پنجاب حکومت کا وفاق سے نیا کھیل؟

18

باغباں نے آگ دی جب آشیانے کومیرے
جن پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
کے مصداق
پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر داخلہ ہاشم ڈوگر کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت عمران خان کے لانگ مارچ کا حصہ نہیں بنے گی۔ایسے میں یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا کہ ہاشم ڈوگر اپنے کہے پر پہرا دیتے ہیں اورکیا عمران خان کے اسلام آباد کی جانب متوقع لانگ مارچ کے حوالے سے یہی پالیسی وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کی بھی ہے یا نہیں۔یاد رہے کہ ہاشم ڈوگر وہی شخص ہیں جنہوں نے عمران خان کے دست ِراست شہباز گِل کی گرفتاری کے موقع پر عمران خان اور انکے زعما کے بیانات کی سخت تردید کی تھی کہ جیل میں شہباز گِل پر جیل پولیس نے کسی قسم کا جنسی تشدد کیا ہے۔اپنے اس فعل پر پارٹی کمان کی جانب سے نہ صرف انکی سخت سرزنش کی گئی بلکہ ان پر اپنا یہ بیان واپس لینے پر بھی سخت دباؤ ڈالا گیا۔ ویسے پنجاب کے وزیر داخلہ ہاشم ڈوگر ایسا کہہ رہے ہیں تو یقینا اُن کی اس ضمن میں وزیر اعلیٰ پنجاب سے ضرور بات چیت ہوئی ہوگی۔اگر ایسا ہی ہے تو پھر یہ امر قابل ِ غور ہے کہ پرویز الٰہی کس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ کیا وہ واقعی عمران خان کے ساتھ ہیں جس کا اظہار وہ مسلسل اپنے بیانات کرتے رہے ہیں یاپھر و ہ وکٹ کے دونوں جانب کھیل کر اپنی حکومت کو بچانا چاہتے ہیں۔ جہاں تک وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء کا تعلق ہے تو وہ واضح کرچکے ہیں کہ پنجاب حکومت نے لانگ مارچ کی سرپرستی کی تو حکومت پنجاب میں گورنر راج لگانے سمیت دیگر آپشن پر سنجیدگی سے غور کر سکتی ہے۔ وزیرداخلہ رانا ثناء کی زیرصدارت پی ٹی آئی لانگ کے دوران امن وامان سے متعلق ان کیمرہ اجلاس بھی ہوا اور لانگ مارچ روکنے سے متعلق حکمت عملی کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔ وزیر داخلہ کو ممکنہ لانگ مارچ کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔ بریفنگ میں بتایا گیا کہ لانگ مارچ شرکاء کی تعداد 15 سے 20 ہزار ہونے کا امکان ہے۔ پی ٹی آئی لانگ مارچ کیلئے اسلام آباد پولیس، ایف سی، رینجرز، سندھ پولیس کی خدمات لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
دریں اثنا میڈیا کو اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں
ہاشم ڈوگر کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان لانگ مارچ کا اعلان کرتے ہیں تو پنجاب حکومت اس کا حصہ نہیں بنے گی۔لانگ مارچ کے شرکاء کو پنجاب حکومت کی جانب سے  سہولیات فراہم نہیں کی جائیں گی۔ہم سرکاری وسائل استعمال نہیں کریں گے۔وجہ صاف ظاہر ہے یہ ایک سیاسی معاملہ ہے، حکومت کو اس کا حصہ نہیں بننا چاہئے۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا اگر بطور وزیر داخلہ پنجاب آپ مجھ سے پوچھتے ہیں تو ہمارا کام یہ ہوگا کہ جتنے لوگ بھی لانگ مارچ کے لیے نکلیں گے ہم انہیں سکیورٹی مہیا کریں گے۔ تمام سڑکیں جام ہو جائیں گی تو ہم نے زندگی کے دیگر معاملات بھی چلانے ہیں۔اشیاء کی آمدورفت کو دیکھنا ہے۔ہم تو ان سارے معاملات میں مصروف ہوں گے۔ایک سیاسی کارکن کے طور پر ہم پنجاب حکومت سے کسی قسم کی مدد نہیں لیں گے۔نہ ہم پولیس سے کہیں گے کہ وہ جا کر کنٹینر اٹھائیں۔نہ ہم پولیس کو کہیں گے کہ وہ آگے جاکر اسلام آباد پولیس سے لڑے۔ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں اور ہم ایسا کوئی کام نہیں کریں گے۔اُ ن کے سارے انٹرویو میں یہ لائن کہ ہم شرکاء کو سکیورٹی فراہم کرینگے یقینا قابل غور ہے۔یعنی جب وفاقی حکومت کسی بھی صورت میں یہ نہیں چاہتی تحریک انصاف عمران خان کی قیادت میں اسلام آباد پر چڑھائی کرے اور صوبوں حکومتوں سے پولیس کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اس امر کا مطالبہ بھی کر رہی ہے کہ وہ لانگ مارچ کو اسلام آباد نہ پہنچنے دے، کیا پنجاب حکومت کی حفا ظت میں شرکاء کا بلا رکاوٹ اسلام آباد میں داخل کرانے کا اقدام قابل قبول ہوگا۔ کہیں پنجاب حکومت اور پنجاب کے وزیر داخلہ وفاقی حکومت سے کوئی نیا کھیل تو نہیں کھیل رہے؟ یعنی سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ عمران خان کو تمام شعوری مجرمانہ حرکتوں پر جوابدہ ہونا پڑے گا۔
ایسے میں شیخ رشید جن کی ماضی میں کی گئی بیشتر پیشن گوئیاں اگرچہ سچ ثابت نہیں ہوئیں، ایک نئی نوید دے رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ 15نومبر تک ملک کی سیاست کے تمام فیصلے ہوجائیں گے، عمران خان نے معاملے کو سلجھانے کیلئے راستے کھلے رکھے ہیں، عمران خان 12ربیع الاول کے بعد کسی بھی وقت کال دے سکتے ہیں۔انہوں نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سیاست کے لئے اکتوبر کا مہینہ اہم ہے، سارے اہم فیصلے اکتوبر میں ہوں گے، عام آدمی کا مسئلہ آٹا بجلی کا بل اور مہنگائی ہے۔شیخ رشید کے اس بیان سے آپ اگر اختلاف کرنا بھی چاہیں تو کرسکتے ہیں مگر انکی یہ بات کہ عام آدمی کا مسئلہ آٹا، بجلی کا بل اور مہنگائی ہے یقینا غلط نہیں۔ اب اس ساری صورت حال کی ذمہ دار سابقہ حکومت ہو یا پھر موجودہ حکومت۔ عام آدمی اس وقت جس طرح مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے وہ بھی ناقابل بیان ہے۔ آپ کو کسان، ٹرانسپورٹرز سمیت مختلف طبقہ ہائے زندگی سے تعلق والے افراد اس مہنگائی پر شدید احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ عام آدمی کی جیب یوٹیلٹی بلز اتار کر ہر ماہ خالی ہوجاتی ہے اور جس کے بعد سارا مہینہ ادھار مانگ کر گزارتا ہے۔ اسحاق ڈار کے پاکستان لوٹنے کے بعد اگرچہ کے ڈالر کے ریٹ کم اور پٹرول سستا ہوا ہے۔ تاہم مہنگائی کے جن کو قابو میں کرنے کے لئے اب بہت کچھ کرنا باقی ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف متوقع صورت حال کو بھانپ چکے ہیں ان کا کہنا ہے کہ عمران خان دنیا کا سب سے جھوٹا شخص ہے، اقتدارجانے پرمعاشرے میں زہر گھول رہا ہے،عمران خان حقائق کو توڑ مروڑ کر نفرت پیدا کررہا ہے اورآئندہ ہفتوں اسلام آباد مارچ کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ عمران خان اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد معاشرے میں زہر گھول رہا ہے، عہدہ سنبھالنے پر اندازہ ہوا کہ عمران خان نے کس طرح ملک کو اندرونی وبیرونی طور پر نقصان پہنچایا۔
ایسے میں سپہ سالار ِ پاک فوج قمر جاوید باجوہ اپنی متوقع ریٹائرمنٹ سے قبل بہت سی گتھیاں گویا سلجھا چکے ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا ہے کہ مسلح افواج خود کو سیاست سے دور کرچکی اور دور ہی رہنا چاہتی ہیں۔ واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے میں ظہرانے سے خطاب میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی مدت پوری ہونے پر سبکدوش ہونے کے عزم کا اظہار کیا۔  آرمی چیف نے کہا کہ مضبوط معیشت کے بغیر قوم اہداف حاصل نہیں کرسکتی،معیشت کو بحال کرنا اولین ترجیح ہے،کمزور معیشت کی بحالی ہرطبقے کی ترجیح ہونی چاہیے۔

تبصرے بند ہیں.