میں نے وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار کی گفتگو سنی، وہ کہہ رہے تھے کہ چین کی مدد سے ایم ایل ون یعنی کراچی پشاور ریلوے لائن کی اپ گریڈیشن کا میگا پراجیکٹ چھ ارب ڈالر سے بڑھ کے بارہ ارب ڈالر کا ہو گیا ہے یعنی سیدھے سادے حساب میں دوگنا مگر میری نظر میں نقصان صرف یہی نہیں ہوا بلکہ مجموعی طور پر چار طرح سے ہوا ہے۔ پہلا یہی کہ منصوبے کی کاسٹ چھ ارب ڈالر بڑھ گئی اور دوسرا ہمارا نقصان یہ ہوا کہ وہ ڈالر جو سو، سوا سو روپے کا تھا وہ دو، سوا دو سو روپوں تک پہنچ گیا یعنی جب ریلوے نے مسافروں سے روپوں میں کرایہ لے کر یا ریاست نے قومی خزانے سے ادائیگی کرنی ہے تو یہ ادائیگی ڈالروں میں تبدیل ہو کے دوگنی ہوگئی۔ میں نے ڈالر کے موجودہ ریٹ پر حساب لگایا ہے توچھ ارب ڈالر کوئی سوا تیرہ کھرب روپوں کے لگ بھگ بنتے ہیں جن کا وہ نقصان کر کے چلے گئے ہیں اور تیسرا نقصان یہ ہوا ہے کہ اگر ایم ایل ون کی اپ گریڈیشن کے پراجیکٹ پر اسی طرح کام جاری رہتا جیسے خواجہ سعد رفیق کے دور میں ہو رہا تھا تو اس وقت پاکستان کے عوام ایک تیز رفتار، جدید، باسہولت اور قابل فخر ریلوے نظام کے مالک ہوتے۔ ٹرینیں ایک سو ساٹھ سے ایک سو اسی کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی ہوتیں، ریلوے کی فریٹ کی صلاحیت کئی گنا بڑھ چکی ہوتی۔ ریلوے کے حادثات، ایم ایل ون پر شہری علاقوں میں ریلوے لائن کے ساتھ باڑھ لگنے ، کراسنگز پر انڈرپاسز اور فلائی اوورز بننے کے بعد نہ ہونے کے برابر رہ چکی ہوتی، سگنلنگ کا جدید ترین نظام ہوتا ، اس کے ساتھ اور بھی بہت کچھ بدل چکا ہوتا۔چوتھے اس پراجیکٹ کے بعد کی پراجیکٹڈ انکم یعنی ممکنہ کمائی سے بھی ریلوے محروم ہو گیا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس پراجیکٹ پر ایک’ ڈیڈیکیٹڈ ٹیم‘ لگائی گئی تھی جس کی سربراہی اعلیٰ ترین کیرئیر ریکارڈ رکھنے والے پروفیشنل، تجربہ کار اور باکردار بیوروکریٹ اشفاق خٹک کر رہے تھے۔ میری ان سے کئی ملاقاتیں رہیں، ایک ڈیسنٹ ، مہربان، نستعلیق اورایماندار شخص ، میرا دعویٰ ہے کہ اگر آپ کی ان سے ملاقات ہوتی تو آپ بھی ان کی شاندار شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے۔ میں نے کئی اجلاسوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، اپنے کانوں سے سنا۔ وہاں باتیں ہوتی تھیں کہ ہم اپنے چینی دوستوں کو کم سے کم شرح سود پر کیسے آمادہ کرسکتے ہیں۔ ہم ریلوے کی تعمیر و ترقی میں چینی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی کمپنیوں اوراداروں کا شئیر کیسے بڑھا سکتے ہیں۔ ایم ایل ون کی جدت بلکہ تعمیر نو میںپاکستانی محنت کشوں اور ہنر مندوں کی شرکت کیسے زیادہ سے زیادہ کی جاسکتی ہے۔ جب پانچ برس کی مدت میں یہ پراجیکٹ مکمل ہو رہا ہو گاتو اس دورا ن ریلوے کے آپریشنز کو کیسے جاری رکھا سکتا ہے کہ آمدن کا نقصان کم سے کم ہو کیونکہ یہی وہ دور تھا جب ریلوے کی آمدن اٹھارہ ارب روپوں سے بڑھ کے پچاس ارب روپے سالانہ تک پہنچ گئی تھی۔ ریلوے کے ملازمین کی تنخواہ تیس تاریخ کو ان کے اکاونٹس میں منتقل ہوجاتی تھی۔ ریٹائرہونے والے اپنی الوداعی تقریب میں اپنے واجبات کے چیک لے کر روانہ ہوتے تھے مگر پھر شیخ رشید صاحب کا دور آ گیا اور اپنی ساری عمر ریلوے کو دینے والے ریٹائرمنٹ پر اس رقم سے بھی سالہا سال تک محروم رہنے لگے جس کے ملنے پر انہوں نے بیٹی کی شادی کرنی ہوتی تھی، گھر بنانا ہوتا تھا یا گزر بسر کے لئے کوئی کاروبار کرنا ہوتا تھا، ستم در ستم دوران ملازمت مر جانے والوں کی بیواؤں کی جوتیاں ریلوے کے دفاتر کے چکر لگا لگا کے گھس جاتی رہیں مگر ریلوے کے پاس کچھ ہوتا تو وہ دیتا۔
ایل ایم ون کی اپ گریڈیشن کی تباہی کی بنیاد شیخ رشید احمد کی افسران کے ساتھ پہلی ہی میٹنگ میںر کھ دی گئی تھی جب ریلوے کے پراجیکٹس کی بریفنگ کے دوران سابق دور میں ہونے والی تعمیر وترقی پر شیخ رشید احمد برہم ہوگئے اور اشفاق خٹک کی وہ توہین کی جو آج بھی ریلوے ہیڈکوارٹرزکے در و دیوار پر سیاہ حروف سے لکھی ہوئی ہے۔ شیخ رشید غصے میں آئے اور بولے، مجھے رضیہ سلطانہ کے ناول مت سناؤ۔ اس پر ریلوے کے مین کانفرنس روم نے دیکھا اور ریکارڈ کیا کہ ایک بہادر اور جری افسر نے اس روئیے پر باقاعدہ احتجاج کیا، اسے گالی دی گئی تو اس کا بھی جواب ملا حالانکہ یہ افسر اس سے پہلے پی ٹی آئی کے نئے پاکستان کے ویژن اور انقلاب کا بڑا حامی تھا۔ یاد آیا، ایک دوسرا افسر جو ریلوے ٹریفک میں بڑے عہدے پر تھا اور اپنے وقت کا بہت بڑا ’ عمرانڈو‘، اس نے خواجہ سعد رفیق کا ایک کارٹون افسران کے گروپ میں شئیر کر دیا مگر اس کے باوجود وہ عہدے پر موجود رہا کیونکہ خیال تھا کہ وہ میرٹ پر ہے۔ دلچسپ یہ رہا کہ شیخ رشید کے وزیر بننے کے بعد ایک حادثے میں اسے قربانی کا بکرا بنایا گیا اور پھر وہ مبینہ طور پر پوری مدت کسی پوسٹ کے اہل ہی نہ سمجھا گیا۔ بہت سارے لوگ الزام لگاتے ہیں کہ ایم ایل ون کے پراجیکٹ میں چینیوں سے نام نہاد ریاست مدینہ میں باقاعدہ کمیشن کا مطالبہ کیا جاتا رہا جس کی وجہ سے یہ پراجیکٹ تاخیر اور ناکامی کا شکار ہوا بعد ازاں شیخ رشید وزارت ریلوے سے وزارت داخلہ میں چلے گئے مگر سستی ، نااہلی اور بدعنوانی کا جو نظام وہ دے گئے تھے ، وہی چلتا رہا، پھلتا پھولتا رہا۔
حکومتی فیصلہ سازوں کی کرپشن صرف یہی نہیں ہوتی کہ وہ کمیشن اور کک بیکس لے رہے ہوں۔ ان کی نااہلی، تعصب اور بدنیتی سے اگر قومی ترقی کی رفتار رک رہی ہو تو وہ بھی اتنی ہی بڑی کرپشن ہے یا اس سے بھی کچھ زیادہ بڑی ۔ابھی میں نے شیخ صاحب کے فیصلوں کی وجہ سے ان تمام نقصانات کی بات ہی نہیں کی وہ انہوں نے سیاسی چاپلوسی میں کئے جیسے فنانشل امپیکٹس کا جائزہ لئے بغیر ہی صدر علوی کو خوش کرنے کے لئے کراچی میں ٹرین چلا دی او رجب وہ پہلے دن روانہ ہوئی تو اس میں صرف چھ مسافر تھے۔میں چاہوں گا کہ ریلوے کا فنانس اور آڈٹ کا ڈپیارٹمنٹ اس پر باقاعدہ رپورٹ جاری کرے کہ ایم ایل ون کے رکنے کے بعد ریلوے کو اس کی تعمیرہی نہیں بلکہ ممکنہ آمدن میں بھی کتنا نقصان ہوا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر موخرالذکر کوبھی رپورٹ کا حصہ بنا لیا جائے تو بات ساڑھے تیرہ ارب تک نہیں رہے گی بلکہ بیس، پچیس کھرب سے بھی اوپر چلی جائے گی۔ یہ رپورٹ نیب کے پاس جانی چاہئے اور نیب کو اس شیخ رشید کو ذمے دار ٹھہرا کے ریفرنس دائر کرنا چاہئے۔ میں جانتا ہوں کہ شیخ رشید کے پاس کورونا سمیت بہت سارے بہانے ہوں گے مگر اصل بات یہ ہے کہ جب آپ کام نہ کرنا چاہیں تو آپ کے پاس بہت سارے بہانے ہوتے ہیں۔ تحریک انصا ف کا دور ایسے بہت سارے سکینڈلز سے بھرا پڑا ہے ۔ غور کیجئے کہ اگر صرف ریلوے میں ایک پراجیکٹ کو سیاسی تعصب اور نااہلی کی بھینٹ چڑھا کے کئی ہزار ارب روپوں کا نقصان کر دیا گیا ہے تو باقی پورے ملک میں کیا ہوا ہوگا۔ کیا پاکستان کی ریاست شیخ رشید احمد سے حساب لے سکتی ہے جو اس وقت لسبیلہ سانحے پر بھی محض عمران خا ن کو خوش رکھنے کے لئے ریاستی اداروں کے خلاف سازشی اور تخریبی بیانئیے کی جان لیوا بارودی سرنگیں بچھا رہے ہیں؟
Prev Post
تبصرے بند ہیں.