پاکستان کی تاریخ میں اکتوبر کا مہینہ بلیک اکتوبر کی حیثیت سے یاد رکھا جاتا ہے کیونکہ 7 اور 8 اکتوبر 1958 کو پاکستان کے اولین صدر میجر جنرل سکندر مرزا نے ملک میں پہلا مارشل لا نافذ کیا اور اس وقت کے آرمی چیف جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنا دیا۔ یاد رہے کہ میجر جنرل سکندر مرزا میر جعفر کے پڑ پوتے تھے۔ وہی میر جعفر جس نے بنگال کے نواب سراج الدولہ کے ساتھ غداری کی اور انگریزوں کے ساتھ مل گیا جبکہ اس کی نسل کے سکندر مرزا نے قائداعظم کے فرمان سے غداری کر کے جمہوریت پر پہلا پتھر مارا۔ اس کے بعد مختلف فوجی سربراہ میر جعفر کے پڑپوتے سکندر مرزا کی راہ پر چلتے ہوئے مختلف حیلے بہانوں سے مارشل لا نافذ کر کے ملک کو اندھیروں میں دھکیلتے رہے۔ اگر ملکی تاریخ کو دیکھا جائے تو مملکت پاکستان کے 13 میں سے 5 سربراہ مملکت یعنی صدر پاکستان فوجی سربراہ رہے۔ جن میں سکندر مرزا، ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاالحق اور جنرل مشرف شامل ہیں۔ جب جب بھی جمہوریت پر شب خون مارا گیا صرف جرنیلوں اور ان کے حواریوں نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے جبکہ عوام اور ملک کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ یہ صدور اپنے دور کے مطلق العنان حکمران رہے ان کا دورانیہ بھی سویلین صدور سے زیادہ رہا۔ ان پانچ فوجی صدور کے علاوہ اکثر سویلین حکومتوں کے پیچھے بھی فوج کا خفیہ ہاتھ رہا ہے۔
اکتوبر 1958 کو جنرل ایوب خان نے صدر کا منصب سنبھال لیا۔ یاد رہے کہ ایوب خان کو الیکٹورل کالج نے منتخب نہیں کیا تھا تاہم اپنے عہدے کو قانونی چھتری فراہم کرنے کے لیے انھوں نے 1960 میں ایک نام نہاد ریفرنڈم منعقد کرایا جس میں حسب توقع انھیں بھاری حمایت فراہم کی گئی۔ بعد میں ان کے جانشینوں نے بھی اپنے اقتدار کے لیے اسی طرح کے جعلی ریفرنڈم کرائے۔
ایوب خان حکومت کے خلاف عوامی ناپسندیدگی رفتار تیزی سے بڑھتی گئی، بالآخر 25 مارچ 1969 کو ایوب خان اپنا عہدہ ایک اور فوجی جنرل آغا محمد یحییٰ خان کے سپرد کر کے چل دیا۔
جنرل یحییٰ خان پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سب سے رنگیلا صدر تھا۔ اسی بدبخت عیاش کے دور میں قائد اعظم محمد علی جناح کے پاکستان کے دو ٹکڑے ہو گئے اور اس پر ستم یہ کہ اتنا بڑا جرم کرنے کے بعد وہ نہ صرف سزا سے بچ گیا بلکہ سرکاری اعزازات کے ساتھ دفن ہوا۔
تاہم بھارت سے بدترین شکست اور ملک کے دولخت ہونے پر رائے عامہ یحییٰ خان کے خلاف ہو گئی اور اس کا مزید اپنے عہدے پر برقرار رہنا
ناممکن ہو گیا۔ 20 دسمبر 1971 کو عنانِ اقتدار ایک سویلین ذوالفقار علی بھٹو کو سونپ کر چلتا بنا۔ لیکن اس ملک کے جرنیلوں کو جمہوریت پر شب خون مارنے اور اقتدار کی لت لگ چکی تھی۔ اسی نشے میں بھٹو کے اپنے نامزد کردہ فوج کے سربراہ جنرل ضیاالحق 1977 میں انھیں معزول کر کے ملک کا تیسرا چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ ضیا الحق نے اس بھٹو کو جس نے بھارت سے 90 ہزار قیدی چھڑائے اور ہزاروں ایکڑ رقبہ بغیر کسی تاوان کے واپس لیا پھانسی پر لٹکا دیا۔ ہر ڈکٹیٹر کی طرح اس مدتِ صدارت کو توسیع دینے کے لیے جنرل ایوب کی مانند جنرل ضیا کو بھی ریفرنڈم کی بیساکھیوں کی ضرورت پڑی۔ 1984 میں اس نے جعلی ریفرنڈم کرایا جس میں وہ 95 فیصد ووٹ لے کر سرخ رو ہوئے۔ آخر 17 اگست 1988 کو گیارہ برس کے بعد اس ملک کی جان صدر ضیاالحق کے اقتدار سے تب چھوٹی جب اس کا طیارہ بہاولپور کے قریب فضا میں پھٹ کر تباہ ہو گیا۔
نواز شریف نے بھی ماضی سے سبق نہ سیکھتے ہوئے میرٹ سے ہٹ کر ایک جونیئر جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف بنا دیا۔ اسی جنرل مشرف نے 12 اکتوبر 1999 کو نواز شریف کی حکومت کو برطرف کیا تو اپنے لیے چیف ایگزیکٹو کا عہدہ منتخب کیا۔ لیکن انھیں محسوس ہوا کہ ملک کے دوسرے فوجی سربراہان کی طرح ان پر صدارت ہی سجے گی، اس لیے اس نے بھی ایک جعلی ریفرنڈم منعقد کرایا اور رفیق تارڑ کو گھر بھجوا کر 20 جون 2001 میں خود صدارت کا حلف اٹھا لیا۔
آجکل چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر باجوہ کے اس بیان کو بڑی پذیرائی مل رہی ہے جس میں انہوں نے کسی ملک، فرد یا گروہ کو پاکستان میں سیاسی اور معاشی طور پر پاکستان میں عدم استحکام پیدا نہ کرنے دیں گے اور اس کے علاوہ فوج کی سیاست سے کنارہ کشی کا بارہا اعادہ کر چکے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا وہ ان بربادیوں کا بھی ذکر کرتے جو فوجی مداخلت کی وجہ سے اس ملک و قوم کو جھیلنا پڑیں۔ ساتھ ساتھ اگر وہ جاتے جاتے اپنے پانچ پیش رو جنہوں نے اس ملک کو مارشل لا کے اندھیروں کے سپرد کیا کا بھی ذکر مذمت کر دیتے تو جمہوریت کے لئے بہتر ہوتا۔
اچھی بات ہے اس بیانیے کی تعریف کے ساتھ ساتھ دعا کرنی چاہیے کہ آنے والے فوجی سربراہان بھی ان کی اس بات پر عمل کریں گے۔ کیونکہ یہ بیانیہ ایک ایسے فوجی جرنیل کا ہے جس کی مدت ملازمت کو قریباً دو ماہ رہ گئے ہیں۔ لیکن کہتے ہیں نہ دودھ کے جلے چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتے ہیں اور ماضی دیکھ کر ڈر ہی لگتا ہے۔ پھر بھی دعا ہے کہ جنرل قمر باجوہ کے جا نشیں بھی اس پر قائم رہیں گے۔
گو کہ چودہ جماعتی حکمران اتحاد اس بیان کو اپنے حق میں گردان رہا ہے اور واحد اپوزیشن جماعت اور اس کے لیڈر عمران خان کے خلاف ایک وارننگ قرار دے رہا ہے۔ لیکن تحریک انصاف اور ہر جمہوریت پسند کا موقف یہ ہے کہ پر امن احتجاج ہر جمہوری معاشرے کا حق ہوتا ہے اور اسے کسی طور پر غصب نہیں کیا جاتا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری فوجی اسٹیبشلمنٹ کا ذائقہ بدلتا رہتا ہے۔گزشتہ 75 سال کی تاریخ پر روشنی ڈالیں تو 70 سال مسلم لیگ ہی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی پسندیدہ رہی ہے۔ بیچ میں پاکستان تحریک انصاف کا تین سالہ دور حکومت آیا جس میں بے وفا فوجی اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو گلے لگا لیا۔کہتے ہیں ناں پرانی محبت نہیں مرتی اس لیے مسلم لیگ کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کو خدمات کے پیش نظر ایک بار پھر مسلم لیگ سے رجوع کر لیا اور آج ایک بار پھر نواز شریف ان کی آنکھ کا تارا ٹھہرے۔ گو کہ پیپلز پارٹی پر جو بھی الزام دھر لیں لیکن یہ کبھی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے در پر نہیں جھکی۔ گو کہ بھٹو خاندان کے عاقبت نااندیش آصف علی زرداری نے لاڑکانہ کے شہیدوں کے خون سے غداری کر کے کئی بار فوجی اسٹیبلشمنٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن انہیں اتنی ہی گھاس ڈالی گئی جس کے وہ حقدار تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے جو کچھ بھٹو خاندان سے کر دیا وہ لاڑکانہ کے پانچ شہدا بشمول دو خواتین کی قبریں گواہ ہیں۔ یہ خوف ہے یا کچھ اور کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ ان پر اعتماد نہیں کرتی اور ان سے معاملہ کرنے سے ڈرتی ہے۔ آصف علی زرداری کو جو تھوڑی بہت گھاس ڈالی گئی اس کی وجہ بھی یہ تھی کہ زرداری بھٹو تھا نہ ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ لیکن ڈیل اور سازش کرنے میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے ان عناصر کو بھی ڈپٹی وزیر اعظم بنا لیا جن کو اس کی مرحومہ بیوہ شہید بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں موت کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ اسی اقتدار کی رسہ کشی کے لیے اس نے اپنے بیٹے بلاول زرداری کے نام کے ساتھ بھٹو کا لاحقہ بھی لگا دیا۔ نتیجتاً وہ بھٹو رہا نہ زرداری اور کوئی بیچ کی چیز بن گیا۔
آرمی چیف کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنے خون سے اپنے ملک کی سالمیت اور خودمختاری کی حفاظت کی ہے، آج ہم جس مقام پرہیں وہ ہزاروں بیٹوں کی جانوں کی قربانیوں کی وجہ سے ہیں، مادر وطن کے ایک ایک انچ کی حفاظت کریں گے۔ غالباً وہ بھول گئے کہ ملک کی بیٹیوں نے بھی مادر وطن کے لیے جانیں دیں ان کا بھی ذکر کر دیتے تو ان کے حوصلے بھی بڑھتے۔
ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ان مارشل لاؤں کی آبیاری ہمارے سیاستدانوں نے ہی کی ان کی آمد پر مٹھائیاں بانٹی گئیں بلکہ نواز شریف کا سیاسی جنم بھی ایک ڈکٹیٹر ضیاالحق کی گود میں ہوا۔ لیکن سیاستدانوں نے کوئی سبق نہ سیکھا اورآدھا وطن اور تین وزرا اعظم کھو کر بھی یہ آج بھی اسی ڈگر پر چل رہے ہیں ان پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ اللہ ہی انہیں راہ ہدایت دے۔ آمین
کالم کے بارے میں اپنی رائے اس وٹس ایپ 03004741474 پر بھیجیں۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.