اپنا آئین اور اپنے ملزم

24

بڑوں سے ایک بات سنتے تھے کہ ایک نوجوان شدید گرمی کے موسم میں سخت دھوپ میں کام کر رہا تھا کہ اس کے باپ کی نظر جب پڑی تو شفقت پدری نے جوش مارا اور اس نے بیٹے سے کہا کہ بیٹا دھوپ میں بڑی تپش ہے تھوڑا چھاؤں میں آ جاؤ تو بیٹے نے سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا کہ ابا کوئی بات نہیں۔ جب باپ کے بار بار کہنے کے باوجود بھی بیٹا چھاؤں میں نہیں آیا تو باپ گھر گیا جو کہ قریب ہی تھا اور پوتے کو لا کر دھوپ میں کھڑا ہو گیا بیٹے کی نظر جب اپنے بیٹے پر پڑی تو تڑپ اٹھا اور باپ سے کہا کہ ابا کچھ ہوش کریں معصوم جان ہے اور آپ اسے دھوپ میں لے کر کھڑے ہوئے ہیں۔ باپ نے کہا کہ بیٹا جس طرح تمہیں اپنے بیٹے کو دیکھ کر تکلیف ہوئی ہے اسی طرح مجھے بھی اس گرمی کے موسم میں تمہیں تپتی دھوپ میں کام کرتے ہوئے تکلیف ہو رہی تھی۔ اب پتا چلا کہ ایک باپ کے جذبات اور احساسات کیا ہوتے ہیں۔کچھ سال پہلے ایک ہی دن دہشت گردی کے دو مختلف واقعات میں دو مسالک کے بندے مارے گئے اور دونوں کے الگ الگ جنازے پڑھائے گئے تو اس وقت ہم نے کہا تھا کہ اپنے اپنے شہید اور اپنے اپنے جنازے لیکن چند روز پیشتر چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے تا حیات نا اہلی کے قانون کو جس طرح اور جس پیرائے میں کالا قانون کہا گیا تو بے اختیار ذہن میں خیال آیا کہ اب تو وطن عزیز میں آئین اور ملزم بھی اپنے اپنے ہیں اور اگر کوئی کالا قانون ہے تو اس کا احساس دلانے کے لئے ریاست کا دل ماں کے جیسا ہو یا نہ ہو لیکن ایک ایسے ملزم کا ہونا نہایت ضروری ہے کہ جس کے لئے منصفوں کے دل میں کم از کم باپ جیسے احساسات و جذبات موجود ہوں۔ 2017کوئی بہت زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ عوام بھول جائیں اس وقت ملزم میاں نواز شریف تھے تو تاحیات نااہلی کا قانون وقت کی  عین ضرورت بھی تھا اور اس پر عملدرآمد میں کوئی قباحت بھی نہیں تھی اور اس وقت اس قانون کی سفیدی اور چمک بھی آنکھوں کو خیرہ کئے جا رہی تھی لیکن ایسے لگتا ہے کہ گذرے پانچ برس کی دھول نے اس قانون کے منہ پر کالک مل دی ہے یا پھر اس مرتبہ اس قانون کے مقابل کوئی ایسا بندہ آ
گیا ہے کہ جسے دیکھ کر اس قانون نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنا منہ کالا کر لیا ہے وجہ کچھ بھی ہو اب اس قانون کو کالے قانون کا درجہ حاصل ہو چکا ہے۔
چند روز قبل میاں نواز شریف کا ایک انٹرویو سوشل میڈیا پر سننے کا اتفاق ہوا۔ اس میں میاں صاحب نے اپنی شریک حیات مرحومہ کلثوم نواز کے بیماری کے ایام اور ان کی موت کے حوالے سے جو گفتگو کی۔ اس میں وہ سو فیصد حق بجانب تھے۔ محترمہ کلثوم نواز ان کی شریک حیات تھیں اور اپنی زندگی کے آخری ایام انھوں نے بیماری کی حالت میں جس کرب میں گذارے اس میں میاں صاحب کا یہ حق بنتا تھا کہ انھیں محترمہ کلثوم نواز کے آخری ایام میں ان کے ساتھ رہنے اور ان کی تیمارداری کا کرنے کا موقع دیا جاتا اور اسی طرح محترمہ مریم نواز کا بھی یہ حق بنتا تھا کہ وہ اپنی والدہ کی تیمارداری کرتے ہوئے ان کی زندگی کے آخری ایام میں ان کے ساتھ رہتیں لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہوا اور محترمہ کلثوم نواز اس دنیا سے رخصت ہو گئیں اور یقینا میاں صاحب اور مریم نواز کے ساتھ یہ ایسی زیادتی ہے کہ جس کا ازالہ کسی طور ممکن نہیں ہے۔ بات یہیں تک محدود نہیں بلکہ دوران علالت مخالفین نے ان کی بیماری پر کیا کیا کچھ نہیں کہا تھا اور میاں صاحب نے درست کہا کہ یہاں تو ستم یہ ہے کہ بیماری ثابت کرنے کے لئے انسان کو مر کر دکھانا پڑتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ سیاست میں بھی رواداری کا مظاہرہ کیا جاتا تھا اور خواتین کا تو خاص طور پر احترام کیا جاتا تھا اور چاہے وہ سیاست میں متحرک ہی کیوں نہ ہوں ان کی کردار کشی اور پھر ان پر تشدد کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا لیکن پھر ایوب خان کے دور میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی تذلیل کی گئی اور جنرل ضیاء کے دور میں تمام حدود کو پار کیا گیا۔ محترمہ نصرت بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کو نہ صرف یہ کہ ایک لمبے عرصہ کے لئے پابند سلاسل رکھا گیا بلکہ محترمہ نصرت بھٹو پر لاہور میں ایک کرکٹ میچ کے دوران جس طرح قذافی سٹیڈیم میں سرکاری غنڈوں کے ہاتھوں تشدد کر کے انھیں لہو لہان کیا گیا یہ بربریت کی ایک بدترین مثال تھی۔ اسی طرح دور عمرانی میں محترمہ مریم نواز کو جس طرح گرفتار کیا گیا اسے ماسوائے انتقام کے اور کچھ نہیں کہہ سکتے اس لئے کہ اگر گرفتاری بہت ضروری بھی تھی تو کچھ اخلاقیات کے تقاضے ہوتے ہیں کیا ضروی تھا کہ ایک بیٹی جو کہ اپنے والد سے جیل میں ملنے گئی ہو اسے والد کے سامنے ہی گرفتار کرنا ہے۔ گھنٹہ آدھا گھنٹہ اگر تاخیر سے گرفتاری ہو جاتی تو کون سی قیامت آ جانی تھی اور یہ سب اس جماعت کے دور میں ہوا کہ جس نے شہباز گل کے دو روز کے ریمانڈ پر آسمان سر پر اٹھا لیا تھا اور شہباز گل کی گرفتاری پر پوری جماعت شہنشاہ جذبات کا کردار ادا کر رہی تھی۔
عمران خان قانون اور انصاف کے دوہرے معیار پر لمبے لمبے بھاشن دیتے ہیں لیکن بات جب اپنے گریبان تک پہنچتی ہے تو پھر فارن فنڈنگ کیس میں بھی برسوں تاخیری حربے استعمال کئے جاتے ہیں اور ہاں یاد آیا کہ اب تو سائفر کی تین آڈیوز آچکی ہیں اور چوتھی آڈیو میں تو خان صاحب ایم این اے خریدنے کی بات کر رہے ہیں تو اس سے تو صاف پتا چل رہا ہے کہ جس فعل کا ارتکاب خان صاحب خود کرتے ہیں اس کا الزام دوسروں پر لگا کر واویلہ شروع کر دیتے ہیں تاکہ لوگوں کی توجہ ان سے ہٹ کر دوسروں پر رہے لیکن ان لیکس کے بعد ہمارا خیال ہے کہ اب خان صاحب کی اخلاقی حیثیت پہلے جیسی نہیں رہی اس لئے اب اگر وہ اپنے کسی مخالف پر الزام لگائیں گے تو عوام اس پر بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے یقین نہیں کریں گے اور ہمارا موقف تو پہلے بھی یہی تھا کہ کرپشن کی بات ہو یا سازش اور غداری کے لزامات۔ بغیر ثبوت کے کوئی بات کیسے مانی جا سکتی ہے اور ان لیکس نے ہماری بات پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے بہر حال ان لیکس پر تو علیحدہ تفصیل سے لکھیں گے بات ہو رہی تھی کہ اپنے اپنے ملزم اور اپنا اپنا آئین تو جن معاشروں میں ایسی صورت حال ہو گی تو وہاں پر عدل و انصاف اور آئین اور قانون کی بالادستی ایک خواب بن کر رہ جاتی ہے اور من مانے فیصلے عوام میں احساس محرومی کا سبب بنتے ہیں اور معاشرے میں تقسیم کا عمل بڑھ جاتا ہے۔ افسوس کہ اس کا محرک وہ لوگ بن رہے ہیں جو سب سے زیادہ انصاف کا نام لیتے ہیں آخر میں بس ایک گذارش ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں سیاسی یا آئین کی تشریح کا جو بھی کیس جائے تو اس پر فل کورٹ بنا کر کیس کا فیصلہ کیا جائے تاکہ ہر کچھ عرصہ بعد بندے دیکھ کر جو مختلف فیصلے سنائے جاتے ہیں اور ان کی وجہ سے اکثر اوقات جو سوالات جنم لیتے ہیں ان کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔

تبصرے بند ہیں.