بلاول بھٹو، مریم نواز اور مولانا

83

میاں محمد نوازشریف کی لندن میں حالیہ میڈیا ٹاک کی بازگشت زیر بحث اور محافل کا موضوع ہے ان کے پیغام میں جو کمی رہ گئی تھی ان کے سیاسی مخالفین اپنی سی کوشش کر کے گفتگو کی عوامی مقبولیت میں اضافہ کا سبب بنا رہے ہیں۔ بین الاقوامی طور پر عزت اور شہرت رکھنے والی محترمہ بے نظیر بھٹو کو 27 نومبر 2007 کی شام قاتلانہ حملے میں شہید کر کے خاموش کرا دیا گیا جن کی شہادت کا ناقابل تلافی نقصان ابھی جاری ہے۔  محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 2011 کے سپانسرڈ جلسہ کے بعد ملکی سطح پر ایک کرکٹر کو قومی لیڈر کچھ اس انداز سے بنایا گیا کہ تمام میڈیا اور میڈیا پرسنز اس کو ہاتھوں ہاتھ لینے لگے دوسری جماعتوں سے بندے توڑ کر اس کی جماعت عوامی جماعت بنانے کی کوشش کی گئی اگر آج بھی اس کا کوئی حقیقی منشور اور ڈلیور کرنا پوچھے تو صرف الزام، انتقام، نفرت، کرپشن مافیاز، جھوٹ جھوٹ اور جھوٹ ہی جواب آئے گا قوم جو پہلے ہی نفرت کے ٹیلوں پر آباد ہے مزید نفرت بلکہ دشمنی کے پہاڑوں پر آباد ہو گئی۔ میاں نوازشریف کا اقتدار دراصل ان کے وزیراعظم ہوتے ہوئے ہی ختم ہو چکا تھا بعد میں تو ایک سکرپٹ تھا جس پر عمل ہونا تھا، سو ہوا۔ نیازی دور کا آغاز ڈرامے، اداکاری، جھوٹے اعداد و شمار اور انتقام سے شروع ہو۔ اوپر سے ٹوئٹر، جعلی اکاؤنٹ، سوشل میڈیا نے وہ دھول اڑائی کہ سچ دور دور تک نظر نہ آئے۔ حقیقی سیاست میں جب ادارے تھوڑا سا سستانا شروع کرتے تو بلاول بھٹو، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمان نیازی حکومت کی کھٹیا کھڑی کر دیتے پھر ادارے سنبھالا دینے آتے اور حکومت کو وقتی حکم امتناعی مل جاتا۔ غرض کہ سیاسی اعتبار سے پی ٹی آئی کوئی سیاسی جماعت تھی نہ ہے رہی بات مقبولیت وہ دراصل سوشل میڈیا سے آگے نہیں یا پھر نواز زرداری کے خلاف جذبات کا اظہار ہے۔ 2011سے جو تجزیہ کار عمران نیازی کو نہ جانے کیا بنا کر پیش کر
رہے تھے میں ان کا نام تو نہیں لوں گا لیکن آج ان کے خیالات اور یوٹیوب پروگرام سن لیں، دراصل عمران نیازی کو مسلط کر کے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا۔ خارجہ محاذ پر ملک تنہائی کا شکار ہی نہیں دوست ممالک کی ناپسندیدگی کا شکار بھی ہوا۔ ہمارے میڈیا میں جو کبھی صرف پرنٹ میڈیا ہوا کرتا تھا دائیں بازو کے لکھاریوں اور کالم نگاروں کی آماجگاہیں بن چکی تھیں بائیں بازو یا لبرل سوچ کے حامل خال خال ہی تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بائیں بازو کے لوگوں کے پاس کوئی خیمہ نہ رہا۔
ہے اب اس معمورہ میں قحط غم الفت اسد
ہم نے مانا کہ دلی میں رہیں مگر کھاویں گے کیا
والا معاملہ ہو گیا۔ وقت بدلا پرنٹ میڈیا الیکٹرانک میڈیا کے روپ میں برآمد ہوا بلکہ ترقی پا گیا پھر سوشل میڈیا ٹوئٹر کی دنیا آباد ہوئی۔ فیک نیوز، فیک اکاؤنٹس، فیک لیڈر، فیک دانشور فیک ہی فیک ہو گیا۔ بلاول بھٹو جنہوں نے ملک کو چند ماہ میں اقوام متحدہ، امریکہ، جرمنی، روس، سعودیہ، چین، نیوزی لینڈ بلکہ یوں کہئے کہ پوری دنیا میں دوبارہ قابل بھروسہ مقام دلایا مگر آج میڈیا خاموش ہے ان کی بین الاقوامی سطح پر پذیرائی کا ذکر تک نہیں، وجہ یہ ہے کہ بلاول بھٹو جناب ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے، محترمہ شہید کے بیٹے ہیں۔ دنیا میں کردار ہر وقت موجود چہرے بدلتے رہتے ہیں اس ہماری سیاست میں جناب بھٹو صاحب اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے بعد پیدا ہونے والا خلا کسی نے تو پُر کرنا تھا کردار ادا کرنا تھا گو کہ میاں نوازشریف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ آئے تھے مگر 1993 کے بعد راہیں جدا ہو گئیں۔ محترمہ مریم نواز بھی اسٹیبلشمنٹ سے جنگ میں سرخرو ہوئیں، میاں نوازشریف سرخرو ہوئے، بلاول بھٹو سرخرو ہوئے اور مولانا فضل الرحمان بھی۔ مولانا کی جمہوریت کے لیے ناقابل فراموش جدوجہد ہے۔ بات کرنا آسان ہوتا ہے مگر سامنا کرنا مشکل۔ شریف فیملی اپنی قوت اور لوگوں کی توقع سے زیادہ میدان میں کھڑی رہی۔ پیپلز پارٹی کا میدان سے بھاگنا خبر ہو گا جبکہ کسی دوسری جماعت کا کھڑے ہونا۔ پی ٹی آئی کبھی میدان میں کھڑی نہیں ہو سکتی اس کی افزائش، مزاج اور تربیت مختلف ہے۔ یہ جو اینکر، تجزیہ کار اس کے دفاع میں لگے ہوئے ہیں یہ شریف فیملی، سابق صدر زرداری اور بھٹو صاحب کے خلاف بغض کی وجہ سے ہیں یہ نہیں چاہتے کہ پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کی قیادت میں Come back کرے۔ میں لکھے دیتا ہوں آئندہ انتخابات میں محترمہ مریم نواز، بلاول بھٹو اور مولانا اور آزاد امیدوار کا انتخابات میں خاص کردار اور کامیابی ہو گی، مولانا سے میری مراد مذہبی سیاسی جماعت ہے وہ مولانا فضل الرحمان، مولانا سراج الحق، مولانا سعد رضوی یا کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ نئی صف بندیاں ہوں گی نئے تجربات ہوں گے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو سوشل میڈیا پر توجہ دینا ہو گی۔ آج 2000 نہیں 2022 ہے۔ دنیا ایک مٹھی میں ہے جس کو موبائل کہتے ہیں۔ جمہوریت کے حوالے سے بات کی جائے تو بھٹو صاحب کہتے تھے طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں مگر عمران نیازی کی انٹری کے بعد اب یہ منشور کا حصہ بلکہ عملی طور پر طاقت کا سرچشمہ پنڈی اور اسلام آباد ہے۔ میرے بڑے بھائیوں جیسے دوست ممتاز دانشور جناب مقصودحمد بٹ (روزنامہ جنگ) کہتے ہیں کہ آصف بھٹو لور ہے میں کہتا ہوں وہ سچ کہتے ہیں میں اس 51 سالہ خوبرو جوان کو رات دو بجے پھانسی گھاٹ پر Finish it کہتے ہوئے نہیں بھول سکتا۔ اور یہ قربانی ملک کی خاطر تھی۔ انسان چلا جاتا ہے کردار باقی رہتا ہے اب یہ کردار نوازشریف فیملی، بھٹو فیملی کے حصے آیا نیازی کا علم نہیں دیوار پھلانگتا ہے یا گیٹ۔ بہرحال آئندہ انتخابات بلاول بھٹو، مریم نواز اور کسی مولانا کے درمیان ہوں گے۔ میاں صاحب کا یہ کہنا کہ ان کی مخالفت میں ملک کا بیڑا غرق کر دیا، صحیح ہے۔ دراصل ایسا تو حقیقی معنوں میں بھٹو خاندان اور پیپلز پارٹی کے خاتمے سے جاری ہے۔

تبصرے بند ہیں.