بڑھتے مسائل اور حکمرانوں کی ہٹ دھرمی

12

ہر گزرتے دن کے ساتھ ملکی سیاسی حالات نئے تنازعات جن میں نئے انتخابات، سائفر ایشو، عمران خان کی ایوان صدر میں مبینہ ملاقات سے لے کر عمران خان کے وارنٹ گرفتاری، تک کی وجہ اور تمام سیاسی معاملات ہر گزرتے دن کے ساتھ پیچیدہ ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف تقریباً گزشتہ 6ماہ سے مسلسل احتجاج کے موڈ میں ہیں۔ اب یہ بات سننے کو مل رہی ہے کہ لانگ مارچ کا ہم نے ایسا پلان کیا ہے کہ حکومت بھی دنگ رہ جائے گی میں تھوڑا ماضی کی بات عمران خان کی کہی ہوئی ہی دہرانا چاہوں گی۔جب پی ڈی ایم کے جلسے اور مارچ کا آغاز ہوا تب عمران خان ہی وزارت عظمیٰ کے عہدے پہ فائز تھے، اُس وقت عمران خان نے ہی کہا تھا کہ یوں جلسے، جلوسوں سے ملکی ترقی رک جاتی ہے اور غیر ملکی انویسٹرز، سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے سرمایہ کاری نہیں کرتے مگر آج پھر سے ایک بار لانگ مارچ کیا ملک کی معشیت کو نقصان نہیں پہنچائے گا؟ کیا ہر چیز کا حل صرف دھرنوں اور سڑکوں پہ آنا ہے؟ آخر پارلیمنٹ میں کسی بات کا حل کیوں نہیں؟تحریک انصاف کا یہ دعویٰ ہے کہ صرف، عوام کی منتخب کردہ حکومت، ہی ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام لا سکتی ہے، یہ صرف ایک دعویٰ ہے کیا اس سے پہلے کیے ہوئے کسی دعوے پہ یہ پورا اتر سکی ہے۔ ماضی میں انہوں نے کیوں 126 دن کا دھرنا دیا اور کیوں انہوں نے مسلم لیگ (ن) کو قبول نہیں کیا۔ سیاست میں صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔تحریک انصاف کے چیئرمین اب تک 50 سے زیادہ عوامی جلسے کر چکے ہیں اور اس بات پہ زور دیا جا رہا ہے کہ شفاف انتخابات کا انعقاد کیا جائے۔ ابھی ملک میں عوام کن کن مسائل کا شکار ہے اس بات سے سب لاعلم ہیں بس اگر فکر ہے تو صرف کرسی کی۔ دوسری طرف اس بات پہ تحریک انصاف ایک بار پھر سے زور دے رہی ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا چاہئے۔ اس بات سے ٹھیک ہے ہمیں اختلاف نہیں کرنا چاہیے مگر ذرا ٹھہرئیے! اور رک کے نہ جانے ایسے بہت سے پاکستانی ہیں جو کتنے برس سے پاکستان سے باہر مختلف ممالک میں رہ رہے ہیں اُن کو کبھی یہاں کے مقامی عوام کے مسائل کا اُس طرح اندازہ نہیں ہو سکتا جس طرح یہاں کے مقامی لوگ ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھ سکتے ہیں۔ اب جب وہ لوگ ووٹ کاسٹ کریں گے تو اُن کی رائے کو کیسے درست سمجھیں گے۔ اس سے پہلے بھی دوہری شہریت کا ایشو عمران خان نے اُٹھایا تھا، اُس بات کو مانتے ہوئے ان پر پابندی لگائی گئی اور دوہری شہریت والے کو نااہل قرار دیا گیا مگر اب ووٹ کے لیے کیوں اس قدر بے چین ہیں۔ میری نظر میں ہر حلقے میں وہی شخص جیتے گا جو عوام کی سُنتا ہے اُن کے مسائل کو حل کرتا ہے وہ چاہے کسی بھی جماعت سے اُس کا تعلق کیوں نا ہو۔اگر ان کو عوام سے پیار ہو تو عوامی مسائل کو حل کرنے اور اُن مسائل پہ توجہ دلاتے نہ کہ اس وقت وہ لانگ مارچ کی تیاریاں کرتے اب تمام حکومتی مشینری لانگ مارچ کو روکنے پہ لگا دی جائے گی جیسے ریاست میں مزید کوئی اہم کام نہیں ہے اگر معاملات کو حل کرنے کے لیے یہی رسم رہی تو کبھی بھی معاملات نہیں سُلجھ سکتے۔ ابھی تک قوم کو بدترین سیلاب کا سامنا ہے جس میں سے کچھ علاقے اپنی روزمرہ زندگی کی طرف واپس آئے مگر جہاں اتنا جانی اور املاک کا نقصان ہوا اب وہاں ڈینگی وبا طول پکڑ رہی ہے۔عوام ڈینگی سے مر رہے ہیں، کوئی بے روزگاری اور بھوک کے ہاتھوں مر رہا ہے۔ مگر اس جانب کسی کی توجہ نہیں۔ ابھی گزشتہ 4 روز پہلے فیصل آباد شہر میں دن دیہاڑے سڑک پہ ہی دو موٹر سائیکل سواروں نے ایک شخص سے نقدی چھینی اور نہ دینے پہ اُسے بیدردی سے ہلاک کر دیا۔ لاہور کی سڑکوں پہ دن دیہاڑے کئی ڈکیتی کے واقعات اور موبائل فون چھیننے کی وارداتیں سامنے آ رہی ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ سٹریٹ کرائم بڑھ رہے ہیں یہ معاملات اُس وقت اس نہج پہ پہنچتے ہیں جب بے روزگاری، مہنگائی اور غربت میں اضافہ ہو مگر ان تمام معاملات کو دیکھے گا کون؟قوم کے معاملات تب حل ہوتے ہیں جب پارلیمنٹ کا احترام کر کے تمام معاملات کو پارلیمنٹ میں حل کرنے کو مقدم سمجھا جائے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان میں نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر ہونے والی سماعت کے دوران جسٹس منصور شاہ نے استفسار کیا کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین حلقے کے عوام کی مرضی کے بغیر اسمبلی کو کیسے اور کیوں چھوڑ آئے؟ نیب ترامیم سمیت تمام سوالات وہ اسمبلی میں بھی اُٹھا سکتے تھے۔ جس پر جسٹس عطا بندیال نے بھی ریمارکس دئیے کہ بہتر تھا کہ پارلیمنٹ کو اہمیت دیتے اور اس کا احترام کرتے۔مگر شاید تحریک انصاف اپنی اہمیت کو دکھانا چاہ رہی ہے اگر وہ یوں ہی پارلیمنٹ سے باہر بیٹھی رہے گی اگر پارلیمنٹ میں کوئی قانون پاس ہوتا ہے تو یوں ہی باہر بیٹھ کر اعتراضات ہی اُٹھاتی رہے گی آخر وہ خود کو پارلینٹ کا حصہ سمجھ کر اور احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے پارلمنٹ میں بیٹھ کر معاملات کو حل کریں ناکہ سڑکوں پہ نکلنے کی تیاری کریں۔ سڑکوں پہ نکل کر صرف احتجاج ہو سکتا ہے مگر قانون سازی نہیں اس کے لیے آخر کار پارلیمنٹ میں جانا ہی پڑے گا۔ایک اہم بات جو میں اس کالم کی وساطت سے عوام اور تمام سیاسی جماعتوں کے حکمرانوں کو کہنا چاہوں گی وہ یہ کہ ہمارا، افواج پاکستان نہایت اہم ادارہ ہے آج اگر یہ کہا جائے کہ ہمارے ملک کی بنیادیں اگر قائم ہیں تو وہ ہمارے اس ادارے کی وجہ سے ہیں اس کا ہر فیصلہ اور ہر کام اپنے انداز سے ہوتا ہے مگر ایک بات میں نہایت افسوس سے کہہ رہی ہوں جتنا ڈسکس اس ادارے کو ہر خاص و عام نے تحریک انصاف کے دور میں کیا اتنا کبھی ڈسکس نہیں کیا گیا۔ سیاست اور سیاسی مفادات اپنی جگہ مگر اداروں کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔اس وقت سیاسی صورتحال اور عوامی مسائل کو مد نظر رکھا جائے تو اس ڈولتی ہوئی معیشت میں اگر پھر سے یہ لانگ مارچ کرنے سڑکوں پہ نکلیں گے تو عوام مزید بے روزگار ہوں گے اور ملکی معیشت پہ منفی اثر پڑے گا اور عوام خودکشیوں پہ مجبور ہوں گے۔ اگر سیاسی جماعتیں اپنے مسائل کو ڈائیلاگ سے حل کرنے کی کوشش کریں تو نہ صرف سیاسی درجہ حرارت حد اعتدال میں رہتا ہے بلکہ اقتصادی میدان میں بھی استحکام نظر آتا ہے۔ سیاسی قیادتوں کو یہ بات سمجھنا ہو گی کہ جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا معاشی میدان کو بھی ٹھہراؤ نصیب نہیں ہو گا پی ٹی آئی کو چاہیے کہ وہ اعلیٰ عدلیہ کے مشورے پر غور اور تمام تر سیاسی معاملات کو پارلیمنٹ میں حل کرے۔

تبصرے بند ہیں.