مقبولیت بڑھی یا کم ہوئی

16

یہ کوئی بہت بڑی راکٹ سائنس نہیں ہے کہ جو سمجھ نہ آ سکے کہ ضمنی انتخابات میں قومی اسمبلی کے جتنے بھی حلقوں میں انتخابات ہوئے وہ سب تحریک انصاف کی جیتی ہوئی سیٹیں تھیں اور عمران خان کے جلسوں میں کرسیاں خالی ہونے کے باوجود بھی اگر کوئی  ان کی مقبولیت کا ڈھول پیٹتاہے تویہ ایسا  ہی ہے کہ جس طرح ایک قبیلے کے سردار کے بیٹے اور سینما کے مالک کو ٹکٹ بلیک میلر اور فٹ پاتھیا کہہ کر اپنے اپنے دل کا رانجھا راضی کر لیتے ہیں۔تحریک انصاف نے اپنی ہی جیتی ہوئی آٹھ قومی اسمبلی کی نشستوں میں سے دو نشستیں کھو دی ہیں تو بڑی سیدھی سی بات ہے کہ اس سے خان صاحب کی مقبولیت کو چار چاند لگے ہیں یا چاند گرہن لگا ہے اس کا فیصلہ قارئین خود کر لیں۔جو لوگ پاکستان پیپلز پارٹی کو بحیرہ عرب میں دفن کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہتے ہیں امید ہے کہ کراچی اور ملتان کی نشستوں پر بڑے مارجن سے فتح کے بعد وہ لوگ اب کچھ عرصہ کے لئے شانت ہو جائیں گے۔ اتوار کو ہوئے آٹھ قومی اسمبلی اور پنجاب کی تین صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں ہوئے ضمنی انتخابات میں جو نتائج آئے ہیں ان پر کسی اور کو حیرت ہو تو ہو لیکن ہمیں اس پر قطعی کوئی حیرانگی نہیں ہوئی بلکہ یہ نتائج عین ہماری توقعات کے مطابق آئے ہیں اور یہی بات ہم نے15اکتوبر ہفتہ والے دن شائع ہونے والے اپنے کالم ”مقبولیت کا ایک اور امتحان“ میں عرض کی تھی کہ ”اتوار 16اکتوبر کو قومی اسمبلی کے آٹھ حلقوں میں ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں اس کے علاوہ پنجاب میں تین صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں بھی اسی روز الیکشن ہو رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کی تمام نشستیں تحریک انصاف کی چھوڑی ہوئی ہیں اور اگر تحریک انصاف دوبارہ انھیں حاصل کر لیتی ہے تو اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہو گی لیکن پھر بھی ہار اور جیت سے ایک تاثر تو جائے گا“اس کے علاوہ اسی کالم میں ہم نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ ”سب کے علم میں ہے کہ جن حلقوں میں انتخابات ہونے ہیں ان علاقوں میں عمران خان کم و بیش ہر روز ایک جلسہ کر رہے ہیں  اور یہ بات بھی سچ ہے کہ جب تک بچہ روتا نہیں اس وقت تک ماں بھی دودھ نہیں دیتی تو عمران خان تو پوری طاقت اور جو کچھ ان سے ہو سکتا ہے وہ سب کچھ بروئے کار لاکر انتخابی مہم چلا رہے ہیں اور ان کے پاس موجودہ حکومت کے خلاف
سب سے بڑا کارڈ کہ جس سے ایک عام آدمی کی نہ صرف یہ کہ توجہ بلکہ حمایت بھی بڑی آسانی سے حاصل کی جا سکتی ہے وہ مہنگائی کارڈ ہے لیکن اس کے برعکس حکومتی اتحاد کی جانب سے انتخابی مہم کے حوالے سے مکمل سکوت نظر آ رہا ہے۔ مقامی لوگ یقینا کچھ کر رہے ہوں گے لیکن نواز لیگ کی جانب سے دو شخصیات ہی انتخابی مہم کی سربراہی کرتی تھی ایک مریم نواز اور دوسرے حمزہ شہباز۔ مریم نواز تو لندن میں ہیں جبکہ حمزہ شہباز پاکستان میں ہوتے ہوئے بھی کہیں نظر نہیں آ رہے۔مریم نواز اگر چند دن تاخیر سے لندن چلی جاتیں تو کوئی حرج نہیں تھا انھیں ہر حال میں انتخابی مہم کو چلانا چاہئے تھا اور یہ بات بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ گذشتہ انتخابات میں بھی اور ان انتخابات میں تو مہم نام کی کوئی چیز دکھائی ہی نہیں دے رہی لیکن گذشتہ ضمنی انتخابات میں جلسوں میں میاں نواز شریف کا ٹیلی فونک خطاب کیوں نہیں ہوا۔ دوسری جانب اگر دیکھیں تو زرداری صاحب تو اپنی بیماری کی وجہ سے کچھ عرصہ سے سیاسی منظر نامہ سے ویسے ہی آؤٹ ہیں اور بلاول بھٹو وزیر ہونے کے ناتے انتخابی مہم میں حصہ نہیں لے سکتے حالانکہ کراچی میں دو حلقوں میں الیکشن ہو رہا ہے اور پارٹی قیادت کی عدم توجہ کی وجہ سے این اے 237 ملیر والے حلقہ سے کچھ توقع کی جا سکتی ہے لیکن این اے 239کورنگی سے امکانات کم ہی نظر آ رہے ہیں۔ اسی طرح پنجاب میں این اے 157ملتان،این اے 108فیصل آباد اور این اے 118ننکانہ صاحب پنجاب کے تین حلقوں میں الیکشن ہو رہے ہیں لیکن حکومتی اتحاد کی طرف سے کوئی سرگرمی نظر نہیں آ رہی حتیٰ کہ ملتان میں گیلانی صاحب اور ان کے بیٹے ہی بھاگ دوڑ کر رہے ہیں جبکہ فیصل آباد میں رانا ثناء اللہ اگر وزیر ہونے کی وجہ سے مہم میں حصہ نہیں لے سکتے تو ضمانت کرا کر ویسے ہی فیصل آباد کچھ دنوں کے لئے اپنا ڈیرہ تو آباد کر سکتے تھے۔ اس کے علاوہ خیبر پختون خوا میں این اے22مردان،24چارسدہ اوراین اے 31پشاور تین حلقوں میں انتخاب ہو رہا ہے لیکن وہاں بھی حکومتی اتحاد کی جانب سے عدم دلچسپی واضح نظر آ رہی ہے۔ایک فریق اپنی سر دھڑ کی بازی لگا رہا ہے اور ہر روز کسی نہ کسی جگہ جلسہ سے خطاب کر رہا ہے لیکن دوسری جانب مکمل خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے اور اس کے بعد اگر نتائج فریق مخالف کے حق میں جاتے ہیں تو اس میں عوامی حمایت سے قطع نظردوسرے فریق کی نالائقی کا عمل دخل زیادہ ہو گا“۔
اس کے علاوہ بھی حکومت نے ان ضمنی انتخابات کی جیت کو انتہائی سعادت مندی اور شکریہ کے ساتھ عمران خان کی جھولی میں ڈالنے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔گذشتہ تین ہفتوں میں سے پہلے دو ہفتوں کے دوران ڈالر کی قیمت میں 21روپے کمی آئی لیکن گذشتہ ہفتہ اچانک ڈالر کی پسپائی سست روی کا شکار ہو جاتی ہے۔ ضمنی انتخابات سے چند گھنٹے پہلے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل ہونا تھا اور تمام اخبارات میں یہی تخمینہ لگایا جا رہا تھا کہ پیٹرول تقریباََ 15روپے لیٹر کم ہو گا اگر ایسا ہو جاتا تو عین ممکن تھا کہ غیر جانبدار ووٹر کی ایک معقول تعداد حکومتی اتحاد کے حق میں ووٹ کاسٹ کرتی لیکن ایسا نہ کر کے تحریک انصاف کو زبردست فیور دی گئی۔ اس کے علاوہ گرمی کا زور کافی حد تک ٹوٹ چکا ہے لیکن عین 48گھنٹے پہلے ملک کے بیشتر علاقوں کا بجلی کے ایک بڑے بریک ڈاؤن سے متاثر ہونا اور حکومت کا 36گھنٹے اس کی مکمل بحالی میں لگا دینایہ سب بہرحال ایک معمہ ہے۔ اس طرح کے ضمنی انتخابات میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وزراء کی جانب سے انتخابی ضابطہ اخلاق کی اکثر خلاف ورزی کی جاتی ہے اور الیکشن کمیشن انھیں بلا کر وارننگ یا جرمانہ کر دیتا ہے لیکن اس مرتبہ نظر بد سے بچیں حکومتی اتحاد آئین اور قانون کا ایسا پابندرہاکہ کہیں پر اس قسم کی کوئی خلاف ورزی نظر نہیں آئی۔ ان باتوں سے قطع نظر یہ دیکھیں کہ فریق مخالف کس قدر عقل مند ہے کہ اس نے لیاری کی نشست پر شکست کے واضح آثار دیکھنے کے بعد وہاں سے استعفیٰ واپس لے لیا تھا۔ اب حالت یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی آٹھ نشستیں مزید کم ہو گئیں تو اگر مہینہ دو مہینہ بعد خان صاحب اسمبلیوں میں جانے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ان انتخابات کے نتیجہ میں ان کی مقبولیت دن دگنی رات چوگنی جس ترقی کی منازل طے کر رہی ہے تو اس کے بعد اتحادی جماعتوں کے واپس آ جانے کے باوجود بھی تحریک انصاف حکومت بنانے کے قابل نہیں ہو گی۔ کالم کے آخر میں اتنی گذارش ضرور کریں گے کہ دوسروں کو تو چھوڑیں لیکن نواز لیگ کو اگر اب بھی عقل نہیں آئی تو پھر آنے والے جنرل الیکشن میں اپنی فاتحہ کے چاولوں کا بندوبست خود کر لے۔

تبصرے بند ہیں.