کنٹرول ٹاور کا الٹی میٹم، خوف، مایوسی

19

کنٹرول ٹاور نے الٹی میٹم دے دیا پیغام کلیئر ہے کسی بھی ملک، گروہ یا جتھے کو معاشی یا سیاسی طور پر ملک کو عدم استحکام کا شکار نہیں کرنے دیں گے۔ سوشل میڈیا پر بحث چھڑ گئی۔ کس کو پیغام دیا گیا کس کو ڈانٹ پڑی کہنے سننے کو ہزار باتیں لیکن جن کو پیغام دیا گیا وہ خوف اور مایوسی کے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ راستے تلاش کر رہے ہیں۔ بندہ ایک ہی سمت میں سوچنے لگے تو آنکھیں بند کر کے ایک ہی راستے پر چلتا جائے گا۔ آنکھیں ہیں دیکھتے نہیں کان ہیں سنتے نہیں دماغ ہیں سوچتے نہیں حکم ربی ہے۔ ختم اللہ علیٰ قلوبھم وعلیٰ سمعھم وعلیٰ ابصارھم۔ ہر طرف مہریں لگی ہیں۔ کچھ بھی کہتے رہیں پیغام کلیئر ہے۔ پیغام ملنے کے دوراہے پر کھڑے ہیں لانگ مارچ کرنا چاہتے ہیں کر نہیں پا رہے الٹا لٹکانے کی دھمکی، جان سے جانے کا خطرہ، اسلام آباد کا گھیراؤ کرنے کی خواہش لیکن اب تک پوری ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔ لانگ مارچ یا گھیراؤ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ الٹی میٹم، پیغام کو منفی شکل دینے کی کوششیں مارشل لاء کی افواہیں پھیلادی گئیں۔ لوگ حالات سے خوفزدہ ہیں۔  13 اکتوبر کو ملک بھر میں بجلی کا بریک ڈاؤن ہوا۔ یاروں نے کہناشروع کردیا فوج آگئی حکومت گئی کسی صحافی نے خواجہ آصف سے پوچھ لیا۔ جمہوریت پر شبخون مارے جانے کا خطرہ ہے۔ جواب ملا جب تک عمران خان جیسے لوگ موجود ہیں خطرہ برقرار رہے گا۔ ملک میں سیاست نزع کی حالت میں ہے۔ دوبارہ اقتدار کی ہوس اس قدر حواس پر چھا گئی ہے کہ روز نت نئے بیانیے سامنے لائے جا رہے ہیں کچھ سوجھتا نہیں۔ آنکھیں بند کریں تو سامنے وزیر اعظم کی کرسی، آنکھیں کھولیں تو بنی گالہ کے گرد پولیس تعینات رات کو ہیلی کاپٹر کی آواز سے خوفزدہ ساڑھے تین بجے کسی نامعلوم مقام کی طرف روانگی، لیڈری کا شوق، گرفتاری کا ڈر کریں تو کیا کریں جائیں تو کہاں جائیں، ارادے باندھتا ہوں توڑتا ہوں جوڑ لیتا ہوں۔ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ایسا نہ ہوجائے۔ اک تعیناتی پہ منحصر ہے بنی گالہ کی رونق، اس پر ضد بازی، کیسے لیڈر ہیں جن کا انحصار پہلے اسٹیبلشمنٹ پر تھا اب عدالتوں پر ہے۔ خوش بختی اب تک ساتھ دے رہی ہے۔ اتنے خطرناک کیس میں صرف 5 ہزار کے مچلکے پر ایک ہفتہ کی ٹھنڈی میٹھی ضمانت، خان صاحب کہاں ہیں بلائیں۔ وکیل نے کہا بنی گالہ پر پولیس تعینات ہے۔ فرمایا حفاظتی ضمانت دیے دیتے ہیں بڑے خان صاحب پورے طمطراق سے آئے اور پانچ منٹ میں ضمانت لے کر چلے گئے۔ خوش بختی اسی کا نام ہے جو ”ٹھیکے“ پر لائے گئے تھے انہیں ڈھائی سو پیشیوں کے بعد ریلیف ملا تو این آر او ٹو کا شور مچا دیا۔ خوامخواہ کنٹرول ٹاور کو ملوث کرنے کی کوششیں نام لے کر ٹوئٹ کرنے پر اعظم سواتی گرفتار ہوئے تو سینیٹ میں شور شرابہ بندہ ایسے کام کیوں کرے کہ بقول عبید ابو ذری مرحوم ”پلس نوں کواں میں رشوت خور تے فیدہ کی بعد وچ کردا پھراں ٹکور تے فیدہ کی“ اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنے تحریری حکم نامے میں ہدایت کی کہ فارن فنڈنگ کیس میں منگل (کل) کو اسپیشل جج سینٹرل سے رجوع کریں کرلیں گے وکیل ساتھ ہیں تو ڈرکاہے کا ممنوعہ فنڈنگ کیس بڑا واضح اور پھنسانے والا کیس ہے۔ ابراج گروپ کے عارف نقوی کی جانب سے 21 لاکھ ڈالر آئے جو مبینہ طور پر سیاسی مہم پر لگا دیے گئے 11 افراد کے خلاف مقدمہ درج ہوا جس میں 420 (دھوکہ دہی) 468 (جعلسازی) 471 (جعلی دستاویزات) 477، 109 اور دیگر دفعات لگائی گئیں۔ ایف آئی اے نے کئی نوٹس بھیجے خان صاحب نے ایف آئی اے کو نوٹس بھیج دیا کیا یاد کرے گی کس سے واسطہ پڑا تھا 6  اکتوبر کو ایف آئی آرکٹ گئی۔ خان صاحب عدالت پہنچے اور ضمانت کرالی۔ باہر پولیس کھڑی رہ گئی اس قسم کے کئی کیسز ہیں عدالتیں کب تک ضمانتیں دیتی رہیں گی کپتان اسی صورتحال سے خوف زدہ اور مایوس ہیں کنٹرول ٹاور سے مایوس، اپنوں کی بے وفائیوں اور بالا ہی بالا رابطوں پر برہم، مخالفین کو دبائے رکھنے کے لیے سوشل میڈیا کا جو جال بچھایا تھا وہی خطرہ بن کر سامنے آرہا ہے۔ مکافات عمل کسی نامعلوم ہیکر نے 18 ویڈیوز انتہائی گندی اور ناقابل دید، لیڈروں میں نوابی شوق کہاں سے آگیا، 18 میں سے کپتان کی 7 شاہ محمود کی 4، اسد عمر 2، قاسم سوری 2 فواد چوہدری مراد سعید اور اعظم خان کی ایک ایک جبکہ عمران اسماعیل کی دو ویڈیوز شامل۔ اللہ نامعلوم ہیکر کو ہدایت دے اور وہ ویڈیوز وائرل کرنے سے باز رہے۔ کپتان اتنے خوفزدہ ہوئے کہ انتخابی جلسوں میں اپنی چار سالہ کارکردگی بتانے کی بجائے ویڈیوز کا ذکر کر کے سیاسی مخالفین کو کھری کھری سناتے رہے۔ ویڈیوز جھوٹ کا پلندہ ہیں تو ڈرنا کیسا۔ لیکن اندر کا خوف گھبراہٹ کا باعث بن رہا ہے۔ حضرت علامہ اقبال نے لندن سے اپنے بیٹے جاوید اقبال کو لکھ بھیجا تھا ”خدا کرے کہ جوانی تیری رہے بے داغ“ ہمارے لیڈر اس وقت ہوتے تو حضرت علامہ فرماتے ”خدا کرے کہ بڑھاپا رہے
تیرا بے داغ“ کیا ویڈیوز اتنی خطرناک ہیں کہ سائفر،قتل کی سازش اور دیگر بیانیے سب بھول گئے۔ یقینا ہوں گی جبھی تو اس قدر خوفزدہ ہیں بات نہیں بن پا رہی۔ کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے۔ سیانوں نے کہنا شروع کردیا کہ سابق وزیر اعظم اپنے سیاسی اختتام کی جانب گامزن ہیں تمام طوطا کہانیاں ناکام ہو رہی ہیں۔ بقول ہمارے ایک محترم تجزیہ کار یہ وقت کس کی رعونت پر خاک ڈال گیا۔ یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں مگر ٹھہریے کہانی اتنی جلدی ختم نہیں ہوگی۔ پس پردہ کئی کردار باقی ہیں کپتان کو عوام کی حمایت بھی حاصل ہے۔ جلسوں کے بعد انہوں نے لانگ مارچ کی کال دینی ہے جو فواد چوہدری کے بقول اسی ہفتہ دے دی جائے گی کال کے اعلانات تو کب سے کیے جا رہے ہیں 25 مئی کو کپتان کا میڈیا 3 کروڑ عوام کی نوید سنا رہا تھا جبکہ لانگ مارچ میں صرف 10 ہزار افراد تھے۔ اب لاکھوں کا دعویٰ ہے لیکن پی ٹی آئی کے اندرونی سرکل نے جو رپورٹ دی ہے اس کے مطابق پنجاب سے 4 ہزار، کے پی کے سے 8 ہزار اور سوات وغیرہ سے ڈیڑھ دو ہزار افراد آسکیں گے۔ جلسوں کی بات اور ہے لانگ مارچ میں پولیس کے لاٹھی چارج، آنسو گیس اور گرفتاریوں کا نفسیاتی خوف شامل ہوتا ہے اس لیے اس قسم کے مارچ میں مریم نواز کو قتل کی دھمکیاں دینے والے ”فارغ نوجوان“ ہی شامل ہوتے ہیں کپتان ان ہی وجوہات کی بنا پر ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہیں مردان اور راولپنڈی کے اجتماعات میں ان کی تقریریں اس کیفیت کا پتا دیتی ہیں راولپنڈی کے اجتماع میں شیخ رشید نے آر یا پار کا مشورہ دیا لگتا ہے شیخ صاحب کی نوکری بھی ختم ہوگئی ہے۔ ٹیلیفون نہ بلاوا بڑے برہم تھے کہا ”قاضی چور اور چوکیدار مل گئے ہیں عمران خان نے کہا چوروں کو این آر او دینے والے غدار ہیں کن کو کہا ہم کیوں گناہگار ہوں سب کو پتا ہے بس ہمیں پتا نہیں۔ اعظم سواتی کو پتا چل گیا پکڑے گئے اب ”برہنہ کر کے تشدد“ کی شکایت کر رہے ہیں پہلے ننگے نہ ہوتے تو بچے رہتے حدیں پار، تمام ریڈ لائنیں کراس، لڑائی بڑھ گئی، اب ہوگا دمادم
مست قلندر پنجاب میں لانگ مارچ کے عددی قوت فراہم کرنے کے لیے ”مولا جٹ“ مقرر کردیے گئے عمر سرفراز چیمہ مشیر داخلہ بنا دئیے گئے کس نوری کو نتھ ڈالنا مقصود ہے ہاشم ڈوگر ہچکچا رہے تھے ان سے استعفیٰ لے کر دوسری وزارت دے دی گئی۔ کہنے لگے ذاتی مصروفیات اور صحت کے مسائل کے پیش نظر مستعفی ہو رہا ہوں۔ کمال ہے تین دن میں ذاتی مصروفیت بھی ختم ہوگئیں صحت بھی مشاء اللہ اچھی ہوگئی۔ دوسرا قلمدان سپرد کردیا گیا۔ پنجاب سے دل خوش کن خبریں نہیں آرہیں۔ سیاسی منظر نامہ بدل رہا ہے۔ پنجاب میں تبدیلی کے لیے تین چار کھلاڑی نیٹ پریکٹس کر رہے ہیں۔ عون چوہدری اور علیم خان لندن میں نواز شریف سے ملاقات کر کے حال ہی میں لوٹے ہیں۔ ”رخ انور“ کی زیارت کرنے یا چاند دیکھنے نہیں گئے تھے باہم صلاح مشورے ہوئے ہوں گے۔ جہانگیر ترین کے مطابق پی ٹی آئی کے 20 ایم پی ایز اور  10 ایم پی ایز اور 10 ن لیگی ارکان ان کے ساتھ رابطے میں ہیں عون چوہدری کی سابق گورنر چوہدری سرور سے ملاقات ہوئی ہے۔ چوہدری سرور کی چوہدری شجاعت اور چوہدری شجاعت کی وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقاتیں خالی از علت نہیں۔ ادھر جنوبی پنجاب میں مخدوم احمد محمود جہانگیر ترین سے صلح صفائی کر کے رابطوں کا محاذ بنا رہے ہیں۔ سب سے اہم بات جمعہ کو سپریم کورٹ کا 63 اے کے بارے میں 95 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ ہے جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ منحرف ارکان کے ووٹ گنتی میں شامل نہیں ہوں گے۔ اہم فیصلہ ہے وفاقی حکومت اور پنجاب کی اپوزیشن اس سلسلہ میں سپریم کورٹ سے رجوع کرسکتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی گورنر پنجاب وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا کہہ سکتے ہیں اسپیکر سبطین خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی آسکتی ہے۔ دیر کس بات کی گھنٹی نہیں بجی۔ گھنٹی بجتے ہی کارروائی شروع ہوجائے گی لوگ بیٹھے ڈھول بجاتے رہیں گے اس کے بعد ہی نواز شریف اسلام آباد کی بجائے لاہور کے اپنے بنائے ہوئے ایئر پورٹ پر اتریں گے اور لکھپت جیل کی بجائے جاتی عمرہ روانہ ہوں گے جس کے بعد نئی کہانی شروع ہوگی۔ حضرت علامہ نے کہا تھا ”زمانے کے انداز بدلے گئے، نیا راگ ہے ساز بدلے گئے“ کپتان کے خلاف کئی مقدمات ہیں کسی بھی وقت نا اہلی کا پروانہ مل سکتا ہے۔ ضمنی انتخابات فضول کی مشق خان صاحب اب تک میانوالی سے رکن قومی اسمبلی ہیں ان کا استعفیٰ منظور نہیں ہوا۔ انہیں ضمنی انتخابات کی تمام نشستوں سے دستبردار ہونا ہوگا جن پر پھر انتخاب ہوگا اس تمام دھندے میں پھر 50 کروڑ خرچ ہوں گے لانگ مارچ روکنے کے لیے وفاقی حکومت نے 41 کروڑ کی منظوری دی ہے۔ پر امن حالات میں یہ تمام رقم سیلاب زدگان کی بحالی پر خرچ کی جاسکتی تھی لیکن کس کو کون سمجھائے کپتان کی ضد پر اربوں قربان ملک کا اللہ نگہبان ملک و قوم سیلاب زدگان، مہنگائی، پیٹرول، گیس کسی خیر کی پروا نہیں بس 29 نومبر سے قبل حالات کپتان کے قابو میں آنے چاہیں لیکن خلیج اتنی بڑھ چکی کہ مفاہمت کا پل بنانا صدر علوی سمیت کسی کے بس میں نہیں رہا۔ کنٹرول ٹاور نے چار سالہ کارکردگی سے مایوس ہو کر ہاتھ کھینچ لیے اتحادیوں نے مایوسی کے عالم میں ساتھ چھوڑ دیا جس کے بعد یہ دن دیکھنے پڑے بقول فیض احمد فیض ویراں ہے مے کدہ خم و ساغر اداس ہیں تم کیا گئے کہ لوٹ گئے دن بہار کے“ دھمکیاں مایوسی، خوف اور پریشانیوں میں بدل رہی ہیں۔ گرفتاری کا خوف ہر وقت حواس مختل کیے رہتا ہے کپتان نے ہارے ہوئے امیر لشکر کی طرح کہہ دیا کہ مجھے اپنا آرمی چیف اپنا چیف الیکشن کمشنر اور اپنا آئی جی نہیں چاہیے بس تعیناتی میرٹ پر ہونی چاہیے۔ کھیل ختم، تعیناتیاں میرٹ پر ہی ہوں گی۔ کپتان نے عمر عزیز کے 5 ماہ خوامخوا بے سروپا بیانیوں میں ضائع کردیے مفاہمت سے اب تک کئی مسائل حل ہوجاتے کنٹرول ٹاور کے الٹی میٹم کے بعد سارے خواب بکھرنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں لگتا ہے جی کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا محترم مجیب الرحمان شامی کی بات دل کو لگی کہ کپتان کے سارے فیصلے ذاتی سارا سفر بے سمت جس کی کوئی منزل نہیں۔

تبصرے بند ہیں.