکومت کا دیا ہوا قالین صرف 50 روپے دے کر اپنے گھر لے گئے تھے اور اپنے ڈرائنگ روم کی زینت بنا لیا تھا۔ اس کے بعد جناب قطر کے ولی عہد کا دیا ہوا بریف کیس صرف 875 روپے دے کر اپنے گھر لے گئے یعنی اپنے استعمال میں لاتے رہے۔ پھر 1999ء میں (اسی سال جس سال پرویز مشرف نے ان کی حکومت پر شب خون مارا تھا)سعودی عرب سے ملنے والی 45لاکھ کی مر سڈیز میاں صاحب 6 لاکھ میں لے گئے تھے۔اس کے بعد سعودی حکومت کی دی رائفل جو 1لاکھ سے اوپر کی تھی میاں صاحب 14ہزار میں گھر لے گئے۔ابو ظہبی کے حکمران کی طرف سے نواز شریف، مریم نواز بیگم کلثوم نوازمرحومہ کو 3 گھڑیاں تحفے میں دی گئیں 2 گھڑیاں توشہ خانہ میں جمع کرا دیں۔ ایک گھڑی مریم نواز نے 45 ہزار میں نکلوا لی اس گھڑی کی قیمت 1999ء میں 10 لاکھ سے اوپر تھی۔اس کے بعد شوکت عزیز (وہی شوکت عزیز جسے امپورٹ کرکے وزیراعظم لگایا گیا تھا اور
لال مسجد کی شہادت میں پیش پیش تھے) 26 کروڑ کے تحفوں کی قیمت 7 کروڑ لگوا کر ڈھائی کروڑمیں گھر لے گئے اس کے بعد یوسف رضا گیلانی(وہی یوسف رضا گیلانی جس نے ساڑھے تین سال کی وزیراعظم شپ میں قومی خرانے سے ہر روز ساڑھے پانچ لاکھ کا سوٹ پہنا اور سوٹ ایک دفعہ پہنا اس کی ایک بار بھی دوبارہ باری نہیں آئی) نے 2011ء میں سعودی حکومت سے ملنے والے20 لاکھ سے اوپر کے تحائف گھڑی ،پن ،خنجر اور کف لنک صرف 2 لاکھ 83 ہزار میں گھر لے گئے جبکہ گیلانی صاحب کی اہلیہ 30لاکھ کا جیولری سیٹ 3 لاکھ میں گھر لے گئیں۔آپ یہ نہ سمجھئے گا کہ اس کھیل میں زرداری صاحب پیچھے رہے ہیں۔یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ 2009ء میں آصف علی زرداری کو معمر قذافی نے 3 کروڑ کی گاڑی گفٹ کی زرداری صاحب 40 لاکھ میں لے اڑے بلکہ گاڑی زرداری صاحب کو لے کر اڑ گئی۔2009ء میں یو۔اے۔ای کے حکمران نے زرداری صاحب کو12 کروڑ کی لکسیز گاڑی گفٹ کی۔اس گاڑی کو دیکھ کر زرداری صاحب کیسے پیچھے رہ سکتے تھے؟پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔۔۔ زرداری صاحب وہ مہنگی ترین گاڑی 1کروڑ60 لاکھ میں لے گئے۔ اس کے بعد پرویز مشرف 4کروڑ کے تحفے 55لاکھ میں گھر لے گئے۔ ان تحائف میں 2 پسٹل بھی تھے جو امریکی وزیر دفاع رمیز فلیڈ نے مشرف کو گفٹ کیے تھے۔ مشرف صاحب وہ پسٹل 19ہزار میں لے اڑے۔ اس میں 1 پسٹل امیر مقام کو گفٹ کیا تھا۔ان کا فرمان ہے کہ گھڑی کو اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔بقول یار غار و لدار و طرح دار و زلف دراز جناب ذوالفقار علی صادق ایڈیشنل کمشنر ( ایف۔بی۔آر)جو چیز ایف بی آر کے مالی سال کے آخری دن 30 جون سے پہلے آپ بیچ دیں گے۔ وہ چیز اثاثوں میں ظاہر نہیں کرتے۔ اس چیز کو بیچنے سے حاصل ہونے والی رقم یا اس پر ہونے والا پرافٹ شو کیا جاتا ہے۔۔۔عمران خان نے گھڑی بیچ کر اس کی قیمت 5 کروڑ روپے جو اس گھڑی کو بیچنے سے حاصل ہوئی وہ رقم اپنے اثاثوں میں ظاہر کی ہے کیونکہ گھڑی بیچ دی۔ جب گھڑی ملکیت ہی نہ رہی تو وہ کیا ظاہر کرے گا۔۔اگر گھڑی بھی ظاہر کرے اور رقم بھی تو یہ تو ڈبلنگ نہ ہوگئی۔کیا دماغ اس چیز کو قبول کرتاہے؟عمران خان نے گھڑی بیچ کر حاصل کی ہوئی رقم کو اثاثوں میں ظاہر کیا اور پرافٹ پر ٹیکس بھی دیا۔
الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ جو گھڑی بیچ دی اور آپ کی ملکیت ہی نہیں تھی اس گھڑی کو شو کیوں نہیں کیا جبکہ عمران اس کے حصے کے پیسے شو کرچکا تھا اور ان پیسوں سے وہ ایک سٹرک بھی تعمیر کر چکا ہے۔لہٰذا ن لیگ والے اپنے ’’کاں‘‘کو چٹا نہ کریں بلکہ کالا ہی رہنے دیں۔انکی ایسی حرکتوں سے عمران کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔میں نے پچھلے 45سال سے کوئی ایسا حکمران نہیں دیکھا جسے اتنی مقبولیت ملی ہو جتنی عمران خان کو ملی ہو۔ ن لیگ کی حالت بالکل اس لطیفے سے مشابہت رکھتی ہے۔
ایک انگریز کو بچپن سے ہی یہ خوف تھا کہ جب وہ سوتا ہے تو اس کے بیڈ کے نیچے کوئی ہوتا ہے لیکن بڑا ہونے کے بعد اس کا یہ خوف دور نہ ہوا.بڑی سوچ بچار کے بعد وہ ایک ماہر نفسیات کے پاس گیا اور اسے اپنا مسئلہ بتایا کہ کوئی حل بتائیں نہیں تو میں اس خوف سے پاگل ہو جاؤنگا۔ماہر نفسیات نے اسے کہا کہ مجھ سے علاج کرا لو۔ ایک سال میں تمہارا یہ مسئلہ گارنٹی کے ساتھ حل ہو جائے گا۔ بس ہفتے میں تین دن تمہیں آنا ہو گا میرے پاس۔۔۔انگریز نے پوچھا اور آپ کی فیس کتنی ہو گی 200ڈالر فی وزٹ، ماہر نفسیات نے بتایا۔ چلیں میں سوچ کر بتاتا ہوں، انگریز بولا پھر کوئی ایک سال بعد اس گورے اور ماہر نفسیات کی کسی فنکشن پر ملاقات ہوئی تو ماہر نفسیات نے پوچھا کہ تم آئے نہیں میرے پاس ۔۔۔گورے نے جواب دیا کہ میرا وہ مسئلہ میرے ایک پاکستانی دوست نے صرف ’’ایک بریانی کی پلیٹ اور ایک بوتل‘‘ پر دور کرا دیا اور آپ کی فیس کے پیسے بچا کر میں نے گاڑی بھی خرید لی ہے۔ماہر نفسیات نے بڑی حیرانی سے پوچھا: بھئی اس نے ایسا کیا علاج بتایا مجھے بھی بتاؤ پلیزگورا: پاکستانی دوست نے مشورہ دیا کہ بیڈ بیچ دو اور فرش پر گدا ڈال کر سویا کرو۔۔ بس مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتوں کو عمران خان کی مقبولیت کا خوف ہے اور خوف ان کو آئے دن پاگل اور ڈپریشن کا شکار کر رہا ہے۔ یہ تمام جماعتیں خان کو سیاست سے آئوٹ کرنے کے لیے نت نئے حربے آزماتی ہیں اور شوشے چھوڑتی ہیں۔توشہ خانہ کی کہانی بھی ایک شوشہ ہے۔اب ان جماعتوں کو چاہیے کہ وہ الیکشن کرا دیں اور گدا ڈال کر سوجائیں تاکہ انہیں سیاسی چارپائی پر سوتے ہوئے ڈر نہ لگے۔

تبصرے بند ہیں.