اک ”تباہ۔سات“

21

دوستو،ان دنوں کرکٹ اور موسم سرما کے چرچے ہیں۔۔کرکٹ کا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سرپر ہے۔۔ اور پاکستان کا پہلا مقابلہ ہی روایتی حریف بھارت کے ساتھ ہے، جس کی ساری ٹکٹیں فروخت ہوچکیں۔۔ دوسری طرف ہم نے اپنے گھر کے اطراف سوپ کے ٹھیلے آباد دیکھنا شروع کردیئے ہیں، اس کا واضح مطلب ہے کہ سردیاں آرہی ہیں، ویسے کراچی میں ان دنوں دوپہر میں شدت کی گرمی اور شام کو خنکی کا ماحول ہوتا ہے۔۔
بات سردیوں میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والے آئٹم، سوپ کی ہورہی تھی۔۔کہتے ہیں کہ دنیامیں جتنی بھی چیزوں سے جوس نکالاجاتا ہے، ان میں مرغی اب بھی پہلے نمبر ہے، پاکستان میں تو سب سے زیادہ مرغی کا ”جوس“ ہی نکالاجاتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہمارے ملک میں ایک مرغی سے تقریباً سوا دوسو بیرل یعنی ساڑھے بارہ سو گیلن یعنی پانچ ہزار لیٹر تک جوس کشید کیاجاتا ہے۔یہ دنیا کا واحد جوس ہے جسے گرم کرکے پیاجاتا ہے، ماڈرن لوگ یا نوجوان نسل اب اس جوس کو یخنی یا سوپ کا نام دیتے ہیں، ہمارے زمانے میں تو ریڑھی والے بڑے فخر سے اپنی ریڑھی پر لکھواتے تھے۔۔طاقت کا خزانہ، مرغی کا جوس۔۔دراصل یہ وہ پانی ہوتا ہے جس سے مُرغی کی میت کو مسلسل تین دن تک غسل دیا جاتا ہے،اور ہمارے ملک کے سجیلے جوان حرارتِ جاں کیلیے اِن ریڑھیوں کے ارد گرد بیٹھ جاتے ہیں،اور سوپ پی کر ایسے انگڑائی لیتے ہیں جیسے نرگس ڈانس شروع کرنے سے پہلے انگڑائی لیتی ہے۔باباجی کی ریسرچ کے مطابق اگر اس جوس سے کپڑوں کو کلف دیا جائے تو ہر کپڑا کاٹن لگے، یہ ایسا گدیلا پانی ہوتا ہے جو جسم کے اندر جاکر ٹھنڈا ہونے کے بعد سینہ ہی جکڑ لیتا ہے اور جوڑوں میں بیٹھ جاتا ہے۔ہمارا ایمان تو پانچ سال پہلے اسی روز ریڑھی پر فروخت ہونے والے سوپ،یخنی یا جوس سے اس وقت اٹھ گیا تھا جب ہم اپنے محلے کے قریب بہت مشہور سوپ والے کے ٹھیلے پر گئے، رات دو بجے کا ٹائم تھا،ہم نے دیکھا وہ دکان بند کررہا تھا۔۔ بچے ہوئے سوپ سے زمین پر چھڑکاؤ کر رہا تھا، اور مرغی کو لپیٹ کر فریزر میں رکھ رہا تھا۔
چلیں آج آپ کو کچھ ایسی تحریروں کے اقتباسات سناتے ہیں، جنہیں پڑھ کر ہم اپنی ہنسی نہیں روک سکے تھے۔۔ سچن ٹنڈولکر اپنی صبح کا آغاز چوبیس سال تک مسلسل روزانہ تقریباً 67 اوورکھیل کر کرتا تھا اور اس نے ان چوبیس سال میں ایک دن بھی ناغہ نہیں کیا حتیٰ کہ وہ اپنی شادی اور ورلڈ کپ فتح والے دن بھی 67 اوور کھیل چکا تھا۔یہ بات سچن ٹنڈولکر کو بھی جاوید چوہدری کا کالم پڑھ کر پتہ چلی تھی۔۔لیجنڈ مزاح نگار مشتاق یوسفی اپنی کتاب آب گم میں بزبان مرزا فرماتے ہیں کہ۔۔ کراچی کی ہوا میں اتنی رطوبت اور لوگوں کی دلوں میں اتنی رقت ہے کہ کھلے میں ہاتھ پھیلا کر اور آنکھیں موند کر کھڑے ہو جاؤ تو پانچ منٹ میں چلو بھر پانی اور ہتھیلی بھر پیسے جمع ہو جائیں گے اور چھ منٹ تک آنکھیں موندے رہے تو پیسے غائب ہو جائیں گے۔۔کہتے ہیں کہ پطرس بخاری ریڈیو سٹیشن کے ڈائریکٹر تھے ایک مرتبہ مولانا ظفر علی خان صاحب کو تقریر کے لئے بلایا تقریر کی ریکارڈنگ کے بعد مولانا پطرس کے دفتر میں آ کر بیٹھ گئے۔ بات شروع کرنے کی غرض سے اچانک مولانا نے پوچھا۔ پطرس یہ تانپورے اور تنبورے میں کیا فرق ہوتا ہے۔پطرس نے ایک لمحہ سوچا اور پھر بولے۔ مولانا آپ کی عمر کیا ہو گی؟ اس پر مولانا گڑبڑا گئے اور بولے۔ بھئی یہی کوئی پچھتر سال ہو گی۔ پطرس کہنے لگے۔ مولانا جب آپ نے پچھتر سال یہ فرق جانے بغیر گزار دئیے تو دو چار سال اور گزار لیجئے۔۔ایک لڑکی نے معروف شاعر فیض احمد فیض سے کہا۔۔ فیض صاحب مجھ میں بڑا تکبر ہے، اور میں بہت انا کی ماری ہوئی ہوں، کیونکہ صبح جب میں شیشہ دیکھتی ہوں تو میں سمجھتی ہوں کہ مجھ سے زیادہ خوبصورت اس دنیا میں اور کوئی نہیں۔۔فیض صاحب بڑے باذوق انسان تھے، مسکراکرلڑکی کو دیکھا اور کہنے لگے۔۔ بی بی! یہ تکبر اور انا ہرگز نہیں یہ غلط فہمی ہے۔۔ فیض احمد فیض کی وفات کے بعد ایک رپورٹر نے معروف شاعر منیر نیازی سے پوچھا۔۔ فیض کے انتقال سے جو خلا پیدا ہوا ہے اسے پُر کرنے کی ذمہ داری اب آپ پر عائد ہوتی ہے، اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟؟اس پر منیر نیازی نے نہایت انکساری سے جواب دیا۔۔یہ تو آپ لوگوں کی عنایت ہے ورنہ میں تو فیض صاحب کی زندگی میں بھی ان کا خلا پُر کرتا رہاہوں۔۔
اگر عام ناول پڑھیں تو اس میں ڈائیلاگ کچھ اس قسم سے تحریر ہوگا۔۔لڑکے نے لڑکی کا ہاتھ پکڑا اور دونوں ساحل پر چہل قدمی کرنے لگے۔۔عمیرہ احمد کے ناول میں یہی ڈائیلاگ کچھ اس انداز سے ہوگا۔۔ لڑکے نے فجر کے وضو میں دھوئے ہوئے ہاتھوں سے ماہِ مبارک میں چھٹکتی چاندنی جیسی دودھیا رنگت کی حامل لڑکی کا سیاہ دستانوں میں ملبوس گورا اجلا ہاتھ تھاما اور دونوں بآوازِ بلند الحمد للہ کہتے ہوئے ننگے پیر ساحلِ سمندر کی پاک ریت پر دھیمے قدموں سے چلنے لگے۔۔نسیم حجازی اسی لائن کو کچھ اس طرح تحریر کرتے۔۔ نوجوان نے،جس کا چہرہ آہنی خود میں نصف چھپا تھا،مگر عقابی آنکھوں میں محبت کی لکیریں واضح تھیں۔نیام میں تلوار درست کرتے ہوئے مڑ کر اپنی محبوبہ کو دیکھا،شرم وحیا کی دیوی،جس کے ہونٹ اظہار محبت کرتے ہوئے کپکپا رہے تھے اور وہ کچھ کہہ نہ سکی۔دور نوجوان نے لشکر کو دیکھا اور گھوڑے کو ایڑ لگا دی۔۔خواتین رائٹرز کی تحریروں میں ہیروئین کوئی سپر مخلوق ہی ہوتی ہے۔۔ہم نے دس سے زائد خواتین رائٹرز کے ناول پڑھے سب کی ہیرؤنز میں ایک قدر مشترک تھی وہ یہ کہ۔۔ہیروئین بہت پھرتیلی تھی۔ باحیا، والدین کی عزت کرنا اور ایک عدد محبوب بنائے رکھنا یہ ثانوی باتیں ہیں۔۔پھرتیلی ہیروئین کے حوالے سے بہت سارے ناولوں سے کشید کیا ایک اقتباس آپ بھی پڑھیئے۔۔”اس کے ابو اور وہ عید نماز پڑھنے گئے اس نے جلدی سے شیر خورمہ بنایا اور سویاں بھی بنائیں ساتھ میں اس کی پسند کے شاہی ٹکڑے بھی بنائے اور کھیر مکس تیار کرنے لگی اسی دوران اس نے چولہے پر کڑاھی رکھ دی تاکہ ابو جان کے آنے سے پہلے پکوڑے تل سکے ساتھ میں پودینے کی چٹنی بھی گھول لی اور کھیر مکس کیلئے بادام توڑنے لگی جلدی سے اس نے شاور لیا شاور لینے سے پہلے اسے یاد آیا کہ اس کے گھر میں واش روم نہیں ہے اس نے چھوٹے کو بھیج کر بجری اور ریت منگوا لی سیمنٹ اس نے خود بنایا تھا آخر سگھر بیٹی تھی جلدی جلدی واش روم بنا کر نہا کر نکلی تو اماں نے کہا چاول بنا لو اور اچار بھی نکال لو ابو نماز پڑھ کر آنے والے ہونگے وہ چاول بنانے لگی اسی اثنا میں اس نے اچار بھی ڈال لیا چھوٹے بھائی کا بیڈ ٹوٹ گیا چاول کو دم دیکر وہ رندا اور ہتھوڑی اٹھا کر بیٹھ گئی بیڈ بنا کر چاول کو دم سے نکالا تب تک اچار بھی گھل گیا ہلکا سا میک اپ کر کے اس نے گھڑی دیکھی ابھی ابو کے آنے میں پانچ منٹ تھے وہ فصل کی کٹائی کیلئے نکل گئی ابو کے آنے تک دو مربع فصل کاٹ آئی اب وہ تیار ہو کر اس کا اور اپنے ابو کا انتظار کر رہی تھی کہ وہ اندر داخل ہوئے۔۔“
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔مولانا رومی فرماتے ہیں۔۔رات کو سو جانے کے بعد قیدی قید خانے کی تکلیف سے اور بادشاہ اپنی سلطنت  اور دولت کے احساس سے بے خبر ہو جاتے ہیں۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

تبصرے بند ہیں.