غم والم،دکھ اوردردکی ایک کہانی

19

بیٹے کے سرپرشادی کاسہرااورباپ کے سرپرغم والم کے بے رحم پہاڑ،واللہ جب سے باپ بیٹے کی وہ تصویر دیکھی ہے تب سے دل اداس،وجودبھاری بھاری اورآنکھیں نم سے نم تر ہیں۔یہ کہانی اتنی دردناک اورغمناک ہے کہ پڑھ اورسن کرانسان آنسوؤں پرقابونہیں پا سکتا۔عین جوانی میں شادی کے پہلے سال جب خوشیوں کوسمیٹنے اورزندگی سے لطف اٹھانے کا وقت اورنیاسفر شروع ہوا۔اچانک ایک حادثے میں اس کی ایک آنکھ ضائع ہوگئی جس کے بعدجوان زندگی پھرایک ہی آنکھ پرآگے بڑھنے لگی۔ایک آنکھ ضائع ہونے کی معذوری کوانہوں نے مجبوری کاجامہ تو نہیں پہنایالیکن سچ میں وہ قدم قدم پر مجبوربھی رہے اورمعذور بھی۔اس حال میں بھی وہ بیوی بچوں کی خاطر ایک ہی آنکھ سے کئی سال تک گاؤں سے کوسوں دورکراچی میں محنت مزدوری کرتے رہے۔آنکھ ضائع ہونے کاغم اورزخم دامن میں ہی تھاکہ اوپرسے بڑی بیٹی کی اچانک جدائی کابھاری غم بھی دامن میں غم کاپہاڑبن کرآن گرا۔اولادکی جدائی کاغم یہ تومضبوط سے مضبوط انسان کوبھی جیتے جی ماردیتاہے پھرجوانسان پہلے ہی اپنی ایک آنکھ کی جدائی کاغم دامن میں لئے پھرتاہواس پروہ شب وروزاوروہ وقت کیسے گزرا ہو گا۔؟ یہ سوچتے ہوئے بھی کلیجہ منہ کوآنے لگتا ہے۔ ایک آنکھ سے محرومی اورپیاری بیٹی کی جدائی کابھاری غم سہنے کے بعدبھی وہ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کی خاطرجینے کی کوششوں میں مصروف رہے۔کراچی کے بعدہری پور اور دیگر شہروں میں محنت مزدوری کرکے وہ کسی نہ کسی طریقے سے گھرکانظام چلاتے رہے۔بیٹی والے صدمے سے وہ ابھی باہرنہیں نکلے تھے کہ اچانک اسے ایک اورقیامت سے گزرناپڑا۔بڑابیٹا ابھی محنت مزدوری کے قابل نہیں تھا،گھرکانظام اس کی ہی دیہاڑی اورمزدوری سے ہی چل رہاتھاکہ ایک دن اس کواچانک پیٹ میں درداورسخت تکلیف شروع ہوئی،قریبی شہرمیں ڈاکٹرسے چیک اپ کرایاتوڈاکٹرنے ایبٹ آبادمیں ایک بڑے ڈاکٹرکے پاس ریفرکر دیا۔وہاں پہنچ کراس پرغم کاایک اورپہاڑاس وقت گراجب ڈاکٹرنے کہاکہ آپ کے ایک گردے پرکوئی دانہ ہے اس گردے کو نکالناپڑے گا۔ایک آنکھ کی طرح اس کادوسراگردہ بھی پھرنہ رہا۔ڈاکٹروں نے طویل آپریشن کرکے اس کاایک گردہ نکال دیا۔یوں ایک آنکھ کے بعدوہ ایک گردے سے بھی محروم ہوگئے،پھرزندگی ایک آنکھ کے ساتھ ایک ہی گردے پرچلنے لگی۔جوجمع پونجی تھی وہ علاج پرخرچ ہو گئی، زندگی کی گاڑی آگے بڑھانے کے لئے جب قرضوں کابوجھ بھاری اورگھرمیں فاقوں نے ڈیرے ڈال لئے تونہ چاہتے ہوئے بھی اس نے مجبوری کے ہاتھوں بڑے بیٹے کوسکول سے اٹھاکرکام پرلگادیا۔کل کے اس بچے کے کام کرنے سے لوگوں کاقرض تونہیں اتراالبتہ گھرکانظام اورزندگی کی گاڑی آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگی،گردے کے آپریشن کودوسال ابھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ ایک دن اچانک اس کی طبیعت پھرخراب ہوگئی۔گاؤں میں دستیاب طبی علاج اورادویات سے جب کوئی خاص فرق نہیں پڑاتووہ دوتین دن بعدبڑے ڈاکٹرسے چیک اپ کے لئے شہرتشریف لے گئے،جہاں کچھ ضروری ٹیسٹ کرنے کے بعدڈاکٹرنے اسے ایک اورڈاکٹرکی طرف ریفرکردیاجس نے فائل اورٹیسٹ دیکھنے کے بعدمزیدکچھ ٹیسٹ کئے اورپھراسے ایک ایسے پیچیدہ اورموذی مرض کے بارے میں آگاہ کیاجس مرض اوربیماری سے ہرانسان پناہ مانگتاہے۔اپنے جسم اورجگرمیں اس موذی مرض کاسن کراس کے پاؤں کے نیچے سے گویازمین سرک گئی۔وہ کہتے ہیں جب ڈاکٹرنے اس بیماری کا بتایااس کے بعدنہیں پتہ کہ میں شہرسے گاؤں تک کس راستے اورکس حال میں واپس پہنچاہوں۔کینسرکانام سن کراس وقت اس پرکیاگزری ہوگی یااب کیاگزررہی ہوگی۔؟یہ سوچتے ہوئے بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔یہ کہانی بٹگرام میں میرے آبائی علاقے جوز،ڈھیری سے تعلق رکھنے والے بدقسمت خیال محمدکی ہے جوایک آنکھ اورایک گردے کے سہارے آج ایک مرتبہ پھرخالی ہاتھ اورخالی جیب زندگی کی بقاء کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔خیال محمدکے جگروجسم میں ڈاکٹروں نے جس خوفناک بیماری کی تشخیص کی ہے اس کے علاج پرلاکھوں کے حساب سے اخراجات آئیں گے۔جس گھرمیں بچوں کے کھانے کے لئے کچھ نہ ہواس گھرکامکین ایک موذی مرض کے علاج کے لئے لاکھوں کے اخراجات کہاں سے اٹھائے گا یالائے گا۔؟راولپنڈی میں ڈاکٹروں نے جب اس مرض کے طویل علاج اورلاکھوں کے اخراجات کاذکرکیاتوخیال محمدکی آنکھوں سے جیسے آنسوؤں کا کوئی سمندرجاری ہوا ہو۔ پنڈی سے وہ پھرکس طرح اور کس حال میں واپس گاؤں پہنچے یہ اللہ ہی جانتا ہے۔ کچھ دن پہلے ایک رشتہ دارنے بتایاکہ اس نے بیٹے کی شادی کردی ہے وہ بھی دوتین دن کے اندر۔ خیال محمدنے پنڈی سے واپسی پر شائدسوچاہوگاکہ غربت کے اس سائے میں علاج تو نہیں ہو رہا چلوبیٹے کی شادی کاارمان ہی پورا کرا دیتا ہوں۔یوں راتوں رات اس نے بغیرکسی ڈول باجے،بھنگڑے اورپٹاخے کے بیٹے کی شادی والاارمان پوراکرہی لیا۔گاؤں سے میرے اسی رشتہ دارنے مجھے شادی والی ایک تصویر بھیجی ہے۔ تصویر کیا ہے۔؟ دکھ، درد، رنج، افسوس، غم والم کی ایک پوری کہانی۔بیٹے کے سر پر سہرا تو ہے پر آنکھوں میں شادی کی خوشی اورچہرے پر مسکراہٹ نام کی کوئی چیزنہیں جبکہ باپ اپنے بیٹے کی شادی اوراپناایک خواب وارمان پوراہونے پربھی آنکھوں میں بے بسی،دکھ،درداورغم کے آنسولئے گھرکے ایک کونے میں رضائی اوڑھے بیٹھے دکھائی دے رہے ہیں۔جوانی میں آنکھ ضائع ہوگئی لیکن خیال محمدنے ہمت نہیں ہاری۔ڈاکٹروں نے ایک گردہ نکال دیاوہ پھربھی زندگی سے مایوس نہیں ہوئے لیکن اس تصویرمیں دکھ،درد،غم والم کی چھپی یہ کہانی بتارہی ہے کہ علاج پربھاری اخراجات کے خوف،سوچ اورفکرنے اب کہیں خیال محمدکوزندگی سے مایوس کردیاہے۔ماناکہ خیال محمدکے پاس اس وقت علاج کے لئے کچھ نہیں لیکن اس زمین،اس مٹی اوراس دھرتی پرملک ریاض حسین جیسے خداترس اوردرددل رکھنے والے لوگ توہیں جوایک عرصے سے انسانیت کی خدمت وفلاح میں مصروف ہیں۔بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض حسین اس وقت ملک کے کئی شہروں میں نہ صرف بحریہ دسترخوان کے ذریعے غریبوں، مسکینوں اورفقیروں کی بھوک مٹارہے ہیں بلکہ وہ ساتھ میں غریب،بے بس، لاچار اور مجبور مریضوں کااپنے خرچ پرمہنگے مہنگے ہسپتالوں سے علاج بھی کروارہے ہیں۔اس کالم کے ذریعے میری ملک ریاض حسین سے استدعاہے کہ وہ ایک انسان کی جان بچانے کے لئے آگے آئیں۔ایک انسان کوبچاناپوری انسانیت کوبچانے کے مترادف ہے۔مجھے امیدہے نیکی کے اس کام میں ملک ریاض حسین پیچھے نہیں رہیں گے۔اس کے ساتھ بٹگرام کی مٹی سے تعلق رکھنے والے فرزندبٹگرام فیاض محمدجمال خان،فکرانسانیت کے چیئرمین ڈاکٹرفیاض پنچگل اوردیگرصاحب ثروت ومخیرحضرات سے ہمدردانہ گزارش ہے کہ وہ خیال محمدکے غریب خاندان کومشکل کی اس گھڑی میں سہارادینے کے لئے آگے آئیں تاکہ دکھ،درد،غم والم کے سائے تلے زندگی گزارنے والے بدقسمت خیال محمدکی کچھ تو دلجوئی ہوسکے۔ خیال محمد سے 0300-2633571 اس نمبرپررابطہ کیاجاسکتاہے۔

تبصرے بند ہیں.